قومی خزانہ بے رحمی سے لوٹنے والوں کو نتائج بھگتنا ہونگے چیف جسٹس

لاقانونیت کوجوازفراہم کرنے سے ملک مفلوج ہوچکا،کسی نے غلط کام کیاتوسزا ملنی چاہیے، ریمارکس،این آئی سی ایل کیس کی رپورٹ

غریب بچی بے رحمی سے قتل ہوگئی ،کوئی امیرزادی ہوتی توپورامحکمہ ہل جاتا،چیف جسٹس،آئی جی اسلام آبادکوتفتیش کی نگرانی کاحکم۔ فوٹو: فائل

این آئی سی ایل اراضی خریداری کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخارچوہدری نے ریمارکس دیے کہ قومی خزانے کواس بے رحمی سے لوٹنے والوںکونتائج بھگتنا ہوں گے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے این آئی سی ایل کی رقم سے مخدوم امین فہیم اوران کی اہلیہ کے مشترکہ اکائونٹ میں آنے والی رقم کے بارے میں ایف آئی اے کے وکیل کے دلائل سے عدم اتفاق کیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگرایف آئی اے نے کسی کوکلین چٹ دیناہے تودیدے لیکن ہماری پھر بھی کوشش ہوگی کہ اس کیس کی شفاف انکوائری ہو اورمجاز عدالت فیصلہ کرے۔ایف آئی اے کے وکیل منیرپراچہ کاکہنا تھا کہ امین فہیم کو ملنے والی رقم کااین آئی سی ایل سے کوئی تعلق نہیں، یہ رقم ایک پلاٹ کی فروخت کے نتیجے میں اکائونٹ میں آئی لیکن بعدمیں جب سودا منسوخ ہواتورقم واپس اصل کھاتے میں منتقل ہوگئی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا لین دین کا دعویٰ اس وقت سامنے آیا جب سارے پاکستان کوپتہ چل گیا کہ امین فہیم کو بھی4کروڑ روپے ملے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت یہ مشق اس لیے کررہی ہے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں اگرکسی نے غلط کام کیا ہے توسزابھی ملنی چاہیے،ملک آج اس لیے مفلوج ہو چکاہے کہ لا قانونیت کو جواز فراہم کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا موجودہ تفتیش کیساتھ بادی النظر میں ایف آئی اے کا کوئی کیس نہیںبنتا جبکہ منیر پراچہ کا کہنا تھا کہ ملزم کے دفاع کو بھی دیکھنا ہوگا۔چیف جسٹس نے کہااین آئی سی ایل کے لاہور والے کیس میںہر مرحلے پر مداخلت ہوئی اور ابھی تک وصولی نہیں ہوئی۔امین فہیم کے وکیل ایس ایم ظفر نے کہا قانون سب کیلئے یکساں ہے اور ہر شخص کوشک کافائدہ ملنا چاہیے۔




چیف جسٹس نے کہاایاز نیازی کی تقرری امین فہیم نے کی، وکیل صفائی کے مطابق لین دین کا معاملہ امین فہیم اور ظفر سلیمی کے درمیان تھا جبکہ رقم اکبر بٹ کے اکائونٹ سے منتقل ہوئی جوایاز نیازی کے فرنٹ مین تھے، ان سوالات کا جواب آنا چاہیے ۔ ایس ایم ظفرکا کہنا تھا کہ عدالت پہلے سے رائے قائم نہ کرے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے13سالہ بچی کے بے رحمانہ قتل میں ملوث افرادکو گرفتارکرنے کاحکم دیا ہے اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آبادکو خود تفتیش کی نگرانی کی ہدایت کی ہے۔اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن میںایک بچی کو قتل کے بعد جلائے جانے کے واقعہ کے ازخود نوٹس مقدمے کی سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد پولیس نے چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ کو بتایا متوفی غریب والدین کی بیٹی ہے اور نامزد ملزمان کے گھر پڑھائی کیلیے جاتی تھی جبکہ مقتولہ کی والدہ ان کے گھرکام کرتی تھی۔

تھانہ بھارہ کہومیں قیصر اور ان کی اہلیہ کیخلاف اغوا کاپرچہ بھی درج کیاگیا تھا لیکن بعد میں ان کی لاش آئی نائن سے برآمد ہوئی، لاش کی اطلاع نامعلوم فون کال پر ملی،انھوں نے کہا ملزم اور اس کی اہلیہ جسمانی ریمانڈ پرجبکہ ان کی بیٹی مہک ضمانت پر ہے۔عدالت نے کیس میں پولیس انکوائری پر عدم اطمینان کا اظہارکیا،جسٹس گلزار احمد نے کہا پولیس نے کیس خراب کر دیاہے،چیف جسٹس نے کہا پولیس نے ابھی تک یہ تفتیش نہیںکی کہ بچی کو جلانے کا مقصدکیا تھا اورکون ہے جس نے اطلاع دی۔

چیف جسٹس نے کہا یہ کوئی امیر زادی ہوتی تو ساراپولیس ڈپارٹمنٹ ہل جاتالیکن ایک غریب کی بچی مری ہے اور اے ایس آئی تفتیش پرلگ گیاہے،نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔چیف جسٹس نے کہاپولیس یہ دیکھے کہ اسلام آبادشہرکی بچی بے رحمی سے قتل ہوئی ہے اس کو ایک غریب کی بچی کاکیس نہ سمجھا جائے۔انسپکٹر جنرل پولیس نے یقین دہانی کرائی کہ کیس کے ملزمان جلدگرفتارکر لیے جائیں گے،ان کی درخواست پر مزید سماعت چار مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔
Load Next Story