مذہبی انتہا پسندی کا ایک اور شکار

صحافت کے مقدس، لیکن خطرناک شعبے میں غیر جانبدار رہ کر کام کرنا سب سے پہلا اصول ہے


توقیر چغتائی September 14, 2017

عظیم ہوتے ہیں وہ رضا کار جو جنگ کے شعلوں میں گھرے انسانوںکی جانیں بچانے، انھیں محفوظ مقام تک پہنچانے اور ان کے خورونوش کی ضروریات پوری کرتے ہوئے اپنی جان سے گزر جاتے ہیں۔ یہی وہ مشکل وقت ہوتا ہے، جب ظلم کرنے اور ظلم سہنے والوں کی تقسیم ہوتی ہے اور انسانیت سے جڑے افراد دوسروں سے الگ قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔۔ نہ صرف جنگ بلکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کی زندگی بھی ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ مختلف شعبوں اور انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کو طشت از بام کرنے کے لیے جب ہم اپنے آس پاس نظر دوڑاتے ہیں تو صحافت کے شعبے سے منسلک بعض افراد بھی ہمیں ایسے ہی رضا کاروں کے ہم پلہ نظر آتے ہیں جو اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر بے بس لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے ظلم و تشدد، لوٹ مار اور ہوس کاری سے لڑنے کے لیے ہاتھ میں قلم اٹھائے خطروں کے میدان میں کود پڑتے ہیں۔

صحافت کے مقدس، لیکن خطرناک شعبے میں غیر جانبدار رہ کر کام کرنا سب سے پہلا اصول ہے۔ نا انصافی، ظلم، بے ایمانی اور جھوٹ کے خلاف رپورٹنگ کرتے ہوئے اگر بڑے سے بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑے تو اس کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت اس کا دوسرا اصول کہا جا سکتا ہے، مگر پچھلے کچھ برسوں کے دوران دنیا کے مختلف علاقوں میں ہونے والی جنگوں میں اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے جہاں مختلف صحافیوں کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑی وہاں ترقی یافتہ یا ترقی پذیرممالک میں غیر جانب دارانہ رپورٹنگ کرتے ہوئے بھی بہت ساروں کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ دنیا بھر کے صحافیوں کی طرح آج کل بھارت کے صحافی بھی ایسی ہی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔

رجسٹریشن آف نیوز پیپرز فارانڈیا (RNI)کے مطابق بھارت کے مختلف بڑے اور چھوٹے شہروں میںچھپنے والے انگریزی اور ہندی کے دس بڑے اخبارات کے علاوہ رجسٹرڈ شدہ اخبارات کی تعداد 82,237 ہے جن میں سے 4853 اخبارات دو ہزار دس اورگیارہ کے دوران رجسٹرڈ ہوئے۔ذرا سوچیے کہ اگر اس ملک سے چھپنے والے اخبارات کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے تو اس سے جڑے کارکنوں کی تعداد لاکھوں سے کم کیا ہو گی، ان کے مسائل کتنے گھمبیر ہوں گے اور سچ لکھنے کے لیے انھیں کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہوں گے۔ بعض دفعہ کاغذی اور برقی صحافت سے اختلاف رکھنے والے دھڑے صحافتی اداروں کے مر کزی دفاتر میں بیٹھے کارکنان اور مالکان پر حملہ آور ہونے میں دیر نہیں لگاتے، مگر اس سے بھی زیادہ غیر محفوظ وہ صحافی ہوتے ہیں جو ملک کے دور دراز علاقوں میں ہونے والے جرائم کا پردہ چاک کرنے کے لیے اپنی جان کو ہمہ وقت داؤ پر لگائے رکھتے ہیں۔ بھارت کے غیر جانبدار صحافی، اساتذہ، دانشور، تاریخ دان اور شاعر و ادیب جو پہلے ہی بنیاد پرست مذہبی دھڑوں کے ہاتھوں خوف کا شکار تھے نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد مزید مشکل صورت حال میں گھرے نظر آتے ہیں، مگر سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ان صحافیوں کو ہے جو اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ مئی 1992ء سے لے کر ستمبر2017ء تک بھارت میں 28 صحافیوں کو سچ لکھنے کی پاداش میںقتل کر دیا گیا۔

پچھلے سال کے پانچویں مہینے کے دوران ''روزنامہ ہندوستان'' کے ایک نوجوان صحافی راج دیو رنجن کو بہار میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ راج دیو رنجن کا قصور یہ تھا کہ وہ راشٹریہ دل کے ایک سابق ایم پی محمد شہاب الدین کی جرائم بھری زندگی کو بے نقاب کرنے میں مصروف تھا اور اس مہینے کی ابتدا میں گوری لنکیش نامی خاتون صحافی کو ان کے گھر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ گوری لنکیش کنڑ زبان کے معرف شاعر ادیب اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی پی لنکیش کی بیٹی تھیں۔گوری نے دہلی کے ایک انگریزی اخبار کے ساتھ طویل مدت تک وابستہ رہنے کے بعد اپنے آبائی علاقے کرناٹک میں آکر کنڑ زبان کا ہفت روزہ ''گوری لنکیش پتریکا'' جاری کیا تھا۔

اس سے قبل وہ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ایک اخبار چلاتی رہیں، لیکن نکسلائٹ تحریک کے حامی ماؤئسٹ دھڑوں کے ساتھ ہم دردی رکھنے کی وجہ سے بہن بھائی میں اختلاف ہو گئے جس پر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے۔ گوری کا ہفت روزہ میگزین بظاہر سولہ صفحات پر مشتمل تھا اور اس کی قیمت صرف پندرہ روپے تھی، مگر بنگلور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے ہندو قوم پرستوں اور بنیاد پرستوں کے ساتھ سنگھ پریوار کے غلط اقدامات کے لیے یہ بہت بڑاخطرہ بنا ہوا تھا۔ اس ہفت روزے میں یوں تو اقلیتوں پر ہونے والے مظالم، ذات پات اور مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف بہت کچھ لکھا جاتا تھا، مگر سب سے زیادہ خطر ناک وہ اداریہ ہوتا تھا جو کنڑ زبان میں ''گنڈا ہاگے'' یعنی ''جیسا میں نے دیکھا'' کے عنوان سے ہر ہفتے لکھا جاتا تھا۔

تیرہ ستمبر کی اشاعت اس ہفت روزے کی آخری اشاعت ثابت ہوئی تھی اور اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے اپنے خلاف چھپنے والی ایک خبر کی بنا پر گوری پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی کر رکھا تھا۔کسی ملک میں مختلف نظریات اور عقائد کے افراد آباد ہوں مگر وہاں کی حکومت کسی ایک نظریے یا عقیدے کی طرف دار بن جائے تو دوسرے دھڑے سماجی، مذہبی اور سیاسی امتیاز کا شکارہوکر دوسرے درجے کے شہری بن جاتے ہیں۔ بھارتی معاشرہ بھی اب مختلف مذاہب اور خود اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے اعتدال پسند حلقوں اور افراد کے لیے تنگی کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔ آزادی کی جدوجہد میں شامل مختلف رہنماؤں کو بھلا کر اب وہاں ایسے افراد کو اپنا ہیرو بنایا جانے لگا ہے جنھیں سیکیولر حلقے کسی طرح بھی پسند نہیں کرتے۔ بھارتیوں کے سب سے مہان لیڈر مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے لیے بھی سنگھ پریوار کی تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) نے زمین کا ایک ٹکڑا مختص کرنے کے بعد اس پر ''بھومی پوجن'' کی رسم ادا کی ہے جس پر سیکیولر حلقوں کی جانب سے بہت تنقید کی جا رہی ہے۔

ماضی میں سنگھ پریوار کے ہاتھوں پیش آنے والے خونی واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل میں اس جگہ پر تعمیر ہونے والے مندر میں رام گوڈسے کا مجسمہ بھی نصب ہو گا اور اگلے کچھ برسوں میں اُسے اوتار کا درجہ بھی مل جائے گا اس لیے کہ وزیر اعظم مودی کا تعلق بھی اسی تنظیم سے ہے۔ ان کی وزارت کی مدت ایک دو سال کے بعد چاہے ختم بھی ہو جائے، مگر اس خطے میں انھوں نے مذہبی انتہا پسندی کو جس طرح مضبوط کیا ہے اس کے اثرات ختم ہونے میں کم از کم آدھی صدی ضرور لگے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں