مضبوط پاکستان امریکا کے مفاد میں ہے
امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سینئر ایڈوائزر برائے جنوبی ایشیاء اور ترجمان نیرہ حق کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات دونوں ملکوں کے عوامی اور سیاسی حلقوں میںہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیں۔
ان تعلقات میں کئی باراتار چڑھاو آئے ،کبھی تعلقات میں سرد مہری آئی اور کبھی گرم جوشی بھی دیکھنے میں آئی ۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان برسوں سے قائم ان تعلقات کو کبھی بھی مثالی تعلقات کا درجہ حاصل نہ ہوسکا ۔ اس کی بڑی وجہ پاکستانی عوام میں امریکا کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک شبہات دانشوروں، صحافیوں کی سطح پر آپس میں مکالموںکا فقدان ہے۔ قطع نظر حکومت کے پاکستانی عوام ہمیشہ امریکی پالیسیوں سے شاکی رہے۔ چنانچہ ان تعلقات کے باوصف دونوں ممالک کے عوام کے درمیان یک طرفہ سوچ پروان چڑھتی رہی جبکہ بعض حلقوں کی طرف سے یک طرفہ پراپیگنڈہ کے زہریلے اثرات بھی بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دینے کا باعث بنتے رہے ۔
اس ''کمیونیکیشن گیپ ''کی وجہ سے ہی دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ایک فاصلہ قائم رہا ہے جو آج تک ختم نہیں ہوسکا اور شاید اس فکری اور نظری بعد کو دور کرنے کی کبھی شعوری کوشش بھی نہیں کی گئی۔ اس دوری کو ختم کرنے میں افراد کا آپس میں رابطہ بنیادی کردار ادا کرتاہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ایک دوسرے کو سمجھنے میںمدد مل سکتی ہے بلکہ بہت سی غلط فہمیاں کو دور کرنے کاموقع بھی میسر آتا ہے۔ اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں جب امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سینئر ایڈوائزر برائے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کی اردو ترجمان نیرہ حق لاہور آئیں تو ''ایکسپریس '' نے ان سے فورم کے ذریعے مکالمے کا اہتمام کیا جس میں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کی تفصیلات نذر قارئین ہیں ۔
نیرہ حق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ اس کے تعلقات صرف پاکستانی حکومت سے نہ ہوں بلکہ پاکستانی عوام کے ساتھ بھی ہوں ۔ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں مزید بہتری آئی ہے۔ ہم صرف دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ تعلیم ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا کا دنیا میں سب سے بڑافل برائٹ ایجوکیشن ایکسچینج پروگرام پاکستان کے ساتھ ہے جس میں امریکا نے پاکستان میں 800سکول بنائے ہیں ۔ جن میں باسٹھ ہزار بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں، اساتذہ کے 90کالجوں اور جامعات میں تعلیم کے حوالے سے ڈگری پروگرام کا اجراء کیا جس میں اس وقت 2600 کے قریب اساتذہ زیر تربیت ہیں جبکہ ایک ہزار کے قریب اساتذہ کو تربیت کیلے وظائف دیئے گئے ہیں۔
گزشتہ 5برسوں میں 900سے زائد طلبا وطالبات نے سکالر شپ کے تحت امریکی یونیورسٹیز میں زراعت، سائنس، کاروبار اور حساب کے شعبوں میں تربیت حاصل کی اس کے ساتھ تین پاکستانی یونیورسٹیز میں جدید تعلیم و تدریس کے مراکز قائم کئے جارہے ہیں جن میں زراعت، سائنس،توانائی اور پانی کے شعبوں میں تعاون کیا جارہا ہے تاکہ ان شعبوں میں پاکستانی طلبہ کو پاکستان میں جدید تعلیم دی جاسکے۔ اور پاکستانی طلبہ کو بیرون ملک تعلیم دلانے کیلئے یہ پروگرام کام کررہا ہے۔ تمام بچوں کو ہم باہر نہیں بھجوا سکے اس لیے 12ہزار بچوں کو پاکستان میں سکالر شپ دی ہے تاکہ وہ ملک کے اندر رہ کر تعلیم حاصل کرسکیں۔اس کے علاوہ پانچ ہزار سے زائد کم آمدن والے بچوں کو انگریزی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ پاکستانی عوام کا معیار صحت بہتر کرنے کیلئے صحت کے شعبہ میں بھی امریکا پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کررہا ہے، صحت کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون امریکا کی ترجیحات میں شامل ہے۔
امریکا پاکستان میں وفاقی، صوبائی اور ضلع کی سطح پر صحت کا بجٹ بنانے میں مشاورت فراہم کرتا ہے، امریکا نے حکومت پاکستان کی درخواست پر پاکستان میں 387ملین ڈالر کی لاگت سے 5سالہ ہیلتھ کیئر پروگرام شروع کیا ہے جسے پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت ماں بچے کی صحت کے شعبہ میں خرچ کیا جائے گا۔ فاٹا، خیبر پختونخواہ، آزاد جموں و کشمیرسمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بہت سے ہسپتالوں ، بنیادی مراکز صحت کو اپ گریڈ کیا گیا جس سے صحت کی سہولیات میں اضافہ ہوا ہے اس سلسلے میں کراچی میں 4.5ملین ڈالر کی لاگت سے 60بستروں پر مشتمل جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر تعمیر کیا گیا جو کہ ہر سال سندھ اور بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں کی 1500 خواتین کو صحت کی سہولیات فراہم کرے گا۔اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کے عوام کو صحت کی سہولیات دینے کے لئے 10ملین ڈالر کی لاگت سے جیکب آباد میں 133بستروں پر مشتمل ہسپتال قائم کیا جارہا ہے جس میں بجلی کی سپلائی کے لیے سولر سسٹم نصب کیا جائے گا۔
میڈیکل کے ماہرین کو جدید تعلیم دینے کیلئے جناح میڈیکل سنٹر میں 1300 میڈیکل کے طلبہ کیلئے جدید تعلیم کی سہولت موجود ہوگی۔ امریکا پاکستان میں توانائی بحران سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس کے حل کیلئے پچھلے سال 600 میگاواٹ بجلی پاور گرڈ میں شامل کرنے کیلئے مہیا کرکے 6 لاکھ گھروں تک بجلی پہنچائی اس سال مزید 900 میگاواٹ 20 لاکھ گھروں تک بجلی پہنچانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ گومل زام ڈیم کی اپ گریڈیشن سے 17.4 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا، ، تربیلا ڈیم کی اپ گریڈیشن کی جس سے وہاں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 128 میگا واٹ کا اضافہ ہوا جو 2 لاکھ 90 ہزار گھروں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہے، منگلا ڈیم کی اپ گریڈیشن سے پیداوار میں 100 میگاواٹ کا اضافہ ہوا، گڈو بیراج اور جامشورو ڈیم کی اپ گریڈیشن میں مدد کی اور ست پارہ ڈیم کی تعمیر کے لئے رقم فراہم کی جس سے 17 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اس سے گلگت بلتستان کے 40 ہزار گھروں کو بجلی فراہم کی جاسکے گی۔
تجارت کے حوالے سے عام لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور ہم چاہتے ہیں پاکستان کی ترقی کیلئے یہاں تعلیم عام کریں تاکہ عوام ترقی کرسکیں کیونکہ پاکستان کی ترقی میں ہی ہم سب کا فائدہ ہے۔ پاکستان کو مضبوط کرکے ہی ہم دنیا میں امن قائم کرسکیں گے۔ مضبوط پاکستان ہی ہمارے مفاد میں ہے۔ پاکستان کے آئندہ انتخابات میں امریکا کا کوئی کردار نہیں اس حوالے سے ہمارا صرف مؤقف ہے وہ یہ کہ ایک جمہوری حکومت دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی۔ جمہوری اداروں کی ترقی اور جمہوریت کا فیصلہ پاکستانی عوام کریں گے۔ پاکستان میں امریکا کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں یا دیرپا نہیں تو یہ تاثر درست نہیں یہ صرف افواہیں ہیں دونوں ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات کی بنیاد پر ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے ہی رہیں گے۔ دونوں ملکوں میں جمہوری حکومتیں ہیں اور دونوں اپنے عوام کی ترقی چاہتی ہیںہم پاکستان کو خود مختار اور مضبوط ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوام اور حکومت کے درمیان معاملات میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے امریکا میں ایسا ہوتا رہتا ہے مگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں کمی آنے کی بجائے یہ مزید مضبوط ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں جاری ڈرون حملوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکی میڈیا میں پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ڈرون حملوں کے استعمال اور اس کا حل نکالنے کے بارے میں بات ہورہی ہے، دنیا بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہماری ذمہ داری ہے اس حوالے سے بہت سی قربانیاں دی جا چکی ہیںاس لئے اکٹھے بیٹھ کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایران پر لگائی گئی پابندیاں صرف امریکا کی وجہ سے نہیں ہیںبلکہ یہ بین الاقوامی مطالبہ تھا جن میں کئی مسلمان ممالک بھی شامل تھے جن کو خطرہ تھا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام ان کو نقصان پہنچانے کیلئے ہے اب پوری دنیا کی ذمہ داری ہے کہ ان پابندیوں پر عمل کریں۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاملے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے اور پاکستان کو بھی ایران پر لگائی گئی عالمی پابندیوں کا احترام کرنا چاہئے۔
امریکا کے مختلف ممالک کے ساتھ مختلف طرح کے تعلقات ہیں مگر پاکستان کے ساتھ امریکا کے سب سے زیادہ تعلقات ہیں اور ہم نے پاکستان میں سب سے زیادہ پروگرام شروع کئے ہیں پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اس کا اپنا ایک رول اور کلچر ہے، امریکا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا اثر پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نہیں پڑنا چاہئے۔تحریک طالبان پاکستان کے حکومت کو مذاکرات کی دعوت پر جو بات چیت ہورہی ہے اس پر قبل از وقت تبصرہ کرنا درست نہیں جب مذاکرات ہوں گے تب دیکھا جائے گا البتہ افغانستان میں طالبان سے امریکا کے مذاکرات پر بات ہوسکتی ہے۔ یہ تنازع 9/11 کے واقعہ کے بعد شروع ہوا جس میں 3ہزار امریکی جان بحق ہوگئے تھے۔
افغان حکومت نے القاعدہ کو پناہ دی اور وہ ان کی حمایت کررہے تھے مگر اب صورتحال بدل چکی ہے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ختم ہوگئے ہیں اور القاعدہ کمزور ہوگئی ہے، اس وقت افغانستان میں ایک جمہوری اور آئینی حکومت آگئی ہے اب تنازعہ میں تبدیلی آرہی ہے اب مذاکرات مختلف تناظر میں ہوں گے اور مذاکرات اس شرط پر ہوں گے کہ طالبان افغانستان کی نئی آئینی حکومت کو مانیں اور اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں تاکہ افغان عوام اپنی مرضی سے اپنی ترقی کا فیصلہ کرسکیں۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جو بھی ان مذاکرات میں شامل ہو نا چاہے وہ اس مقصد سے آگاہ ہو کہ عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء نہیں بلکہ تبادلہ ہوگا اور ہم افغانستان میں ایسی مضبوط جمہوری حکومت کی حمایت کریں گے جو کہ وہاں امن قائم کرسکے۔
اگلے سال سے افغانستان میں امریکا کی فوجی موجودگی کم جبکہ معاشی موجودگی بڑھ جائے گی۔ اگر علاقے میں امن قائم کرنا ہے تو افغانستان میں بھی ترقی ہونی چاہیے اس کیلئے مختلف ممالک نے امریکا میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی بات کی ہے اور یہ انوسٹمنٹ افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاک فوج کی قربانیوں کی قدر کرتی ہے اور ان کی کوششوں کا احترام کرتی ہے۔کم و بیش35,000 سے 40,000 تک پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں جن میں پاک فوج کے چار ہزارکے لگ بھگ فوجی جوانوں نے بھی قربانیاں پیش کی ہیںہم ا ن تمام قربانیوں کا احترام کرتے ہیں اور اس چیز کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاک فوج کا کردار انتہائی اہم ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں امریکا کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کا فیصلہ خود کرنا ہے دونوں ملکوں کے عوام اگر امن چاہتے ہیں تو حکومتوں کو بھی چاہیے کہ عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کریں، کشمیر کے معاملے پر امریکا سے امید رکھنے کی بجائے دونوں ممالک خود اس مسئلے کا حل کریں۔ پاکستان، بھارت یا افغانستان میں ہونے والے کسی بھی واقعے کا اثر نہ صرف پورے خطے بلکہ پوری دنیا پر ہوتا ہے دو طرفہ تعلقات نہیں بلکہ ملٹی نیشنل تعلقات چاہتے ہیں۔
ان تعلقات میں کئی باراتار چڑھاو آئے ،کبھی تعلقات میں سرد مہری آئی اور کبھی گرم جوشی بھی دیکھنے میں آئی ۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان برسوں سے قائم ان تعلقات کو کبھی بھی مثالی تعلقات کا درجہ حاصل نہ ہوسکا ۔ اس کی بڑی وجہ پاکستانی عوام میں امریکا کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک شبہات دانشوروں، صحافیوں کی سطح پر آپس میں مکالموںکا فقدان ہے۔ قطع نظر حکومت کے پاکستانی عوام ہمیشہ امریکی پالیسیوں سے شاکی رہے۔ چنانچہ ان تعلقات کے باوصف دونوں ممالک کے عوام کے درمیان یک طرفہ سوچ پروان چڑھتی رہی جبکہ بعض حلقوں کی طرف سے یک طرفہ پراپیگنڈہ کے زہریلے اثرات بھی بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دینے کا باعث بنتے رہے ۔
اس ''کمیونیکیشن گیپ ''کی وجہ سے ہی دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ایک فاصلہ قائم رہا ہے جو آج تک ختم نہیں ہوسکا اور شاید اس فکری اور نظری بعد کو دور کرنے کی کبھی شعوری کوشش بھی نہیں کی گئی۔ اس دوری کو ختم کرنے میں افراد کا آپس میں رابطہ بنیادی کردار ادا کرتاہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ایک دوسرے کو سمجھنے میںمدد مل سکتی ہے بلکہ بہت سی غلط فہمیاں کو دور کرنے کاموقع بھی میسر آتا ہے۔ اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں جب امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سینئر ایڈوائزر برائے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کی اردو ترجمان نیرہ حق لاہور آئیں تو ''ایکسپریس '' نے ان سے فورم کے ذریعے مکالمے کا اہتمام کیا جس میں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کی تفصیلات نذر قارئین ہیں ۔
نیرہ حق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا یہ چاہتا ہے کہ اس کے تعلقات صرف پاکستانی حکومت سے نہ ہوں بلکہ پاکستانی عوام کے ساتھ بھی ہوں ۔ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں مزید بہتری آئی ہے۔ ہم صرف دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ تعلیم ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا کا دنیا میں سب سے بڑافل برائٹ ایجوکیشن ایکسچینج پروگرام پاکستان کے ساتھ ہے جس میں امریکا نے پاکستان میں 800سکول بنائے ہیں ۔ جن میں باسٹھ ہزار بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں، اساتذہ کے 90کالجوں اور جامعات میں تعلیم کے حوالے سے ڈگری پروگرام کا اجراء کیا جس میں اس وقت 2600 کے قریب اساتذہ زیر تربیت ہیں جبکہ ایک ہزار کے قریب اساتذہ کو تربیت کیلے وظائف دیئے گئے ہیں۔
گزشتہ 5برسوں میں 900سے زائد طلبا وطالبات نے سکالر شپ کے تحت امریکی یونیورسٹیز میں زراعت، سائنس، کاروبار اور حساب کے شعبوں میں تربیت حاصل کی اس کے ساتھ تین پاکستانی یونیورسٹیز میں جدید تعلیم و تدریس کے مراکز قائم کئے جارہے ہیں جن میں زراعت، سائنس،توانائی اور پانی کے شعبوں میں تعاون کیا جارہا ہے تاکہ ان شعبوں میں پاکستانی طلبہ کو پاکستان میں جدید تعلیم دی جاسکے۔ اور پاکستانی طلبہ کو بیرون ملک تعلیم دلانے کیلئے یہ پروگرام کام کررہا ہے۔ تمام بچوں کو ہم باہر نہیں بھجوا سکے اس لیے 12ہزار بچوں کو پاکستان میں سکالر شپ دی ہے تاکہ وہ ملک کے اندر رہ کر تعلیم حاصل کرسکیں۔اس کے علاوہ پانچ ہزار سے زائد کم آمدن والے بچوں کو انگریزی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ پاکستانی عوام کا معیار صحت بہتر کرنے کیلئے صحت کے شعبہ میں بھی امریکا پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کررہا ہے، صحت کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون امریکا کی ترجیحات میں شامل ہے۔
امریکا پاکستان میں وفاقی، صوبائی اور ضلع کی سطح پر صحت کا بجٹ بنانے میں مشاورت فراہم کرتا ہے، امریکا نے حکومت پاکستان کی درخواست پر پاکستان میں 387ملین ڈالر کی لاگت سے 5سالہ ہیلتھ کیئر پروگرام شروع کیا ہے جسے پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت ماں بچے کی صحت کے شعبہ میں خرچ کیا جائے گا۔ فاٹا، خیبر پختونخواہ، آزاد جموں و کشمیرسمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بہت سے ہسپتالوں ، بنیادی مراکز صحت کو اپ گریڈ کیا گیا جس سے صحت کی سہولیات میں اضافہ ہوا ہے اس سلسلے میں کراچی میں 4.5ملین ڈالر کی لاگت سے 60بستروں پر مشتمل جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر تعمیر کیا گیا جو کہ ہر سال سندھ اور بلوچستان کے دور دراز کے علاقوں کی 1500 خواتین کو صحت کی سہولیات فراہم کرے گا۔اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کے عوام کو صحت کی سہولیات دینے کے لئے 10ملین ڈالر کی لاگت سے جیکب آباد میں 133بستروں پر مشتمل ہسپتال قائم کیا جارہا ہے جس میں بجلی کی سپلائی کے لیے سولر سسٹم نصب کیا جائے گا۔
میڈیکل کے ماہرین کو جدید تعلیم دینے کیلئے جناح میڈیکل سنٹر میں 1300 میڈیکل کے طلبہ کیلئے جدید تعلیم کی سہولت موجود ہوگی۔ امریکا پاکستان میں توانائی بحران سے پوری طرح آگاہ ہے اور اس کے حل کیلئے پچھلے سال 600 میگاواٹ بجلی پاور گرڈ میں شامل کرنے کیلئے مہیا کرکے 6 لاکھ گھروں تک بجلی پہنچائی اس سال مزید 900 میگاواٹ 20 لاکھ گھروں تک بجلی پہنچانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ گومل زام ڈیم کی اپ گریڈیشن سے 17.4 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا، ، تربیلا ڈیم کی اپ گریڈیشن کی جس سے وہاں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 128 میگا واٹ کا اضافہ ہوا جو 2 لاکھ 90 ہزار گھروں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہے، منگلا ڈیم کی اپ گریڈیشن سے پیداوار میں 100 میگاواٹ کا اضافہ ہوا، گڈو بیراج اور جامشورو ڈیم کی اپ گریڈیشن میں مدد کی اور ست پارہ ڈیم کی تعمیر کے لئے رقم فراہم کی جس سے 17 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اس سے گلگت بلتستان کے 40 ہزار گھروں کو بجلی فراہم کی جاسکے گی۔
تجارت کے حوالے سے عام لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور ہم چاہتے ہیں پاکستان کی ترقی کیلئے یہاں تعلیم عام کریں تاکہ عوام ترقی کرسکیں کیونکہ پاکستان کی ترقی میں ہی ہم سب کا فائدہ ہے۔ پاکستان کو مضبوط کرکے ہی ہم دنیا میں امن قائم کرسکیں گے۔ مضبوط پاکستان ہی ہمارے مفاد میں ہے۔ پاکستان کے آئندہ انتخابات میں امریکا کا کوئی کردار نہیں اس حوالے سے ہمارا صرف مؤقف ہے وہ یہ کہ ایک جمہوری حکومت دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی۔ جمہوری اداروں کی ترقی اور جمہوریت کا فیصلہ پاکستانی عوام کریں گے۔ پاکستان میں امریکا کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں یا دیرپا نہیں تو یہ تاثر درست نہیں یہ صرف افواہیں ہیں دونوں ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات کی بنیاد پر ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے ہی رہیں گے۔ دونوں ملکوں میں جمہوری حکومتیں ہیں اور دونوں اپنے عوام کی ترقی چاہتی ہیںہم پاکستان کو خود مختار اور مضبوط ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ عوام اور حکومت کے درمیان معاملات میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے امریکا میں ایسا ہوتا رہتا ہے مگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں کمی آنے کی بجائے یہ مزید مضبوط ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں جاری ڈرون حملوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکی میڈیا میں پچھلے کچھ عرصے سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ڈرون حملوں کے استعمال اور اس کا حل نکالنے کے بارے میں بات ہورہی ہے، دنیا بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہماری ذمہ داری ہے اس حوالے سے بہت سی قربانیاں دی جا چکی ہیںاس لئے اکٹھے بیٹھ کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایران پر لگائی گئی پابندیاں صرف امریکا کی وجہ سے نہیں ہیںبلکہ یہ بین الاقوامی مطالبہ تھا جن میں کئی مسلمان ممالک بھی شامل تھے جن کو خطرہ تھا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام ان کو نقصان پہنچانے کیلئے ہے اب پوری دنیا کی ذمہ داری ہے کہ ان پابندیوں پر عمل کریں۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاملے کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے اور پاکستان کو بھی ایران پر لگائی گئی عالمی پابندیوں کا احترام کرنا چاہئے۔
امریکا کے مختلف ممالک کے ساتھ مختلف طرح کے تعلقات ہیں مگر پاکستان کے ساتھ امریکا کے سب سے زیادہ تعلقات ہیں اور ہم نے پاکستان میں سب سے زیادہ پروگرام شروع کئے ہیں پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اس کا اپنا ایک رول اور کلچر ہے، امریکا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا اثر پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نہیں پڑنا چاہئے۔تحریک طالبان پاکستان کے حکومت کو مذاکرات کی دعوت پر جو بات چیت ہورہی ہے اس پر قبل از وقت تبصرہ کرنا درست نہیں جب مذاکرات ہوں گے تب دیکھا جائے گا البتہ افغانستان میں طالبان سے امریکا کے مذاکرات پر بات ہوسکتی ہے۔ یہ تنازع 9/11 کے واقعہ کے بعد شروع ہوا جس میں 3ہزار امریکی جان بحق ہوگئے تھے۔
افغان حکومت نے القاعدہ کو پناہ دی اور وہ ان کی حمایت کررہے تھے مگر اب صورتحال بدل چکی ہے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ختم ہوگئے ہیں اور القاعدہ کمزور ہوگئی ہے، اس وقت افغانستان میں ایک جمہوری اور آئینی حکومت آگئی ہے اب تنازعہ میں تبدیلی آرہی ہے اب مذاکرات مختلف تناظر میں ہوں گے اور مذاکرات اس شرط پر ہوں گے کہ طالبان افغانستان کی نئی آئینی حکومت کو مانیں اور اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں تاکہ افغان عوام اپنی مرضی سے اپنی ترقی کا فیصلہ کرسکیں۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جو بھی ان مذاکرات میں شامل ہو نا چاہے وہ اس مقصد سے آگاہ ہو کہ عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء نہیں بلکہ تبادلہ ہوگا اور ہم افغانستان میں ایسی مضبوط جمہوری حکومت کی حمایت کریں گے جو کہ وہاں امن قائم کرسکے۔
اگلے سال سے افغانستان میں امریکا کی فوجی موجودگی کم جبکہ معاشی موجودگی بڑھ جائے گی۔ اگر علاقے میں امن قائم کرنا ہے تو افغانستان میں بھی ترقی ہونی چاہیے اس کیلئے مختلف ممالک نے امریکا میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی بات کی ہے اور یہ انوسٹمنٹ افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاک فوج کی قربانیوں کی قدر کرتی ہے اور ان کی کوششوں کا احترام کرتی ہے۔کم و بیش35,000 سے 40,000 تک پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں جن میں پاک فوج کے چار ہزارکے لگ بھگ فوجی جوانوں نے بھی قربانیاں پیش کی ہیںہم ا ن تمام قربانیوں کا احترام کرتے ہیں اور اس چیز کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاک فوج کا کردار انتہائی اہم ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں امریکا کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کا فیصلہ خود کرنا ہے دونوں ملکوں کے عوام اگر امن چاہتے ہیں تو حکومتوں کو بھی چاہیے کہ عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کریں، کشمیر کے معاملے پر امریکا سے امید رکھنے کی بجائے دونوں ممالک خود اس مسئلے کا حل کریں۔ پاکستان، بھارت یا افغانستان میں ہونے والے کسی بھی واقعے کا اثر نہ صرف پورے خطے بلکہ پوری دنیا پر ہوتا ہے دو طرفہ تعلقات نہیں بلکہ ملٹی نیشنل تعلقات چاہتے ہیں۔