مردم شماری اورمستقبل کی منصوبہ بندی
حالیہ مردم شماری کے نتائج نے عوام کو شش و پنچ میں ڈال دیا ہے
سپریم کورٹ کے حکم پر ہی سہی مگر 19برس بعد چھٹی مردم شماری کا عمل مکمل ہوا، جس پر حکومت پاکستان کے تقریباً 30 ارب کے اخراجات ہوئے اس عمل کو شفاف بنانے، عملے کوتحفظ دینے اور ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لیے پاک فوج کے 2 لاکھ اہلکاروں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ تمام ترشکوک و شبہات اور قیاس آرائیوں کے باوجود پاکستان کی چھٹی مردم شماری 2017ء کے ابتدائی نتائج جاری کردیے گئے ہیں۔
مردم شماری کے نتائج مشترکہ مفاد ات کونسل کے سامنے پیش کیے گئے جس کا شمار حکومتی فیصلہ سازی کے بڑے اور اہم ترین اداروں میں ہوتا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے مردم شماری کے نتائج پیش کرنے کا مقصد ملک کی آبادی کے مطابق اقدامات کرنا اور پالیسی سازی کرنا ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار بتائی گئی ہے پچھلے 19 برسوں کے مقابلے میں 75.4 ملین کا اضافہ ہوا ہے آبادی کا شمار کرنے کے کسی بھی پیمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آبادی کی شرح میں اس قدر اضافہ انتہائی خطرناک ہے۔
موجودہ مردم شماری کے نتائج کا موازنہ 1998ء میں ہونے والی پانچویں مردم شماری سے کیا جائے تو اس وقت پاکستان کی کل آبادی 130 ملین یا 13 کروڑ تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ1998ء سے لے کر 2017ء تک ملک کی مجموعی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے اور آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 2.4 فیصد ہے۔ دنیا بھر میں آبادی کی شرح میں بے تحاشہ اضافے اور روز افزوں بڑھتی ہوئی غربت کی بات کی جائے تو پاکستان سب سے آگے نظر آنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ان 19برسوں میں بلوچستان کی آبادی 65 لاکھ 65 ہزار سے بڑھ کر 3.3 فیصد اضافے کے ساتھ ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار ہوگئی۔ خیبر پختونخواہ کی آبادی ایک کروڑ 77 لاکھ 43 ہزار سے بڑھ کر 2.9 فیصد اضافے کے ساتھ 3 کروڑ 5 لاکھ 23 ہزار ہو گئی۔ سندھ کی آبادی 3 کروڑ 4 لاکھ 39 ہزار سے بڑھ کر 2.4 فیصد اضافے کے ساتھ 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار ہوگئی۔ پنجاب کی آبادی 7 کروڑ 36 لاکھ 21 ہزار سے بڑھ کر 2.1 فیصد اضافے کے ساتھ 11 کروڑ 12 ہزار ہوگئی۔ یوں چاروں صوبوں کا موازنہ کیا جائے تو سندھ اور پنجاب کی آبادی سب سے کم تناسب سے بڑھی۔
حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ سے زائد بتائی گئی ہے ان اعداد و شمار کو ماہرین، سیاسی جماعتوں اور سندھ حکومت نے مسترد کردیا ہے، کراچی جہاں، پورے ملک سے آبادی منتقل ہورہی ہے۔ اس کی آبادی میں گزشتہ 17 برس میں صرف 60 فیصد اضافہ دکھایاگیا جو منطقی اور علمی طور پرممکن نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مردم شماری پر کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کا اعلان کیا، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے سڑکوں پر احتجاج کا اعلان کیا مگر دونوں جماعتوں نے مردم شماری کو قانونی بنیاد پر چیلنج کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر ہوم ورک نہیں کیا اور نہ اب تک کوئی علمی قدم بڑھایا ہے۔
آل پارٹی کانفرنس اور احتجاج سے اس معاملات کو حل نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ صدر ایوب خان کے قانون 1959ء کے تحت مردم شماری کو خفیہ رکھنا لازمی ہے اور اس ہی قانون کے تحت کوئی صوبہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کرسکتا، اگرکسی کو بھی نتائج پر اعتراض ہے تو وہ ایک سینسس بلاک کو لیاجائے اور اپنا سینسس کریں اور اس کا موازانہ حکومت کے اعداد و شمار سے کیا جائے اگر وہ ثبوت دیں کہ اتنے گھروں کو شمار ہی نہیں کیا گیا تو پھر وہ ایک موثر اعتراض کرسکتے ہیں، صرف اندازوں اور سیاسی بیانات کی بنیاد پر مردم شماری کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
حالیہ مردم شماری میں سب سے زیادہ اعتراض کراچی ،لاہور اور کوئٹہ پر اْٹھایا جارہا ہے کہ لاہور کی آبادی میں 116فیصد اضافہ کس طرح ممکن ہوا؟ اگر 1998ء کی آبادی سے موازانہ کیا جائے تو کراچی کی آبادی میں تقریبا 60 فیصد جب کہ لاہور کی آبادی میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں کثیرمنزلہ عمارتیں موجود ہیں جب کہ لاہور میں عام طور پر چار منزلہ عمارتیں ہیں، اس کے علاوہ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ کچی آبادیاں کراچی میں ہیں اور رقبے کے لحاظ سے بھی کراچی اور لاہور میں بہت بڑا فرق ہے مگرکراچی اور لاہور کی آبادی لگ بھگ ایک دوسرے کے قریب پہنچا دی گئی ہیںحالانکہ دونوں کی آبادی میں بڑا فرق ہے۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق کراچی ،حیدرآباد،سکھرکی 48فیصد آبادی بالغوں کی ہے۔1998ء اور 2017ء کی مردم شماری کے نتائج سے ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں بالکل بھی نقل مکانی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس عرصے میں ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کو انتظامی طور پر چار صوبوں (پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان)، دو نیم خود مختار علاقوں (آزاد کشمیر، گلگت بلتستان) اور دو ریجنز فاٹا، یعنی وفاقی کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات، اور وفاقی دارالحکومت یعنی اسلام آباد میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس انتظام کو مزید آگے ڈویژنز، ضلع اور تحصیل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقسیم کے مطابق پورے پاکستان میں 34 ڈویژنز، 150 اضلاع اور 589 تحصیلیں ہیں۔ اس انتظامی تقسیم میں ضلعوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
انتخابی نشستوں کی تقسیم، صوبوں سے ضلعوں کو مالیاتی بجٹ ضلع کی آبادی کی بنیادوںپر ہی دیا جاتا ہے۔انتظامی لحاظ سے کراچی، پاکستان کا انتہائی منفرد یونٹ ہے کراچی ایک ایسا ڈویژن ہے جس میں کراچی وسطی، کراچی شرقی، کراچی جنوبی، کراچی غربی، کورنگی اور ملیر 6 اضلاع شامل ہیں۔ صوبہ سندھ کی انتظامی تقسیم اور مقامی حکومتوں کے نظام کے مطابق ابھی تک کراچی میں شہری اور دیہی علاقے کی تقسیم موجود ہے۔2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع کراچی کی کل آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار سے زائد ہے اس میں شہری آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار جب کہ دیہی آبادی 11 لاکھ 41 ہزار ہے۔یوں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی شہر کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار ہے اور اس میں دیہی علاقوں کی آبادی 11 لاکھ 41 ہزار کو جمع کیا جائے تو ضلع کراچی کی کل آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار سے زائد ہے۔
صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اور این ایف سی ایوارڈمردم شماری کے تحت حاصل ہونے والی آبادی کی بنیاد پرہی دیا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی صوبہ نہیں چاہتا کہ اس کی آبادی کم دکھائی جائے۔ اس لیے صوبے اپنے اپنے اضلاع اور ڈسٹرکٹ میںآبادی بڑھانے کے لیے صوبائی انتظامیہ کو بھی استعمال کرتے ہیں ایسا ماضی میں ہوتا رہا ہے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ماضی میں بھی صوبوں کے درمیان آبادی کوبنیاد پر بحث و تکرار ہوتی رہی ہے مگر اب صوبوں کے اندر بھی آپس میں آبادی کی تقسیم پر اختلافات رائے پایا جاتا ہے، سندھ میں دو بڑی اکائیاں (سندھی بو لنے والے اور اردو بولنے والے) آباد ہیں، سندھی کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ سندھ میں اقلیت بن جائیں اور اس ہی طرح اردو بولنے والے نہیں چاہیں گے کہ وہ کراچی میں اقلیت بن جائیں۔ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون تنازع موجود ہے، بلوچ نہیں چاہیں گے کہ وہ اقلیت بن جائیں جب کہ پشتون افغان مہاجرین کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔ بلوچوں کے تحفظات کے باوجود بلوچستان کی آبادی میں افغان مہاجرین کو شمارکیا گیا۔ 1988ء میں بلوچستان کی آبادی، میں کوئٹہ کی آبادی میں حصہ 28 فیصد ہے جواب بڑھ کر 36 فیصد ہوگئی ہے اور یہ اضافہ افغان مہاجرین کی وجہ سے ہوا ہے، عموماًدیہات میں گھروں کا سائز بڑا اور شہروں میں کم ہوتا ہے لیکن اس مردم شماری میں شہری علاقوں کے گھر وں کا سائز دیہی علاقوں کے مقابلے میں 0.2 فیصد بڑا دکھایا گیا ہے۔
حالیہ مردم شماری کے نتائج نے عوام کو شش و پنچ میں ڈال دیا ہے کہ ایک صوبے اور شہر کی آبادی میں توقعات کے برعکس اضافہ کیسے ممکن ہوا اور کسی شہر کی آبادی کم کیسے ہوگی۔ موجودہ مردم شماری کے نتائج کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ میں بلوچ مزید اقلیت میں چلے گئے ہیں جب کہ سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ی کو کم دیکھانے کا مقصد سندھ میں دیہی اور شہری تفریق کے پرانے فارمولے کو ہی قائم رکھانا مقصودہے، اگر سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ کسی شہریا ضلع کی آبادی کم دیکھائی گئی ہے تو قانون اور آئین کے مطابق راستہ اختیار کریں۔ مردم شماری کی روشنی میں حکومت کو یہ بھی سوچنا ہے کہ ملک کی بہت بڑی نوجوان آبادی کو ملکی مفاد میں کس طرح استعمال کیا جائے۔ مردم شماری کے نتائج کو ملک میں تقسیم پیدا کرنے کی بجائے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل تابناک ہو۔