اب کوئی مشہور ادیب پرانی کتابیں دیکھنے نہیں آتا

مشہور زمانہ پاک ٹی ہاؤس کے سامنے پرانی کُتب فروخت کرنے والے، رانا محمد اصغر سے مکالمہ


Mehmood Ul Hassan February 20, 2013
لوگ بڑے اشتیاق سے پوچھتے ہیں،’’ٹی ہاؤس کب کھلے گا؟‘‘۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: کتابوں کے بھانت بھانت کے عشاق ان کے پاس آتے ہیں، کوئی مجبوری ان کے شوق کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتی۔

ایسوں میں سب سے منفرد اور ''بہادر'' ہمیں وہ لگے، جن کے گھر کتابوں کا ڈھیر لگ چکا ہے، مزید کی گنجایش نہیں، لیکن اُن سے رہا نہیں جاتا، اور وہ پرانی کتابوں کے اس میلے میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ معاشی دبائو تو برداشت کر لیتے ہیں، لیکن ایک دبائو جو اس سے بڑھ کر ہے، اور جس کے بارے میں ہمیں 28 برس سے کتابوں کی فروخت سے وابستہ رانا محمداصغر نے بتایا، وہ بیگمات کا دبائو ہے، جو اپنے شوہروں کی کتاب دوستی سے عاجز ہیں، اِس لیے یہ حضرات، بیگموں کے ڈر سے کتابیں خرید کران کے پاس رکھوا جاتے ہیں، اور بعد میں مناسب وقت پر آکر خاموشی سے لے جاتے ہیں۔

رانامحمد اصغر نے 18برس، ہر اتوار کو ریگل میں فٹ پاتھ پر کتب کو آراستہ کیا، لیکن سات آٹھ برس قبل وہ ادھر ایسی جگہ اُٹھ آئے، جس کو برصغیرکی ادبی تاریخ میں تاریخی مقام حاصل ہے، اور یہ جگہ پاک ٹی ہائوس ہے، جو اِس زمانے میں نیا نیا بند ہوا تھا، انھوں نے ٹی ہائوس کے سامنے کتابوں کا اسٹال لگانا شروع کر دیا۔ اس وقت انھیں ٹی ہائو س کی اہمیت کا تو خوب احساس تھا، لیکن شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ اِدھر کام کرنا انھیں کس قدر اہم بنا دے گا۔ ٹی ہائوس کی تزئین و آرائش اور اس کے دوبارہ کھلنے کی خبروں نے اس کو پھر سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا، ایسے میں ان کی بھی بن آئی ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ابھی چند دن قبل ایک نجی ٹی وی نے ان سے بات چیت کی ہے، اور لوگ بھی ان سے بڑے اشتیاق سے پوچھتے ہیں کہ ''بھیا!پاک ٹی ہائوس کب کھلے گا؟'' یہ سوال ہم نے بھی پوچھ لیا، تو انھوں نے فوراً سے کہہ ڈالا،''آپ صحافی لوگ ہیں، اس بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے۔'' ہم صحافی ہونے کے باوجود چوں کہ بہتر نہیں جانتے تھے، اس لیے فوراً سے پہلے گفت گو کا رخ دوسری طرف موڑا۔

دکان دار کے لیے اپنا جما جمایا اڈا چھوڑنا خاصا مشکل ہوتا ہے، تو ریگل سے انارکلی کی طرف سفرکا فیصلہ کیسے ہوا؟ سادہ اور کھرے لہجے میں بات کرنے والے محمداصغر نے بتایا: ''ریگل میں جس جگہ میں بیٹھا تھا، وہ
سروس لین تھی، جس پر آمدورفت بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ دوسرے دکان داروں نے اتوار کے روزاپنی دکان کے سامنے اور لوگوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دے دی، جس کی وجہ سے کام متاثر ہونے لگا اور سات برس قبل میں نے وہاں سے کوچ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔'' یہ وہ زمانہ تھا، جب پاک ٹی ہائوس نیا نیا بند ہوا تھا، اور اس کے سامنے جگہ خالی پڑی تھی۔ ''مجھ سے قبل بھی دو تین افراد نے یہاں کام کیا، لیکن وہ اسے جاری نہیں رکھ سکے، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ انارکلی سے جس کتاب بازار کا آغاز ہوتا ہے، اس میں ٹی ہائوس تک پہنچنے کے لیے بیچ میں سڑک پڑتی ہے، اس لیے گاہک کئی بار اس طرف آنے سے گریز کرتے ہیں، اس لیے اصل بازار سڑک کے پرلی طرف کو سمجھا جاتا ہے، اس لیے اس طرف کام میں زیادہ فائدہ ہے۔'' رانامحمد اصغراس سوچ سے متفق نہیں تھے، اس لیے انھوں نے اللہ کا نام لے کر ٹی ہائوس اور اس سے ملحق دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر کتابوں کو چُن دیا، اور ان کے بہ قول، پہلے دن ہی ان کے اندر سے آواز آئی کہ یہاں کام چل نکلے گا، اور ایسا ہی ہوا اور اِدھر کام ان کی توقعات کے عین مطابق چل نکلا۔

یہاں اڈا جمانے سے قبل انھوں نے اردگرد کے دکان داروں سے اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں رابطہ کیا، تو ان کا رویہ بہت مثبت تھا اور انھوں نے کہا کہ اتوار کو تو دکان ویسے ہی بند ہوتی ہے، اس لیے انھیں کوئی اعتراض نہیں۔ محمداصغراس رویے پران مہربانوں کے تہہ دل سے ممنون ہیں۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ اب، جب کہ ٹی ہاؤس کھلنے جارہا ہے توآپ کو یہاں سے اُٹھا نہیں دیا جائے گا؟ اس پر وہ کہنے لگے : ''مجھے اس سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں۔ ٹی ہائوس سے ملحق ٹائروں کی دکان ہے، اس کے سامنے میں کام جاری رکھوں گا۔ دوسرے ٹی ہائوس کے داخلی دروازے کو چھوڑ کر اس کے اردگرد کتابیں لگا سکتا ہوں۔ اور یہ کام بھی ایسا ہے، جس کا ٹی ہاؤس میں آنے والوں سے ہی تعلق ہے، اس لیے یہ بات بھی میرے حق میں جاتی ہے۔ دوسرے اِدھر ادب سے متعلق لوگ آئیں گے تو وہ میری کتابوں پر بھی ضرورنظر ڈالیں گے، تو یہ ٹی ہائوس کھلنے کا میرے کام کے حوالے سے مثبت پہلوہے۔ جگہ تھوڑی ہونے سے ان کو بہتر انداز میں ترتیب دے کر پہلے کی طرح جاری رکھا جا سکتا ہے۔'' پرانی کتابوں سے متعلق کاروبا ر کے بارے میں ان کے پاس معلومات کا دریا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، اسی سے جڑے ہیں، اور ایسے مطمئن ہیں کہ اب اپنے فرزند ارجمند کو بھی اس سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ اتوار کو وہ بھی اکیلے نہیں ہوتے بلکہ تین لڑکے ان کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو ان کے ساتھ رہ کراس کام کی بہت سی باریکیاں جان چکے ہیں، وہ نہ بھی ہوں تو گاہکوں سے معاملات بڑے اچھے انداز میں طے کرلیتے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس کن کن ذرائع سے کتابیں آتی ہیں؟

''سب سے پہلے تو کباڑخانہ ہے، جہاں مختلف گھروں سے کتب و رسائل ردی کی صورت میں آتے ہیں۔ ان سے ہمارا مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ دوسرے، جب کوئی پڑھا لکھا بندہ گزر جاتا ہے، توان کی اولاد میں سے کوئی رابطہ کرتا ہے اور یوںہم ان سے کتابیں خریدتے ہیں۔ یہ بڑی بہترین کتابیں ہوتی ہیں، اور ان کا سودا لم سم ہی ہوتا ہے۔ ان میں یہ ہوتا ہے کہ آپ نے ساری کتابوں کو اکٹھے ہی خریدنا ہوتا ہے، لیکن وہ نکلتی آہستہ آہستہ ہیں، اس لیے رقم تھوڑا عرصہ رکی رہتی ہے۔ محلوں میں کسی زمانے میں لائبریریاں ہوتی تھیں، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی گئیں، تو وہ سارا مال بھی ہمارے پاس آتارہا۔ اب تو محلوں میں لائبریری کا رواج ہی ختم ہوگیا ہے۔ کنٹینر کا مال بھی آتا ہے لیکن میں اسے زیادہ پسند نہیں کرتا، کیوں کہ ا س میں کام کی چیزیں کم ہی ہوتی ہیں۔''

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ مجبوری کی وجہ سے بھی کتابیں فروخت کردیتے ہیں، اور بعض ایسے ہوتے ہیں، جنھیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد اس علمی سرمائے کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، تو وہ اپنی زندگی میں ہی کتابیں بیچ دیتے ہیں، ایسے لوگ ان کے خیال میں اس لیے فائدے میں رہتے ہیں کہ انھیں کتابوں کی قدر وقیمت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوتا ہے، اس لیے انھیں بہتر دام مل جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پرانی کتابوں کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی، کیوں کہ یہ وہ خزانہ ہے، جو بازار میں نہیں ملتا، دوسرے سستے دام ان کی طرف کشش کا سبب ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ لاہور میں دس پندرہ سال سے بک اسٹریٹ کے بارے میں سن رہے ہیں، لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان کے خیال میں فٹ پاتھ پر انگریزی کی بہ نسبت اردو کتابیں زیادہ چلتی ہیں۔ سردیوں میں اُن کے خیال میں کتابیں زیادہ بکتی ہیں، تمام دن گاہک آتے رہتے ہیں، جب کہ گرمیوں میںصبح سات سے گیارہ اور پھر پانچ بجے سے سات بجے تک کے اوقات میں گاہک آتے ہیں۔

ان کے بہ قول پاکستان بھر میں پرانی کتابوں کا لاہور جیسا اتوار بازار کہیں بھی نہیں لگتا، عام دنوں میں اورینٹل کالج سے باہر پرانی کتابوں کا سب سے اچھا ذخیرہ آراستہ کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوالمنڈی میں جو دکانیں ہیں، وہ زیادہ تر رسالوں سے سروکار رکھتی ہیں، اور پرانی کتابوں کی فروخت ان کی اولین ترجیح نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس کئی قسم کے گاہک آتے ہیں۔ ان میں سے وہ جن سے تعلق استوار ہوچکا ہوتا ہے، اور دام بھی مطلب کے دیتے ہیں، تو انھیں وہ ہفتے کو اپنے گودام میں بلاتے ہیں تاکہ وہ اپنی مطلوبہ کتب تلاش کرسکیں۔ ایسے گاہکوں کو نئی لاٹ آنے پر بھی فوری مطلع کردیا جاتا ہے۔

رانا محمد اصغر کا کہنا تھا کہ پرانی کتابوں کا بیوپار کرنے والے بعض گاہکوں، جن سے ان کا مسلسل رابطہ رہتا ہے، انھیں کتاب گھر بھی پہنچا دیتے ہیں۔ اُن کے خیال میں دکان دار گاہک کی نفسیات کا بھی علم رکھتا ہے اور اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتاب خریدنے میں کس قدر دل چسپی رکھتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بہت سے لوگ کسی خاص موضوع میں دل چسپی رکھتے ہیں، جس کے پیش نظر ان کے لیے الگ سے کتابوں کو چھانٹ کر رکھ لیا جاتا ہے۔

ان کا بتانا تھا کہ اگر دکان دار کو پہلے سے معلوم ہو کہ فلاں موضوع پر کتاب کسی گاہک کی کمزوری ہے تو اسے بے چارے کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے مناسب دام ہی طلب کرنے چاہئیں۔ ان کے بقول کبھی کبھار کتاب چوری بھی ہو جاتی ہے۔ ان کے خیال میں ماضی کے مقابلے میں کتابیں کم فروخت ہونے کی بنیادی وجہ منہگائی ہے، اور پرانی کتابوں کی صنعت کو کچھ فرق انٹرنیٹ میڈیا کے آنے سے بھی پڑا ہے۔ وہ اس کام سے مطمئن ہیں ، جس سے گذشتہ کئی برسوں سے ان کے گھر کا چولھا جل رہا ہے۔ وہ اتوار کے علاوہ باقی دنوں میں دھرم پورہ میں واقع اپنی کتابوں کی دکان بھی چلاتے ہیں جہاں پر زیادہ تر نصابی کتب فروخت ہوتی ہیں۔ بتاتے ہیں کہ بھلے وقتوں میں بڑے نامی گرامی ادیب فٹ پاتھ پر بکھرے علمی خزینوں کی تلاش میں آتے تھے، لیکن اب کوئی مشہور ادیب ادھر کا رُخ نہیں کرتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں