گرتو برانہ مانے
ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 2009 میں نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (NACTA) تشکیل دی گئی
ٹرمپ کی افغان پالیسی پر ابھی شوروغوغا کم نہیں ہوا تھا کہ BRICS (برازیل ، روس ، انڈیا ، چین اور جنوبی افریقہ) ممالک کی سربراہ کانفرنس نے دو قدم آگے بڑھ کر ان تنظیموں کے نام بھی اپنے اعلامیے میں شامل کر دیے، جن پر عالمی سطح پر مذہب کے نام پردہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام ہے۔ ابھی متذکرہ بالا دونوں اعلامیوں کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اطلاع آئی کہ بقرعید کو سندھ کی صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن پر حملہ کرنے والے گروہ کا نام انصار الشرعیہ ہے جس میں جامعات سے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم نوجوان شامل ہیں۔
یہ تنظیم پولیس سمیت بعض اہم شخصیات کے قتل میں ملوث قراردی گئی ہے۔ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس کے اراکین نے افغانستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ یہ گروہ ان تمام افراد کو قابل گردن زدنی سمجھتا ہے، جو اس کے عقائد اور نظریات سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کوئی دو برس (مئی2015) قبل کراچی کے ایک علاقے میں قائم الاظہر اپارٹمنٹس کے مکینوں کی بس پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں 43 مسافر شہید ہوئے تھے۔ ان مسافروں کا گناہ یہ تھا کہ ان کا تعلق ایک مخصوص فقہی مسلک سے تھا۔اس سانحے کے حملہ آور بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے، جو صفورا گوٹھ سانحہ سے کوئی دو ہفتے قبل سرگرم سماجی کارکن سبین محمودکو بھی ان کی جرأت کے صلے میں قتل کرچکے تھے۔
اس حوالے سے دو طرح کے رجحانات سامنے آئے ہیں۔ کچھ روایتی مذہبی سوچ کے حامل عسکریت پسند گروہ ہیں، جنہوں نے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کی اور پھر مختلف نوعیت کی عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد خود کش حملے اور بم دھماکے کرتے ہیں، لیکن چند ایسے گروہ بھی منظر عام پر آرہے ہیں، جو عصری علوم کی جامعات سے جدید سائنسی علوم میں اعلیٰ اسناد کے ساتھ فارغ التحصیل ہیں۔ یہ گروہ عام طورپر مخالف خیالات اور نظریات کے حامل افرادکی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو قتل کرکے خوف و ہراس کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ ان گروہوں کی موجودگی اور کارروائیوں نے ریاستی منتظمہ کے دعوے باطل کردیے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صرف وہی مسلح جتھے جنھیں ''کافر'' روس کے خلاف جہاد میں جھونکنے کے لیے تیار کیا تھا، وہی نہیں بلکہ خود رو پودوں کی طرح ان گنت نئے متشدد گروہ بھی وجود میں آچکے ہیں جو پورس کے زخمی ہاتھیوں کی مانند اپنے ہی ملک کو روندنے پر آمادہ ہیں۔ نتیجتاً ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تقطیب (Polarization)میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے، جب کہ عام شہریوں اور نوجوانوں میں شدت پسندی کی لہر نے مزید شدت اختیار کی ہے۔ ویسے تو ان گنت واقعات ہیں، لیکن دو واقعات حالات کی حساسیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ اول،گزشتہ رمضان کے مہینے میں ڈاکٹروں نے ایک صفائی ورکر کو اس بنیاد پر طبی امداد دینے سے انکار کردیا کہ ان کا روزہ مکروہ ہوجائے گا۔
ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 2009 میں نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (NACTA) تشکیل دی گئی، جب کہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد جنوری2015میں نیشنل ایکشن پلان(NAP) تیار کیا گیا۔ اسے حکمرانوں کی نااہلی کہیں یا دہرا معیار کہ آج تک نہ تو NACTA فعال ہوسکی اور نہ NAP کی شقوں پر مکمل طور پر عمل ہوسکا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے ، تمامتر حکومتی دعوؤں کے باوجود دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، اگر حکومتی موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کی افغان پالیسی اور برکسBRICS ممالک کی سربراہ کانفرنس کے اعلامیے کو مسترد کر بھی دیا جائے، تو ہرچند روز بعد ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوںکے بارے میںکیا ردعمل ظاہرکیا جائے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ متذکرہ بالابیانات کو مسترد کردینے سے کیا عالمی رائے عامہ ہمارے حق میں ہموارہوجائے گئی ؟ اگر نہیں تو پھراس قسم کے جذباتی بیانات کے بجائے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کوسوچنا چاہیے کہ خامیاں اور نقائص کہاں ہیں؟ اور انھیں ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟
لیکن ان پہلوؤں پر غور کرنے کے بجائے ایک بار پھر جذباتی اور غیر ذمے دارانہ فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ جذباتی اندازمیں امریکا کا دورہ منسوخ کرکے چین اور ایران کے دوروں پر چلے گئے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ کو بھی یہاں آنے سے روک دیا(بقول وزارت خارجہ)۔ حالانکہ اس مسئلے پر امریکا کے ساتھ دو طرفہ مکالمے کی اب زیادہ ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کی چین روانگی سے قبل BRICS اعلامیہ بھی آچکا تھا۔ اس اعلامیے میں ٹرمپ کے پالیسی بیان سے زیادہ سخت زبان استعمال کی گئی، مگر چین کا دورہ منسوخ کرنے کی جرأت نہیں کر سکے، کیونکہ فی زمانہ حکمرانوں کی نظریں امریکا کے بجائے چین سے آنے والی '' قرض کی مئے'' پر لگی ہوئی ہیں۔
آج کل(2017) چین پر ہماری حکمران اشرافیہ نے اسی انداز میں تکیہ کیا ہوا ہے، جس طرح کل تک (1950سے80 کے عشروں کے دوران) امریکا پر اندھا بھروسہ تھا۔ کل امریکا کے ساتھ دوستی کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرنے والا غدار وطن سمجھا جاتا تھا۔ آج چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرنے والا ملک دشمن قرار پاتا ہے۔ کل SEATOاور CENTO پر تنقید قابل گرفت جرم تھی۔ آج CPEC کے طریقہ کار پر سوال اٹھانا گناہ کبیرہ بنادیا گیا ہے۔ چنانچہ امریکا مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے تنقید کرے تو ناقابل برداشت، لیکن اگر چین اس سے دو قدم آگے بڑھ کر شدت پسندی کے قلع قمع کا مطالبہ کردے توقابل قبول۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ طرزعمل اس وقت بھی انتہا پسندانہ تھا اور آج بھی غیر ذمے دارانہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی ایک ملک کی دوستی میں دوسرے ممالک سے مخاصمت مول لینا دانشمندی ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم وہ درمیانی راستہ اختیارنہیں کرسکتے، جس پہ چلتے ہوئے دنیا کے ہر ملک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم ہوسکیں؟ کیا ہم کسی ایک ملک کا آلہ کار بننے کے بجائے اپنا آزادانہ تشخص قائم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ان سوالات کا جواب اسی وقت ممکن ہے جب ہم دانش مندی اور دور اندیشی پر مبنی فیصلے کریں۔ عرض ہے کہ ہتھیلی میں چبھی پھانس پر کتنی ہی مرہم پٹی کیوں نہ کردی جائے،اس وقت تک افاقہ ممکن نہیں ہوتا ، جب تک کہ پھانس نہ نکل جائے۔
یہاں پھانس سے مراد ستر برسوں کے دوران کیے گئے وہ غلط فیصلے ہیں، جو مذہبی شدت پرستی اور متشدد فرقہ واریت کے فروغ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہماری حکمران اشرافیہ اس سیاسی عزم و حوصلے کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے، جو اس پھانس کو نکالنے کے لیے ضروری ہے؟ پھر نوشتہ دیوار پڑھنا بھی دانشمندی کی علامت ہوتی ہے۔ وقت اور حالات بتا رہے ہیں کہ عالمی دباؤ اپنی جگہ، عوام کی اکثریت بھی تہذیبی نرگسیت سے بیزار ہوچکی ہے۔ اس لیے ملک کی سلامتی اور بقا کی خاطر جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس قدر جلد ممکن ہو، تہذیبی نرگسیت کی اس پھانس کو نکال دیا جائے تو بہتر ہے۔
یہ تنظیم پولیس سمیت بعض اہم شخصیات کے قتل میں ملوث قراردی گئی ہے۔ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس کے اراکین نے افغانستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ یہ گروہ ان تمام افراد کو قابل گردن زدنی سمجھتا ہے، جو اس کے عقائد اور نظریات سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کوئی دو برس (مئی2015) قبل کراچی کے ایک علاقے میں قائم الاظہر اپارٹمنٹس کے مکینوں کی بس پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں 43 مسافر شہید ہوئے تھے۔ ان مسافروں کا گناہ یہ تھا کہ ان کا تعلق ایک مخصوص فقہی مسلک سے تھا۔اس سانحے کے حملہ آور بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے، جو صفورا گوٹھ سانحہ سے کوئی دو ہفتے قبل سرگرم سماجی کارکن سبین محمودکو بھی ان کی جرأت کے صلے میں قتل کرچکے تھے۔
اس حوالے سے دو طرح کے رجحانات سامنے آئے ہیں۔ کچھ روایتی مذہبی سوچ کے حامل عسکریت پسند گروہ ہیں، جنہوں نے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کی اور پھر مختلف نوعیت کی عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد خود کش حملے اور بم دھماکے کرتے ہیں، لیکن چند ایسے گروہ بھی منظر عام پر آرہے ہیں، جو عصری علوم کی جامعات سے جدید سائنسی علوم میں اعلیٰ اسناد کے ساتھ فارغ التحصیل ہیں۔ یہ گروہ عام طورپر مخالف خیالات اور نظریات کے حامل افرادکی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو قتل کرکے خوف و ہراس کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ ان گروہوں کی موجودگی اور کارروائیوں نے ریاستی منتظمہ کے دعوے باطل کردیے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صرف وہی مسلح جتھے جنھیں ''کافر'' روس کے خلاف جہاد میں جھونکنے کے لیے تیار کیا تھا، وہی نہیں بلکہ خود رو پودوں کی طرح ان گنت نئے متشدد گروہ بھی وجود میں آچکے ہیں جو پورس کے زخمی ہاتھیوں کی مانند اپنے ہی ملک کو روندنے پر آمادہ ہیں۔ نتیجتاً ملک میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تقطیب (Polarization)میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے، جب کہ عام شہریوں اور نوجوانوں میں شدت پسندی کی لہر نے مزید شدت اختیار کی ہے۔ ویسے تو ان گنت واقعات ہیں، لیکن دو واقعات حالات کی حساسیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ اول،گزشتہ رمضان کے مہینے میں ڈاکٹروں نے ایک صفائی ورکر کو اس بنیاد پر طبی امداد دینے سے انکار کردیا کہ ان کا روزہ مکروہ ہوجائے گا۔
ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 2009 میں نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی (NACTA) تشکیل دی گئی، جب کہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد جنوری2015میں نیشنل ایکشن پلان(NAP) تیار کیا گیا۔ اسے حکمرانوں کی نااہلی کہیں یا دہرا معیار کہ آج تک نہ تو NACTA فعال ہوسکی اور نہ NAP کی شقوں پر مکمل طور پر عمل ہوسکا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے ، تمامتر حکومتی دعوؤں کے باوجود دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، اگر حکومتی موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کی افغان پالیسی اور برکسBRICS ممالک کی سربراہ کانفرنس کے اعلامیے کو مسترد کر بھی دیا جائے، تو ہرچند روز بعد ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوںکے بارے میںکیا ردعمل ظاہرکیا جائے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ متذکرہ بالابیانات کو مسترد کردینے سے کیا عالمی رائے عامہ ہمارے حق میں ہموارہوجائے گئی ؟ اگر نہیں تو پھراس قسم کے جذباتی بیانات کے بجائے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کوسوچنا چاہیے کہ خامیاں اور نقائص کہاں ہیں؟ اور انھیں ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟
لیکن ان پہلوؤں پر غور کرنے کے بجائے ایک بار پھر جذباتی اور غیر ذمے دارانہ فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ جذباتی اندازمیں امریکا کا دورہ منسوخ کرکے چین اور ایران کے دوروں پر چلے گئے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ کو بھی یہاں آنے سے روک دیا(بقول وزارت خارجہ)۔ حالانکہ اس مسئلے پر امریکا کے ساتھ دو طرفہ مکالمے کی اب زیادہ ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کی چین روانگی سے قبل BRICS اعلامیہ بھی آچکا تھا۔ اس اعلامیے میں ٹرمپ کے پالیسی بیان سے زیادہ سخت زبان استعمال کی گئی، مگر چین کا دورہ منسوخ کرنے کی جرأت نہیں کر سکے، کیونکہ فی زمانہ حکمرانوں کی نظریں امریکا کے بجائے چین سے آنے والی '' قرض کی مئے'' پر لگی ہوئی ہیں۔
آج کل(2017) چین پر ہماری حکمران اشرافیہ نے اسی انداز میں تکیہ کیا ہوا ہے، جس طرح کل تک (1950سے80 کے عشروں کے دوران) امریکا پر اندھا بھروسہ تھا۔ کل امریکا کے ساتھ دوستی کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرنے والا غدار وطن سمجھا جاتا تھا۔ آج چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرنے والا ملک دشمن قرار پاتا ہے۔ کل SEATOاور CENTO پر تنقید قابل گرفت جرم تھی۔ آج CPEC کے طریقہ کار پر سوال اٹھانا گناہ کبیرہ بنادیا گیا ہے۔ چنانچہ امریکا مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے تنقید کرے تو ناقابل برداشت، لیکن اگر چین اس سے دو قدم آگے بڑھ کر شدت پسندی کے قلع قمع کا مطالبہ کردے توقابل قبول۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ طرزعمل اس وقت بھی انتہا پسندانہ تھا اور آج بھی غیر ذمے دارانہ ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی ایک ملک کی دوستی میں دوسرے ممالک سے مخاصمت مول لینا دانشمندی ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم وہ درمیانی راستہ اختیارنہیں کرسکتے، جس پہ چلتے ہوئے دنیا کے ہر ملک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم ہوسکیں؟ کیا ہم کسی ایک ملک کا آلہ کار بننے کے بجائے اپنا آزادانہ تشخص قائم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ان سوالات کا جواب اسی وقت ممکن ہے جب ہم دانش مندی اور دور اندیشی پر مبنی فیصلے کریں۔ عرض ہے کہ ہتھیلی میں چبھی پھانس پر کتنی ہی مرہم پٹی کیوں نہ کردی جائے،اس وقت تک افاقہ ممکن نہیں ہوتا ، جب تک کہ پھانس نہ نکل جائے۔
یہاں پھانس سے مراد ستر برسوں کے دوران کیے گئے وہ غلط فیصلے ہیں، جو مذہبی شدت پرستی اور متشدد فرقہ واریت کے فروغ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہماری حکمران اشرافیہ اس سیاسی عزم و حوصلے کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے، جو اس پھانس کو نکالنے کے لیے ضروری ہے؟ پھر نوشتہ دیوار پڑھنا بھی دانشمندی کی علامت ہوتی ہے۔ وقت اور حالات بتا رہے ہیں کہ عالمی دباؤ اپنی جگہ، عوام کی اکثریت بھی تہذیبی نرگسیت سے بیزار ہوچکی ہے۔ اس لیے ملک کی سلامتی اور بقا کی خاطر جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس قدر جلد ممکن ہو، تہذیبی نرگسیت کی اس پھانس کو نکال دیا جائے تو بہتر ہے۔