ایجاد مغربی

مسلم ممالک کی طرف سے برمی مسلمانوں کی حمایت میں کوئی موثر اقدام نہیں ہو رہا۔

برما میں 2012ء سے نسلی منافرت کا مسئلہ بار بار سر اٹھا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2012ء میں دو مسلمانوں نے چند غیر مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی جس سے مسلمانوں کے خلاف منافرت کی ابتدا ہوئی۔ روہنگیا مسلمانوں نے اس منافرت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا۔ اب گزشتہ دنوں کچھ اور ایسے مجرمانہ واقعے ہوئے جن میں روہنگیا مسلمان ملوث پائے گئے اور اس کے خلاف ملک کے اکثریتی فرقے نے رد عمل کا اظہار کیا۔

چند لوگوں کے کسی مجرمانہ فعل کا ''رد عمل'' ملاحظہ ہو۔ یہ رد عمل ایک عظیم اکثریت اور حکمران اکثریت کی طرف سے ظاہرکیا گیا۔ برما میں سات آٹھ ہندوؤں (بدھوں) کے قتل کے جواب میں اب تک تین ہزار مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ قتل کا طریقہ اتنا وحشیانہ اور دل دہلا دینے والا ہے کہ سن کر برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دیکھنا تو دور کی بات ہے۔ دیہات کے دیہات نذر آتش کر دیے گئے۔ لکڑی اور پھونس سے بنے گھر مکینوں سمیت جلادیے گئے، بچوں کو جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا، حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے۔ جان بچاکر بھاگنے والوں کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں جن سے سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔ آبی راستوں سے فرار ہونے والے ڈوب کر ہلاک ہوئے۔ دریاؤں میں لاشیں تیر رہی ہیں۔ ایک گاؤں میں سات سو مکانات نذر آتش کردیے گئے۔ ان بے کس و بے مددگار مسلمانوں کے لیے جو عالمی امداد ارسال کی گئی اسے بھی حکومت نے روک دیا ہے۔ اور ننگے بھوکے مسلمانوں کو غذا اور علاج سے محروم کر دیا گیا ہے۔

اس وحشیانہ اور غیر انسانی بربریت کو کسی واقعے کا رد عمل قرار دینا اور اکثریتی فرقے کی طرف سے رد عمل قرار دینا کسی صاحب عقل کے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔

جو کچھ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے اسے کم سے کم الفاظ میں وحشیانہ بربریت کہا جا سکتا ہے۔ اور ظالموں کے پس پشت حکمران جماعت اور انتظامیہ پوری مستعدی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ وحشیانہ کارروائیاں کوئی مخفی عمل نہیں بلکہ پوری دنیا اس سے آشنا ہو چکی ہے۔ مگر عالمی ضمیر کے کانوں میں سیسہ بھرا ہوا ہے۔ کسی طرف سے ہمدردی کے دو بول بھی نہیں بولے گئے۔

یہ غیر انسانی بربریت کرنے والے بدھ مذہب کے ''اشٹ مارگ'' پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہیں۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات میں کہیں تشدد نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور بدھ بھکشو امن و شانتی کے مبلغ بنے رہتے ہیں۔

مگر جیارن کی سرزمین پر روہنگیا مسلمانوں پر زندگی حرام اور موت حلال کی جا رہی تھی کسی بدھ بھکشو نے اپنے مذہب کو ماننے والوں سے مہاتما بدھ کی تعلیمات کی دہائی نہیں دی۔ کوئی میدان میں نہیں آیا اور بدھ مذہب کی طرف سے اپنے پیروکاروں کو کوئی لگام نہیں دی گئی۔


برمی حکومت نے بھی حکومت کا فرض انجام نہیں دیا۔ بلکہ وہ خود ایک فریق بن گئی۔ حکومت نے نہ صرف امن قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں برمی پولیس اور فوجی بھی وہی فرائض انجام دے رہی ہے جو بدھ عوام مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں۔

یہ حکومت آنگ سانگ سوچی کی حکومت ہے جن کو پہلے ہی امن کا ''نوبل انعام'' مل چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض معصوم لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان سے نوبل انعام واپس لے لیا جائے۔ یارو! نوبل انعام بھی تو مغرب کی ہزاروں ایجادوں کی طرح کی ایک ایجاد ہے جو ہر اس شخص کو دیا جاتا ہے جو اپنا دین دھرم بالائے طاق رکھ کر اہل مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرے یا اس پر سنجیدگی سے آمادہ ہو۔ محترمہ آنگ سانگ سوچی بھی ایسی ہی کسی آمادگی پر نوبل انعام کی مستحق ٹھہری ہوںگی اور وہ اپنی صلاحیت و افادیت کو منوا رہی ہیں۔

ایک ادارہ ہوا کرتا تھا۔ او آئی سی وہ مفروضہ طور پر مسلم دنیا کی مشترکہ آواز کے طور پر وجود میں آئی تھی مگر اس آواز کو نظر لگ گئی ہے۔ یہ آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔

زبان رسالت نے ڈیڑھ ہزار سال قبل ایک بشارت دی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں پر ہر طرف سے حملہ آور ہوںگی اور بے دردی سے وہ ہر جگہ ہلاک کیے جا رہے ہوںگے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر وہ وقت آ لگا ہے۔

مسلم ممالک کی طرف سے برمی مسلمانوں کی حمایت میں کوئی موثر اقدام نہیں ہو رہا۔ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھا رہی ہیں۔ مسلمان حکومتیں ہونٹ سی کر بیٹھی ہوئی ہیں اور کوئی قابل ذکر دباؤ برما پر نہیں ڈالا جا رہا۔ بنگلہ دیش میں برمی مسلمان پناہ گزینوں کی تعداد لاکھ سے متجاوز ہے اور ابھی ہزاروں لوگ راہ میں ہیں۔ بنگلہ دیش بھی انھیں بے دلی سے قبول کر رہا ہے۔

اﷲ ہمت و حوصلہ دے اور استقامت عطا فرمائے اردوان کو جنھوں نے بنگلہ دیش کو برمی مسلمانوں کو پناہ دینے پر ان کے اخراجات اٹھانے کی ذمے داری خود اٹھانے کا اعلان کر کے مسلمان حکمرانوں کو شرمندگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستان نے بڑی دھیمی آواز میں کہا ہے ''برمی مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کریںگے'' جنھیں اس وقت جان و مال کے تحفظ کی پڑی ہے ان کے ''مفادات'' کیا ہوںگے جن کا تحفظ پاکستان کی وزارت خارجہ کرے گی۔

سلامتی کونسل کے نزدیک ہزاروں مسلمانوں کا وحشیانہ قتل، مسلمانوں کی نسل کشی اور لاکھوں کی نقل مکانی کوئی اہم مسئلہ نہیں۔ اس لیے وہ شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات پر گفتگو کر رہا ہے مگر اس نسل کشی اور انسانی غارت گری پر گفتگو اس کے دائرہ اختیار میں آتی ہی نہیں۔ ہیں نا یہ سلامتی کونسل۔ یہ بھی ایجاد مغرب ہے۔
Load Next Story