ہماری کوتاہیوں کااصل ذمے دار کون
پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی سے جمہوری حکومتوں کے خلاف پے درپے سازشوں کے ایسے جال بنے گئے
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کا اعتراف تو برملا کرتے رہتے ہیں لیکن اُن غلطیوں کے تدارک اور اصلاح کی کبھی کوئی کوشش نہیں کرتے بلکہ بار بار ایک ہی قسم اور نوع کی غلطی کو دہراتے ہوئے ملک و قوم کے لیے ہزیمت اور رسوائی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔
یہ بات گرچہ روز اول ہی سے روش اورعیاں ہے کہ ملک کی بقا، سالمیت اور ترقی وخوشحالی کاانحصار صرف نظامِ جمہوریت ہی سے وابستہ ہے لیکن ہم میں سے اکثر لوگ آج بھی غیر جمہوری نظام کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ اُس کی تائید وحمایت میں دلائل کے انبار بھی لگادیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو اِس ملک کو جتنا نقصان غیر جمہوری ادوار میں ہوا ہے اتنا کبھی منتخب ہوکر آنے والے حکمرانوں کے دور میں نہیں ہوا۔ اسلام کے نام پرمعرض وجود میں آنے والے اِس وطن عزیز کے بارے میں ہم ویسے تو یہی کہتے رہتے ہیں کہ چونکہ اس کی تشکیل 27 رمضان المبارک کی مقدس رات کو مکمل ہو پائی تھی لہذا ہمارایہ ملک تاقیامت پایندہ اور تابندہ رہے گامگر 16ء دسمبر 1971ء کی ایک منحوس شام کو اِس مملکت خداداد کو ہم سب نے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے۔
اُس وقت اقتدار کے مرکز پر تیرہ سال پر محیط ایک غیر جمہوری دور کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان ملک و قوم کی تقدیر کا واحد مالک ومختار بنا ہوا تھا۔ شومئی قسمت سے یہ فعل قبیحہ ایک ایسے حکمراں کے دور میں سرزد ہوا جس کا تعلق اُس طبقے سے تھا جس کی حب الوطنی اور نیک نیتی تمام شکوک و شبہات سے بالاتر تصورکی جاتی ہے۔
برصغیر کے عام مسلمانوں کی زبردست جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں یہ ملک معرضِ وجود میں تو آگیا لیکن قائد اعظم کی ناگہانی وفات کے فوراً بعد اِس پر حکمرانی کا تمام اختیار عوام کے منتخب نمایندوں کی بجائے صرف اور صرف ایک ایسے طبقے کے کچھ مخصوص افراد کے حوالے کردیا گیا جسے ہمارے آئین ودستور میں کسی بھی شق کے تحت ایسا کرنے کی اجازت نہ تھی۔
پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی سے جمہوری حکومتوں کے خلاف پے درپے سازشوں کے ایسے جال بنے گئے کہ کوئی بھی حکمراں سال دوسال سے زیادہ حکومت نہ کرسکا۔ سول حکمرانوں کو نااہل اور نالائق ثابت کرکے اپنے لیے حق حاکمیت حاصل کیا جاتا رہا۔وزرائے اعظم اِس قدر تیزی سے بدلے جاتے رہے کہ پڑوسی ملک کے حکمران جواہر لال نہرو کو ازراہ تفنن اور تضحیک یہ کہنا پڑا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم بدل دیے جاتے ہیں۔
دشمن ملک کے ایک وزیراعظم کی جانب سے اِس طنز اور تنقید کے باوجود ہم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور پھر 1958ء میں بالآخرجمہوریت کا ایک لمبے عرصے کے لیے خاتمہ بالخیر کر دیا گیا۔ جنرل اسکندر مرزا سے جنرل ایوب خان اور پھر جنرل یحییٰ تک غیرجمہوری حکمرانی کا ایسا دورگزرا جس میں عام لوگوں کی آوازکو دباکر جبر کے ذریعے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے کے اصول اور ضابطے بنائے گئے۔
ون یونٹ کے ذریعے ملک کو دو ایسی اکائیوں میں بانٹ دیا گیا، جن کے درمیان اتحاد و اتفاق کا زبردست فقدان تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ استحصال اور ناانصافی کا رویہ رکھ کر پہلے سے موجود احساس محرومی کو مزید فروغ دیا گیا۔ نفرت، تعصب اورصوبائیت کے بیج بوئے گئے۔لسانی شناخت کی لکیروںکو اور بھی گہرا کیاگیا۔
1970ء میں عوام کے پرزور مطالبے پرتاریخ کے سب سے صاف اور شفاف انتخابات تو کرائے گئے لیکن اُس کے نتیجے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا گیا۔اقتدار کے پر امن منتقلی میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے گئے، دانستہ و غیر دانستہ تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ نتیجتاً بنگال کے لوگوں کی جانب سے شروع کیا جانے والا احتجاج یقیناً ایک فطری ردعمل تھا جس کی تاب اسلام آباد میں بیٹھا ہمارا مقتدر طبقہ نہ لاسکا اور یہ ملک ہزاروں لاکھوں افراد کی جانی قربانیوں کے بعد بھی بچایانہ جاسکا۔دو قومی نظرئیے پر بننے والی اِس اسلامی ریاست کو ہمارے اس وقت کے حکمرانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی سے جتنا نقصان اُٹھانا پڑا شاید ہی دنیا کی کسی ریاست کو اٹھانا پڑا ہو۔
اس ملک کی کوئی عدالت اس سنگین اور گھناؤنے جرم کے مرتکب اصل کرداروں کو آج تک کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکی۔ قوم پر یہ عقدہ آج تک نہ کھل سکا کہ ملک توڑنے کی اس سازش کے پس پردہ کون کون سے چہرے اور مہرے کارفرما تھے۔سقوط ڈھاکا کے فوراً بعد جنرل یحییٰ نے جان بخشی کا وعدہ لے کر بچا کچا پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو کے حوالے کردیا اور یوں یہ معاملہ قصہ پارینہ بن کر تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہوگیا۔ ہم اپنی اِس حرکت پر وقتی طور پر آزردہ اور پشیمان تو ضرور ہوئے لیکن پھر چند سال بعد جمہوریت کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مزید مہمیزکرنے میںایک بار پھر لگ گئے۔
بھٹوکے بعد ایک بار پھر ایک جنرل نے اِس ملک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ایوب خان کی طرح وہ بھی گیار ہ سالوں تک تنہا اِس ملک کے مالک و مختار بنے رہے۔ بھٹو نے اپنے پانچ سالہ دور کے انتہائی نامساعد حالات میں اِس قوم کو ایک متفقہ آئین دیا اور ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی۔
جنرل ضیاء الحق اِس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انھیں سوویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ میں ایک اتحادی کے طور پر مکمل کردار ادا کرنے کا موقعہ نصیب ہوا اوروہ اِس موقعے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے کچھ نہ کیا۔وہ سویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ کو اپنی سالمیت کی جنگ سمجھتے ہوئے نہ صرف افغان مجاہدین کی مدد فرماتے رہے بلکہ امریکی محبت میں اس جنگ کو جہاد قرار دے کر اپنے نوجوانوں کو بھی اس کام پر لگاتے رہے۔
سوویت یونین کاشیرازہ تو بکھر گیا لیکن ہماری کوششوں سے بنائے گئے جنگجو مجاہدین اب ہمارے لیے ہی درد سر بن چکے تھے۔ وہ اب انتہائی خوفناک دہشتگردوں کا روپ دھارچکے تھے۔ امریکا اپنا مطلب نکل جانے کے بعد اب ہم سے بھی متنفر ہو چکا تھا۔اُس نے دہشتگردوں کی پرورش ا ور تربیت کا سارا الزام پاکستان کے سرتھوپ دیا۔ جنرل ضیاء کی پالیسیوں کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا۔
ہم پر دہشتگردوں کوپناہ دینے کاالزام لگتا رہا اور ہم خود دہشتگردوں کے حملوں کا نشانہ بھی بنتے رہے۔ ہمارے بچے، جوان اور بوڑھے مارے جاتے رہے اور دنیا ہمیں دہشتگردی کی سرپرستی کا الزام دیتی رہی۔ ہم معاشی واقتصادی طور پر تباہ ہوتے رہے اور دشمن ہمیں بدلے میں امداد اور ڈالرز لینے کے طعنے دیتے رہے۔
مذکورہ بالا تمام واقعات اورسانحات کا اگر بغور جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کرعیاں اور واضح ہوجاتی ہے کہ ملک و قوم کو درپیش تمام خطرات اور مشکلات کی وجہ جمہوری حکمرانوں کی ناقص اور غلط پالیسیاں نہیں بلکہ غیر جمہوری حکمرانوں کے یکطرفہ آمرانہ اور غیر ذمے دارانہ فیصلوں کا نتیجہ رہی ہیں۔ جمہوری ادوار میں قومی اہمیت کے تمام فیصلے ہمیشہ مل جل کراورسوچ سمجھ کرکیے گئے خواہ وہ عراق اورکویت کی جنگ کامعاملہ ہو یا پھر یمن میں لڑی جانے والی لڑائی کا۔ہر موقعہ پر ہم نے من مانے اور یکطرفہ فیصلے کرنے کی بجائے ساری قوم کی مرضی ومنشاء کو سامنے رکھ کرفیصلے کیے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے اِن فیصلوں سے ملک و قوم کو غیر ضروری مشکلات، ہزیمت اور پریشانی کا سامنا نہیں ہوا بلکہ ہمارے یہ فیصلے ایک آزاد، خود مختار اور باعزت قوم کے فیصلے تصورکیے گئے۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہماری خارجہ پالیسی کے تمام امور اور ضابطے طے کرنے کا اختیار ہمارے یہاں کبھی جمہوری حکمرانوں کو تفویض ہی نہیں کیاگیا۔ امریکا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت ساری خارجہ پالیسیاں ستر سال سے ہمارے یہاں کوئی اور بناتا رہا ہے، لیکن خارجی محاذ پر ناکامی کا سارا الزام جمہوری حکمرانوں کے کھاتے میں ضرور ڈال دیا جاتا رہا ہے۔
یہ بات گرچہ روز اول ہی سے روش اورعیاں ہے کہ ملک کی بقا، سالمیت اور ترقی وخوشحالی کاانحصار صرف نظامِ جمہوریت ہی سے وابستہ ہے لیکن ہم میں سے اکثر لوگ آج بھی غیر جمہوری نظام کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ اُس کی تائید وحمایت میں دلائل کے انبار بھی لگادیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو اِس ملک کو جتنا نقصان غیر جمہوری ادوار میں ہوا ہے اتنا کبھی منتخب ہوکر آنے والے حکمرانوں کے دور میں نہیں ہوا۔ اسلام کے نام پرمعرض وجود میں آنے والے اِس وطن عزیز کے بارے میں ہم ویسے تو یہی کہتے رہتے ہیں کہ چونکہ اس کی تشکیل 27 رمضان المبارک کی مقدس رات کو مکمل ہو پائی تھی لہذا ہمارایہ ملک تاقیامت پایندہ اور تابندہ رہے گامگر 16ء دسمبر 1971ء کی ایک منحوس شام کو اِس مملکت خداداد کو ہم سب نے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے۔
اُس وقت اقتدار کے مرکز پر تیرہ سال پر محیط ایک غیر جمہوری دور کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان ملک و قوم کی تقدیر کا واحد مالک ومختار بنا ہوا تھا۔ شومئی قسمت سے یہ فعل قبیحہ ایک ایسے حکمراں کے دور میں سرزد ہوا جس کا تعلق اُس طبقے سے تھا جس کی حب الوطنی اور نیک نیتی تمام شکوک و شبہات سے بالاتر تصورکی جاتی ہے۔
برصغیر کے عام مسلمانوں کی زبردست جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں یہ ملک معرضِ وجود میں تو آگیا لیکن قائد اعظم کی ناگہانی وفات کے فوراً بعد اِس پر حکمرانی کا تمام اختیار عوام کے منتخب نمایندوں کی بجائے صرف اور صرف ایک ایسے طبقے کے کچھ مخصوص افراد کے حوالے کردیا گیا جسے ہمارے آئین ودستور میں کسی بھی شق کے تحت ایسا کرنے کی اجازت نہ تھی۔
پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی سے جمہوری حکومتوں کے خلاف پے درپے سازشوں کے ایسے جال بنے گئے کہ کوئی بھی حکمراں سال دوسال سے زیادہ حکومت نہ کرسکا۔ سول حکمرانوں کو نااہل اور نالائق ثابت کرکے اپنے لیے حق حاکمیت حاصل کیا جاتا رہا۔وزرائے اعظم اِس قدر تیزی سے بدلے جاتے رہے کہ پڑوسی ملک کے حکمران جواہر لال نہرو کو ازراہ تفنن اور تضحیک یہ کہنا پڑا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم بدل دیے جاتے ہیں۔
دشمن ملک کے ایک وزیراعظم کی جانب سے اِس طنز اور تنقید کے باوجود ہم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور پھر 1958ء میں بالآخرجمہوریت کا ایک لمبے عرصے کے لیے خاتمہ بالخیر کر دیا گیا۔ جنرل اسکندر مرزا سے جنرل ایوب خان اور پھر جنرل یحییٰ تک غیرجمہوری حکمرانی کا ایسا دورگزرا جس میں عام لوگوں کی آوازکو دباکر جبر کے ذریعے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے کے اصول اور ضابطے بنائے گئے۔
ون یونٹ کے ذریعے ملک کو دو ایسی اکائیوں میں بانٹ دیا گیا، جن کے درمیان اتحاد و اتفاق کا زبردست فقدان تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ استحصال اور ناانصافی کا رویہ رکھ کر پہلے سے موجود احساس محرومی کو مزید فروغ دیا گیا۔ نفرت، تعصب اورصوبائیت کے بیج بوئے گئے۔لسانی شناخت کی لکیروںکو اور بھی گہرا کیاگیا۔
1970ء میں عوام کے پرزور مطالبے پرتاریخ کے سب سے صاف اور شفاف انتخابات تو کرائے گئے لیکن اُس کے نتیجے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا گیا۔اقتدار کے پر امن منتقلی میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے گئے، دانستہ و غیر دانستہ تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ نتیجتاً بنگال کے لوگوں کی جانب سے شروع کیا جانے والا احتجاج یقیناً ایک فطری ردعمل تھا جس کی تاب اسلام آباد میں بیٹھا ہمارا مقتدر طبقہ نہ لاسکا اور یہ ملک ہزاروں لاکھوں افراد کی جانی قربانیوں کے بعد بھی بچایانہ جاسکا۔دو قومی نظرئیے پر بننے والی اِس اسلامی ریاست کو ہمارے اس وقت کے حکمرانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی سے جتنا نقصان اُٹھانا پڑا شاید ہی دنیا کی کسی ریاست کو اٹھانا پڑا ہو۔
اس ملک کی کوئی عدالت اس سنگین اور گھناؤنے جرم کے مرتکب اصل کرداروں کو آج تک کٹہرے میں کھڑا نہ کرسکی۔ قوم پر یہ عقدہ آج تک نہ کھل سکا کہ ملک توڑنے کی اس سازش کے پس پردہ کون کون سے چہرے اور مہرے کارفرما تھے۔سقوط ڈھاکا کے فوراً بعد جنرل یحییٰ نے جان بخشی کا وعدہ لے کر بچا کچا پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو کے حوالے کردیا اور یوں یہ معاملہ قصہ پارینہ بن کر تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہوگیا۔ ہم اپنی اِس حرکت پر وقتی طور پر آزردہ اور پشیمان تو ضرور ہوئے لیکن پھر چند سال بعد جمہوریت کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مزید مہمیزکرنے میںایک بار پھر لگ گئے۔
بھٹوکے بعد ایک بار پھر ایک جنرل نے اِس ملک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ایوب خان کی طرح وہ بھی گیار ہ سالوں تک تنہا اِس ملک کے مالک و مختار بنے رہے۔ بھٹو نے اپنے پانچ سالہ دور کے انتہائی نامساعد حالات میں اِس قوم کو ایک متفقہ آئین دیا اور ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی۔
جنرل ضیاء الحق اِس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انھیں سوویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ میں ایک اتحادی کے طور پر مکمل کردار ادا کرنے کا موقعہ نصیب ہوا اوروہ اِس موقعے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے کچھ نہ کیا۔وہ سویت یونین کے خلاف امریکا کی جنگ کو اپنی سالمیت کی جنگ سمجھتے ہوئے نہ صرف افغان مجاہدین کی مدد فرماتے رہے بلکہ امریکی محبت میں اس جنگ کو جہاد قرار دے کر اپنے نوجوانوں کو بھی اس کام پر لگاتے رہے۔
سوویت یونین کاشیرازہ تو بکھر گیا لیکن ہماری کوششوں سے بنائے گئے جنگجو مجاہدین اب ہمارے لیے ہی درد سر بن چکے تھے۔ وہ اب انتہائی خوفناک دہشتگردوں کا روپ دھارچکے تھے۔ امریکا اپنا مطلب نکل جانے کے بعد اب ہم سے بھی متنفر ہو چکا تھا۔اُس نے دہشتگردوں کی پرورش ا ور تربیت کا سارا الزام پاکستان کے سرتھوپ دیا۔ جنرل ضیاء کی پالیسیوں کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا۔
ہم پر دہشتگردوں کوپناہ دینے کاالزام لگتا رہا اور ہم خود دہشتگردوں کے حملوں کا نشانہ بھی بنتے رہے۔ ہمارے بچے، جوان اور بوڑھے مارے جاتے رہے اور دنیا ہمیں دہشتگردی کی سرپرستی کا الزام دیتی رہی۔ ہم معاشی واقتصادی طور پر تباہ ہوتے رہے اور دشمن ہمیں بدلے میں امداد اور ڈالرز لینے کے طعنے دیتے رہے۔
مذکورہ بالا تمام واقعات اورسانحات کا اگر بغور جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کرعیاں اور واضح ہوجاتی ہے کہ ملک و قوم کو درپیش تمام خطرات اور مشکلات کی وجہ جمہوری حکمرانوں کی ناقص اور غلط پالیسیاں نہیں بلکہ غیر جمہوری حکمرانوں کے یکطرفہ آمرانہ اور غیر ذمے دارانہ فیصلوں کا نتیجہ رہی ہیں۔ جمہوری ادوار میں قومی اہمیت کے تمام فیصلے ہمیشہ مل جل کراورسوچ سمجھ کرکیے گئے خواہ وہ عراق اورکویت کی جنگ کامعاملہ ہو یا پھر یمن میں لڑی جانے والی لڑائی کا۔ہر موقعہ پر ہم نے من مانے اور یکطرفہ فیصلے کرنے کی بجائے ساری قوم کی مرضی ومنشاء کو سامنے رکھ کرفیصلے کیے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے اِن فیصلوں سے ملک و قوم کو غیر ضروری مشکلات، ہزیمت اور پریشانی کا سامنا نہیں ہوا بلکہ ہمارے یہ فیصلے ایک آزاد، خود مختار اور باعزت قوم کے فیصلے تصورکیے گئے۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہماری خارجہ پالیسی کے تمام امور اور ضابطے طے کرنے کا اختیار ہمارے یہاں کبھی جمہوری حکمرانوں کو تفویض ہی نہیں کیاگیا۔ امریکا اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت ساری خارجہ پالیسیاں ستر سال سے ہمارے یہاں کوئی اور بناتا رہا ہے، لیکن خارجی محاذ پر ناکامی کا سارا الزام جمہوری حکمرانوں کے کھاتے میں ضرور ڈال دیا جاتا رہا ہے۔