ہزارہ برادری کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کیے چیف جسٹس صدر وزیراعظم گورنر کو آج جواب دینے کا حکم
وزیراعظم اور گورنر ذمے داری قبول کریں، وفاقی و صوبائی حکومتیں ناکام ہوگئیں، فوج بلانے کا حکم نہیں دیں گے، ریمارکس
سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ اورہزارہ برادری کے قتل عام کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عبوری حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت بلوچستان میں امن امان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوگئیں۔
دونوں حکومتوں نے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کیں،عدالت کو اب پوچھنا پڑیگا کہ وزیراعظم اورگورنرسانحہ کوئٹہ کی ذمے داری قبول کیوں نہیں کررہے؟ اور ایک ہزار کلوگرام دھماکا خیزمواد ہزارہ ٹائون کیسے پہنچا ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ صدر ، وزیراعظم اور گورنرکو فیکس کرکے عدالت کا حکم پہنچایا جائے، تمام ادارے موجود ہیں مگرکوئی نہیں پکڑا جاتا، پچھلی بار وزیراعلیٰ پر ذمے داری عائدکی گئی تھی ۔ اب وزیراعظم اور گورنرخود یہ ذمے داری قبول کیوں نہیں کرتے ؟ ۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صدر، وزیراعظم اور گورنر، اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب داخل کرائیں جس میں بتایاجائے کہ ہزارہ برادری کی جان و مال کے تحفظ کیلیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں اور ملک میں نظام زندگی واپس لانے کیلیے صدر، وزیراعظم ، گورنر نے کیا اقدامات کیے ؟۔ پوری قوم سراپا احتجاج اور کاروبار مفلوج ہے۔
بلوچستان میں پولیس اور خفیہ ادارے اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں، کیا ایجنسیوں کا کام صرف ججوں کے فون ٹیپ کرنا ہے، فوج طلب کرنے کا حکم نہیں دیں گے، ملک جل رہا ہے، وزیر اعظم کو خودکوئٹہ جانا چاہیے تھا، شاہراہ دستور کی5 بلڈنگوں میں بیٹھ کر حکومت کرنے کا فائدہ نہیں،کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ملوث ہے تو اس کے خلاف کریک ڈائون کریں۔ مقدمے کی مزید سماعت بدھ کو پھر ہوگی ۔ منگل کو چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کے ذمے داروں کی فوری گرفتاری کا حکم بھی دیا۔
سانحہ کوئٹہ پر سیکریٹری دفاع کی رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ کیا رپورٹ پیدل آرہی ہے؟۔ اس موقع پر وفاقی سیکریٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ5روز دے دیں، تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک جل رہا ہے اور آپ کو رپورٹ تیار کرنے کیلیے ابھی بھی وقت درکار ہے؟۔ قبل ازیںسپریم کورٹ نے سماعت کے دوران قرار دیا تھا کہ بادی النظر میں بلوچستان میں امن امان کے قیام کے لیے خفیہ ایجنسیوں نے اپنی ذمے داری پوری کرنے میں غفلت کی یا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارو ںکو معلومات فراہم نہیں کی گئیں، تاہم عدالت اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے حکومت کو صوبے میںفوج طلب کرنے کا حکم نہیں دے گی۔
صوبے میں ایف سی کو بھی اختیارات حاصل ہیں، اس کے باوجود اتنا بڑا سانحہ ہوا جس میں800 سے 1000کلو گرام بارودی مواد استعمال ہوا۔سپریم کورٹ نے بلوچستان کے ایڈوکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی کی وساطت سے خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے اداروں کو اس واقعے کے متعلق رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ پورا ملک مفلوج ہو گیا،حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے ۔لوگ 48گھنٹوں سے لاشیں لے کردھرنا دیے بیٹھے ہیںاور اپنے پیاروں کو دفنانے کو تیار نہیں ہیں۔عدالت نے عبوری حکم لکھوانا شروع کیا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی کوئٹہ میں ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، پولیس کے مطابق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی اس دہشت گردی میں ملوث ہے ۔
جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میر ا منہ نہ کھلوائیں، کس طرح ایف آئی آر درج ہوئی اور ایف آئی آر کاکیا کریں گے؟، ایک بھی بندہ گرفتار نہیں کیا گیا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان واقع فیض آباد پل کو پارکرکے دکھادیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اداروں میں کس چیز کا خوف ہے، موت بار بار نہیں آتی صرف ایک بار آتی ہے ۔ شکر ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہے اور لوگ بہت سمجھ دار ہیں ورنہ دشمن تو اپنی پوری قوت سے شہریوں کو مار رہا ہے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ بلوچستان سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی اتنا بڑا دھماکا ہوا، کتنے لوگ پکڑے گئے؟، جس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ آج ایک کارروائی ہوئی ہے، جس میں4 ملزمان مارے گئے ہیں ۔
عدالت کے استسفار پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ قانون نافذکرنے والوں اداروں نے کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جس پر بینچ میں موجودجسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھاکہ کیا ان گرفتار ملزمان میں سے کسی کا براہ راست اس بم دھماکے کے واقعے سے کوئی تعلق ہے؟اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے خاموشی اختیارکی۔ دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت نے فی کس10لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا کہ کیا انسانی جان کی قیمت10 لاکھ روپے ہے، یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے ۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ طارق اسد نے عدالت سے استدعا کی کہ صوبے میں آئین کا آرٹیکل245لاگو کیا جائے، اگر جمہوریت بچاتے رہے تو زندگیاں نہیں بچیں گی۔
اس کیس میں ایک درخواست گزار طارق اسد نے کہا کہ آپ جمہوریت کو بچا رہے ہیں لیکن لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تحریری طورپر رپورٹ دیں، اگر رپورٹ ٹھیک نہ دی گئی تو کل پھر تمام ایجنسیوں کو عدالت میں طلب کرلیں گے۔ عدالت نے سیکریٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ خفیہ ایجنسی کے سربراہ ہیں، اپ کو پتہ نہیںبلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟۔ ایک موقع پر سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی بلوچستان کو معطل کردیا گیاہے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں اور عورتوں پر جو ظلم ہوا اس پر پوری قوم جوابدہ ہے ، دوران سماعت بلوچستان سے پیپلزپارٹی کے ایم این اے سید ناصر شاہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ کوئٹہ کو بچایا جائے ورنہ یہ آگ پھیل جائے گی ۔
دونوں حکومتوں نے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کیں،عدالت کو اب پوچھنا پڑیگا کہ وزیراعظم اورگورنرسانحہ کوئٹہ کی ذمے داری قبول کیوں نہیں کررہے؟ اور ایک ہزار کلوگرام دھماکا خیزمواد ہزارہ ٹائون کیسے پہنچا ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ صدر ، وزیراعظم اور گورنرکو فیکس کرکے عدالت کا حکم پہنچایا جائے، تمام ادارے موجود ہیں مگرکوئی نہیں پکڑا جاتا، پچھلی بار وزیراعلیٰ پر ذمے داری عائدکی گئی تھی ۔ اب وزیراعظم اور گورنرخود یہ ذمے داری قبول کیوں نہیں کرتے ؟ ۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صدر، وزیراعظم اور گورنر، اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب داخل کرائیں جس میں بتایاجائے کہ ہزارہ برادری کی جان و مال کے تحفظ کیلیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں اور ملک میں نظام زندگی واپس لانے کیلیے صدر، وزیراعظم ، گورنر نے کیا اقدامات کیے ؟۔ پوری قوم سراپا احتجاج اور کاروبار مفلوج ہے۔
بلوچستان میں پولیس اور خفیہ ادارے اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں، کیا ایجنسیوں کا کام صرف ججوں کے فون ٹیپ کرنا ہے، فوج طلب کرنے کا حکم نہیں دیں گے، ملک جل رہا ہے، وزیر اعظم کو خودکوئٹہ جانا چاہیے تھا، شاہراہ دستور کی5 بلڈنگوں میں بیٹھ کر حکومت کرنے کا فائدہ نہیں،کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ملوث ہے تو اس کے خلاف کریک ڈائون کریں۔ مقدمے کی مزید سماعت بدھ کو پھر ہوگی ۔ منگل کو چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کے ذمے داروں کی فوری گرفتاری کا حکم بھی دیا۔
سانحہ کوئٹہ پر سیکریٹری دفاع کی رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ کیا رپورٹ پیدل آرہی ہے؟۔ اس موقع پر وفاقی سیکریٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ5روز دے دیں، تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک جل رہا ہے اور آپ کو رپورٹ تیار کرنے کیلیے ابھی بھی وقت درکار ہے؟۔ قبل ازیںسپریم کورٹ نے سماعت کے دوران قرار دیا تھا کہ بادی النظر میں بلوچستان میں امن امان کے قیام کے لیے خفیہ ایجنسیوں نے اپنی ذمے داری پوری کرنے میں غفلت کی یا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارو ںکو معلومات فراہم نہیں کی گئیں، تاہم عدالت اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے حکومت کو صوبے میںفوج طلب کرنے کا حکم نہیں دے گی۔
صوبے میں ایف سی کو بھی اختیارات حاصل ہیں، اس کے باوجود اتنا بڑا سانحہ ہوا جس میں800 سے 1000کلو گرام بارودی مواد استعمال ہوا۔سپریم کورٹ نے بلوچستان کے ایڈوکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی کی وساطت سے خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے اداروں کو اس واقعے کے متعلق رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ پورا ملک مفلوج ہو گیا،حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے ۔لوگ 48گھنٹوں سے لاشیں لے کردھرنا دیے بیٹھے ہیںاور اپنے پیاروں کو دفنانے کو تیار نہیں ہیں۔عدالت نے عبوری حکم لکھوانا شروع کیا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی کوئٹہ میں ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، پولیس کے مطابق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی اس دہشت گردی میں ملوث ہے ۔
جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میر ا منہ نہ کھلوائیں، کس طرح ایف آئی آر درج ہوئی اور ایف آئی آر کاکیا کریں گے؟، ایک بھی بندہ گرفتار نہیں کیا گیا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان واقع فیض آباد پل کو پارکرکے دکھادیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اداروں میں کس چیز کا خوف ہے، موت بار بار نہیں آتی صرف ایک بار آتی ہے ۔ شکر ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہے اور لوگ بہت سمجھ دار ہیں ورنہ دشمن تو اپنی پوری قوت سے شہریوں کو مار رہا ہے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ بلوچستان سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی اتنا بڑا دھماکا ہوا، کتنے لوگ پکڑے گئے؟، جس پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ آج ایک کارروائی ہوئی ہے، جس میں4 ملزمان مارے گئے ہیں ۔
عدالت کے استسفار پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ قانون نافذکرنے والوں اداروں نے کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جس پر بینچ میں موجودجسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھاکہ کیا ان گرفتار ملزمان میں سے کسی کا براہ راست اس بم دھماکے کے واقعے سے کوئی تعلق ہے؟اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے خاموشی اختیارکی۔ دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت نے فی کس10لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا کہ کیا انسانی جان کی قیمت10 لاکھ روپے ہے، یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے ۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ طارق اسد نے عدالت سے استدعا کی کہ صوبے میں آئین کا آرٹیکل245لاگو کیا جائے، اگر جمہوریت بچاتے رہے تو زندگیاں نہیں بچیں گی۔
اس کیس میں ایک درخواست گزار طارق اسد نے کہا کہ آپ جمہوریت کو بچا رہے ہیں لیکن لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تحریری طورپر رپورٹ دیں، اگر رپورٹ ٹھیک نہ دی گئی تو کل پھر تمام ایجنسیوں کو عدالت میں طلب کرلیں گے۔ عدالت نے سیکریٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ خفیہ ایجنسی کے سربراہ ہیں، اپ کو پتہ نہیںبلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟۔ ایک موقع پر سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی بلوچستان کو معطل کردیا گیاہے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں اور عورتوں پر جو ظلم ہوا اس پر پوری قوم جوابدہ ہے ، دوران سماعت بلوچستان سے پیپلزپارٹی کے ایم این اے سید ناصر شاہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ کوئٹہ کو بچایا جائے ورنہ یہ آگ پھیل جائے گی ۔