عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے لئے ہر قربانی دیں گے

لاہور ہائیکورٹ بار کے ا نتخابی امیدواروں کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال۔


Shehzad Amjad/Shakeel Saeed February 20, 2013
لاہور ہائیکورٹ بار کے ا نتخابی امیدواروں کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال۔ فوٹو : فائل

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات برائے سال 2013.14 کے لیے انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے امیدواروں اوران کے حامیوں کی طرف سے کھانے کی دعوت پربھی پابندی لگائی جاچکی ہے۔اس کے باوجود کھانے اور دعوتوں کا سلسلہ جاری ہے۔موجودہ انتخابات میں مجموعی طور پر12امیدوار میدان میں آچکے ہیں جن میں سے صدر کے عہدہ پر4،نائب صدرکے عہدہ پر2، سیکرٹری کے عہدہ پر 3اور فنانس سیکرٹری کے عہدہ پرتین امیدوارایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔صدرکے عہدہ پر انڈیپنڈنٹ گروپ کے امیدوارعابد ساقی، آزاد امیدوار شفقت محمود چوہان، حامد خان کے پرفیشنل گروپ کے امیدوار سید محمد شاہ اور پیپلز پارٹی کے سینئر ممبر سجاد حسین بھٹی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے میدان میں موجود ہیں۔سجاد حسین بھٹی نے چند روز قبل ہی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

اسی طرح نائب صدر کے عہدہ پر غلام سرورنہنگ اوراے قیوم طاہر چودھری کے درمیان مقابلہ ہوگا۔جبکہ سیکرٹری کے عہدہ پرمیاں شہزادخادم منڈے،بلیغ الزمان اورلطیف سراء الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔فنانس سیکرٹری کے عہدہ پرعثمان شیرگوندل کامقابلہ دوخواتین امیدواروں سے ہے ان خواتین میں فیروزہ ملک اورمسزشبنم اسلم ناگی شامل ہیں۔ انتخابات میں 18 ہزار891ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے صدر،نائب صدر،سیکرٹری اورفنانس سیکرٹری کا چنائو کریں گے۔ صدر کے عہدہ پر آزاد امیدوارکی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے والے شفقت محمود چوہان اس مرتبہ مضبوط امیدوارکے طورپرسامنے آئے ہیں۔گزشتہ سال بھی شفقت محمود چوہان نے الیکشن میں حصہ لیاتھا۔اس مرتبہ انہیں جماعت اسلامی،خواجہ شریف،امیر عالم خان، پنجاب بار کونسل کے 8ممبران،جن میں رائے بشیر راناقمر، مظہرللہ، راناابرار، رانااکرم سمیت دیگرکی حمایت حاصل ہے۔ نوجوان وکلاء کی اکثریت اوربڑے گروپ بھی ان کی حمایت کااعلان کرچکے ہیںجبکہ مسلم لیگ ن کا ایک دھڑا بھی ان کی حمایت کررہا ہے۔پیپلز پارٹی کے سجاد حسین بھٹی کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرنے پر شفقت محمود چوہان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی ہے۔

انڈیپنڈنٹ گروپ کے امیدوارعابد ساقی لاہور ہائیکورٹ بارکے سیکرٹری رہ چکے ہیں اوروکلاء کی سیاست میں اہم کرداراداکرتے رہے ہیں۔انہیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، محمد احسن بھون گروپ، راشد لودھی گروپ، لاہورہائیکورٹ بارکے موجودہ صدر شہرام سرور چودھری،ممبرپاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ سمیت دیگر اہم گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم سجاد حسین بھٹی کی طرف سے الیکشن لڑنے کااعلان کرنے پرعابدساقی کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔حامد خان گروپ کے امیدوار سید محمد شاہ بھی وکلاء سیاست میں اہم رول ادا کرتے رہے ہیں وہ لاہور بار کے صدر بھی رہ چکے ہیں جبکہ انہوں نے چیف جسٹس کی وکلاء تحریک میں سب سے اہم کردار اداکیاتھااور تحریک سے علیحدہ ہونے کے عوض ملنے والی ترغیبات کولینے سے صاف انکارکردیاتھا۔

سید محمد شاہ کو بھی وکلاء کے اہم گروپوں اورنوجوان وکلاء کی حمایت حاصل ہے۔سجاد حسین بھٹی کو پیپلز لائرز فورم کے ناراض اراکین سمیت دیگراہم گروپوں کی حمایت حاصل ہے انہوں نے چند روز قبل ہی الیکشن میں حصہ لینے کااعلان کیاہے اور اپنی انتخابی مہم پورے زوروں کے ساتھ شروع کردی ہے۔اسی طرح نائب صدرکے عہدہ پرتین امیدوار میدان میں موجودتھے ان میں غلام سرورنہنگ، اے قیوم طاہر چودھری اور جبارقادر راجپوت نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیاتھاتاہم جبار قادر راجپوت الیکشن سے دستبردار ہوگئے ہیں۔اس عہدہ پر کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ سیکرٹری کے عہدہ پرتین امیدوار میدان میں موجود ہیں ان میں میاں شہزاد خادم منڈے، بلیغ الزمان صدیقی اور لطیف سراء شامل ہیں اس عہدہ پر میاں شہزاد خادم منڈے اوربلیغ الزمان صدیقی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔

میاں شہزاد خادم منڈے کومسلم لیگ (ن)، پاکستان بارکونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی برہان معظم ملک، سابق سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ باررانااسداﷲ خان،سابق صدرلاہور بار ایسوسی ایشن رانا ضیاء عبدالرحمن سمیت دیگرکی حمایت حاصل ہے جبکہ نوجوان وکلاء کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے۔بلیغ الزمان صدیقی سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آفتاب اقبال کے صاحبزادے ہیں انہیں پیپلزپارٹی سمیت دیگر گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔فنانس سیکرٹری کے عہدہ پر عثمان شیرگوندل کامقابلہ دو خواتین امیدواروں سے ہے ان خواتین میں فیروزہ ملک اور مسزشبنم اسلم ناگی شامل ہیں دوخواتین ہونے کی وجہ سے عثمان شیر گوندل کو برتری حاصل ہے کیونکہ خواتین کا ووٹ آپس میں تقسیم ہوجائیگا۔فیروزہ ملک کومسلم لیگ(ن) لائرز فورم کے ایک دھڑے کی حمایت حاصل ہے۔

اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات برائے سال 2013-14 میں حصہ لینے والے صدارتی امیدواروں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے ایکسپریس نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں تین صدارتی امیدواروں انڈپینڈنٹ گروپ کے امیدوار عابد ساقی، آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے والے امیدوار شفقت محمود چوہان اور حامد خان کے پروفیشنل گروپ کے امیدوار سید محمد شاہ نے شمولیت کی۔ تینوں امیدواروں نے کامیابی کا دعوی کرتے ہوئے وکلاء کی ویلفیئر اور آئین کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن میں بارکونسلز کی رائے کو شامل کیا جانا چاہیے تاہم بار کونسلز کو بھی چاہئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے لیے اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں۔ ہائیکورٹ بار کی صدارت ملنے کے بعد ذاتی مفادات کی بجائے وکلاء کی ویلفیئر، بار اور بینچ کے درمیان تعلقات بہتر بنائے جائیں گے۔ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے کردار ادا کیا جائیگا۔ تینوں امیدواروں کی گفتگو قارئین کے مطالعہ کیلئے پیش کی جارہی ہے۔

شفقت محمودچوہان (آزاد امیدوار )

میں کسی سیاسی جماعت کاامیدوارنہیں ہوں اورنہ ہی میں کسی گروپ کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں بلکہ وکلاء کی طرف سے الیکشن لڑرہا ہوں۔ میرا مقصد صرف وکلاء کی ویلفیئرکے لیے کام کرنا ہے اور میں بار کی سیاست سے سیاسی جماعتوں کے کردار کو ختم کرناچاہتاہوں اوراسی پر یقین رکھتا ہوں۔

ان گروپوں نے بارکی سیاست پرقبضہ کر رکھاہے جس کوختم کرنے کے لیے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کامیاب ہو کر نوجوان وکلاء کے روزگاراوران کی وکالت کو بہتر کرنے کے لیے اپناکرداراداکروں گا۔ہائیکورٹ بار کاالیکشن جیت کرمیں صحیح بنیادوں پروکلاء کے لیے کام کرسکوں گا۔ آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی پریقین رکھتا ہوں۔ماضی میں کامیاب ہونے والے دونوں بڑے گروپ جن کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل تھی انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو پروان چڑھایا اور کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار بن کررہے لیکن میں کسی بھی سیاسی جماعت یا گروپ کا آلہ کار نہیں بنوں گا بلکہ حقیقی معنوں میں وکلاء کی نمائندگی کروں گا۔

دونوں گروپ وکلاء تحریک کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں حالانکہ وکلاء تحریک ملک بھر کے وکلاء نے چلائی اور ماریں بھی ہم نے کھائی تھیں جس کا کریڈٹ یہ گروپ لے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ نوجوان وکلاء کے روزگار کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور ان کے لیے روزگار پیدا کریں گے اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت سے بات کی جائیگی تاکہ ایڈووکیٹ جنرل آفس میں اسسٹنٹ کے طور پر شامل کیا جائے۔ اس سے نوجوان وکلاء کو روزگار بھی ملے گا اور کام کرنے کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ میں کسی سیاسی جماعت کی کرپشن کو سپورٹ نہیں کروں گا۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جوڈیشل کمیشن میں بار کونسلز کا کردار ہونا چاہئے تاہم اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ بارکونسلز کسی سیاسی جماعت کے اشاروں پر کام نہ کریں بلکہ وکلاء کے مفاد،ضروریات کومدنظر رکھ کر کام کریں۔

عابد ساقی ( انڈپینڈنٹ گروپ کے امیدوار)

میرا الیکشن لڑنے کا مقصد وکلاء کی فلاح وبہبود اور ویلفیئر کے لیے کام کرنا ہے۔ میں عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں جبکہ جمہوری روایات کو برقرارکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف اپنی آواز اٹھائی ہے اور ماضی میں بھی جب میں ہائیکورٹ بار کا سیکرٹری تھا تو جنرل (ر) پرویز مشرف کے مارشل لاء کے خلاف سڑکوں پر آیا تھا اور ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ نذرآتش کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء تحریک کسی خاص سیاسی جماعت کا ایجنڈا نہیں تھا وکلاء کی تحریک ملکی صورتحال میں موثر کردار ادا کرتی رہی ہے۔

عابد ساقی نے کہا کہ وہ ہائیکورٹ بار کوموثر پلیٹ فارم کے طور پر چلائیں گے نہ کہ گروہ بندی کی سیاست کو آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں بار کونسلز کی رائے کو شامل کیا جانا چاہئے کیونکہ ان کی آراء بڑی اہمیت کی حامل ہیں اوریہ بارایسوسی ایشنوں کامطالبہ تھاجس کواب اٹھایا گیا ہے لیکن ابھی بھی جوڈیشل کمیشن میں اس کی رائے کواہمیت نہیں دی جاتی جوکہ غلط ہے۔ عابد ساقی نے کہا کہ دوران صدارت ہائیکورٹ بارکے کسی بھی صدرکوجج کاعہدہ قبول نہیں کرناچاہئے کیونکہ بارکی سیاست کوذاتی مفادات کی بجائے وکلاء کی ویلفیئرکے لیے کام کرنا ہوگا۔

میں منتخب ہوکر ذاتی مفاد کی بجائے وکلاء کے مفادات کو تحفظ فراہم کروں گا اور میں کسی بھی قسم کے ذاتی مفاد کے خلاف ہوں۔ عابد ساقی نے کہا کہ اُن کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی سودے بازی نہیں کی اور نہ ذاتی مفادات حاصل کیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نوجوان وکلاء کے روزگار کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت سے اقدامات کروائیں گے تاکہ بیروزگار وکلاء اپنا باعزت روزگار حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جمہوری روایات کو برقراررکھنے اور آئین کی بالادستی کے لیے بھی کردار ادا کریں گے۔

سید محمد شاہ (حامدخان پروفیشنل گروپ کے امیدوار)

میں لاہوربارایسوسی ایشن کے صدرکے طور پر وکلاء تحریک میں سرگرم رہا اورججزبحالی تحریک میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ اب وقت ہے کہ وکلاء کے لیے کام کیا جائے اور عدالتی فیصلوں پرعمل درآمدکرتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ وہ کامیاب ہو کر وکلاء کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں گے۔ ہائیکورٹ بار میں آئی ٹیسٹ سنٹرتعمیرکروایاجائے گا اور لائبریری کی توسیع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ نوجوان وکلاء کو روزگار کے مواقع پیداکرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن کے لیے بجٹ میں سے فنڈز مختص کرائے جائیں گے تاکہ وکلاء کی فلاح کے لیے کام ہوسکے۔سید محمد شاہ نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ہائیکورٹ بار اوروکلاء کی فلاح وبہبودکے لیے کچھ نہیں کیاگیا'ہم وکلاء کوان کا حق لیکر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلوں پرمن وعن عمل درآمدکے لیے اپنا کردار ادا کریں گے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی تک آنے والے فیصلوں پرعمل کرنے کی بجائے تنقیدکا نشانہ بنایا جاتا ہے اورعمل نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا موقف واضح ہے کہ وہ عدلیہ کی خود مختاری اورآزادی کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ ماضی میں بھی اسی مقصد کے لیے 23 دن کی جیل کاٹی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب تک حکومتیں اور نیب اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو سپریم کورٹ کو اپنا کرداراداکرناپڑیگا۔

انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں بارکونسلز کے اختیارات کے حوالے سے سب سے پہلے انہوں نے آوازاٹھائی تھی جس پر آج عمل کیا جارہا ہے دو سال تک یہ لوگ جوڈیشل کمیشن میں بیٹھتے رہے اورکوئی نوٹ بھی نہیں لکھا اوراب دوسال کے بعد انہیں یاد آگیا ہے کہ بار کونسلز کے نمائندوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بار کونسلز کے نمائندوں کے پاس یہ اختیار ہونا چاہئے تاکہ عدلیہ میں بار کونسلز بھی کردار اداکرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں