سفیروں کی کانفرنس کے مقاصد اور مشورہ
پاکستان کو اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں جدت پسندی، نئی روشنی عالمگیریت پیدا کرنی ہوگی
امریکا ایک عجیب ملک ہے جو ظاہری طور پر تو ایک جمہوری ملک ہے اور اپنے ملک کے لوگوں کے لیے جمہوری اصول و اقدار پر یقین رکھتا ہے اور مغرب کے اتحادیوں کی بھی آزادی کا احترام کرتا ہے مگر اپنے ہی ہمنوا ترکی جو نیٹو کا اتحادی ہے اس کو وہ مقام نہ دیا جو دوسرے اتحادیوں کو ملا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو ممالک کے مابین یکساں روابط نہ رہے اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں کی شکست کے بعد ان کے مابین مزید رخنہ پڑ گیا۔ شامی حکومت کی واضح کامرانی نے سعودی حکومت کے اثرات کو زائل کر دیا جس سے اس خطے میں ایران کے اثرات کی سربلندی نمایاں ہوگئی اور اب جاکر پاکستان نے ایران کی سمت رخ کیا ہے۔
ورنہ پاکستان کی خارجہ پالیسی محض سعودی عرب کی خوشنودی ہی رہ گئی تھی۔ ہر حاکم سال میں کئی کئی بار سعودی عرب روانگی پر ہی اکتفا کرتا رہا اور اسلامی فوج کا شوشہ بھی ایک نئے قسم کی اشتعال انگیزی کا پیش خیمہ تھا جو قطر کی سیاسی ناراضگی کی بنا پر اور اس کے ایرانی قربت نے بے اثر کردیا۔ اور اب خطے میں برکس کے اثرات نے ایک نیا ہیجان برپا کردیا تو پاکستان کو بھی یاد آیا کہ یہاں ان کا ایک پرانا اتحادی جو کسی زمانے میں آر سی ڈی (RCD) ہائی وے کے نام سے تھا۔
ویسے تو پاکستان ایک ایسا ملک دنیا میں دیکھا گیا جس کا وزارت خارجہ سے کوئی تعلق نہ رہا پونے پانچ برس کہیں گزرنے کے بعد وزارت خارجہ کی یاد آئی اور جس قدر عملہ خارجہ حکمت عملی کی باتیں کرتا ہے اس کو اس کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں۔ برکس کانفرنس میں چین نے جس اصول کے تحت بھارت کی ہاں میں ہاں ملائی وہ اس کے 20 برس قبل کے اصول ڈینگ سیاؤپینگ نے متعین کیے تھے یہ اسی کے تحت معرض وجود میں آئے اور اس بار چین نے قرارداد کو ویٹو نہ کیا۔
دراصل ان کو برکس کو چلانا ہے اور ہم آئی ایم ایف کے دیندار ہیں جب کہ بھارت برکس کا ابتدائی رکن ہے اور اس پلیٹ فارم کو آگے بڑھاتا ہے اور روس چین کا ہمنوا بھی ہے جب کہ چین شام جنگ میں روس کے ساتھ تھا اور آخری دور میں جب روس براہ راست جنگ میں شامل ہوگیا تھا تو چین اپنی فوجیں شام بھیجنے والا تھا جب کہ ہم اس وقت بھی نام نہاد اسلامی اتحادیوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور اسلامی اتحادی افواج اسی اتفاق کا شاخسانہ تھا جس کا احساس بعد میں پاکستان کو ہوا کہ وہ کہیں یمن جنگ کا حصہ نہ بن جائے جب کہ روس اور چین یمن جنگ کے مخالف ہیں یہ تو بہتر ہوا کہ پاکستان نے یمن جنگ سے خود کو دور کردیا۔
اب امریکا پاکستان کوکس زبان سے مخالفت کا درس دے رہا ہے جب کہ پاکستان کو پہلی مرتبہ خود اسلامی افواج کی تشکیل پر آمادہ کرتا رہا۔ افغان سوشلسٹ حکومت کے انہدام پر تالیاں بجاتا رہا۔ امریکا نے پاکستان کو ایک ہیجان میں مبتلا کردیا تھا، دراصل پاکستان نے غالباً وزارت خارجہ کا دروازہ اس لیے بند کر رکھا تھا کیونکہ پاکستان کی کوئی اپنی خارجہ حکمت عملی نہ تھی بلکہ امریکی پالیسی کے تحت ہی پاکستان کی پالیسی چلتی رہی۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ڈو مور (Do More) یعنی ایسا اور کرو ایسا اور کرو پر زور دیتا رہا اس لیے تو وہ پاکستان سے مسلسل یہ توقع رکھتا ہے کہ جیسا ہم کہیں گے پاکستان ویسا ہی کرے گا وہ ایران سے یہ توقع کیوں نہیں رکھتا کیونکہ اس نے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے۔
انقلاب ایران سے قبل جب شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی تو ایران اس علاقے کا چوہدری تھا جو دریائے سندھ اور وادی مہران کو اپنا علاقہ قرار دیتا تھا۔ مگر اب سعودی عرب کو اس علاقے کا نگہبان قرار دے دیا ہے یہ ہے امریکی پالیسی اسی لیے ہر آئے دن پاکستانی حاکم سعودی عرب کے دورے پر ہوتے ہیں اور ان کے تعلقات ایرانی بلاک سے کافی سرد ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں برکس کانفرنس کے بعد پاکستان کو اپنی سابقہ غیر متوازن پالیسی میں تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش بیدار ہوئی۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم نے خارجہ پالیسی کے ستون گاڑے جس میں پہلے چین اور پھر ایران کے سفر کے طور پر وزیر محترم نے جانے کا منصوبہ بنایا۔
ایک اور اہم پیشرفت گزشتہ ہفتے سفیروں کی اسلام آباد میں کانفرنس ہے۔ اس سے بیرون ممالک پرکوئی اہم اثر تو پڑنے سے رہا مگر سفیروں کے موقف میں یکسانیت اور وضاحت میں ایک انداز ضرور پیدا ہوگا، مگر ترقی پسندانہ رویہ اور سیکولر انداز گفتگو جو مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہے، اس راہ پر جانے کے لیے وقت درکار ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی زیادہ تر پالیسیاں جنرل ضیا الحق کی ہیں، موجودہ مرکزی حکومت اسی دور کی روش پر عمل پیرا ہے، لبرل انداز کو وقت درکار ہے۔
البتہ اگر سفیروں کی کانفرنس سال میں دو بار منعقد کی گئی اور اس میں خطاب کے لیے حزب مخالف اور موافق کے عمائدین کی گفتگو خصوصاً سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کو بھی مدعو کیا جائے تو یقیناً اس کے اثرات دور رس اور دیر پا ہوں گے اور سفیروں کی کانفرنس کے مقاصد حاصل ہوں گے۔ بصورت دیگر یہ ماضی کے طرز عمل کا تسلسل ہوگا اور سفیروں کی کانفرنس کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوں گے۔
پاکستان کو اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں جدت پسندی، نئی روشنی عالمگیریت پیدا کرنی ہوگی جو تمام ممالک اور اقوام کے لیے پسندیدہ ہوں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ سیاست میں ایک مقام ایسا آگیا جہاں روس چین اور ان کے مخالف امریکا ایک نکتہ پر یکساں ہوگئے جس کی وجہ سے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ہر پاکستانی کو بریکس اعلامیے پر تشویش ہونے لگی اور خاص طور سے اس مقام پر کہ ایک وقت تھا کہ روس چین اور امریکا مدمقابل تھے مگر آج تشدد کی اصطلاحات اور روس، چین اور امریکا کا انداز گفتگو قریب تر ہے۔
ایسی صورتحال ہمارے ملک کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ پاکستان کے موضوع پر برکس میں دوران گفتگو جیش محمد اور لشکر طیبہ کا تذکرہ رواں رکھا جسے بھارت کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ سابقہ کانفرنس میں پاکستان کی ان تنظیموں کے نام نہیں شامل تھے۔ گو کہ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف چین کے دورے پر گئے مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ البتہ اب پاکستان کو اپنی سیاسی حکمت عملی طے کرنے میں عرب ممالک کو شامل کرنے سے گریزکرنا ہوگا کیونکہ ان کا عالمی پیمانے پر کوئی بھی سیاسی اثر نہیں بلکہ یمن کی جنگ نے خطے میں کشیدگی دگنی کردی ہے۔
پاکستان نے یمن جنگ سے لاتعلقی کرکے ایک اہم قدم اٹھایا ہے کیونکہ یمن میں بمباری کے نتیجے میں ہزاروں بچے جان سے جا چکے ہیں، غذائی قلت ہے، اور وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ اس جنگ کے نتائج اندوہناک ہونے کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ جلد یا دیر اس بات کے امکانات بڑھ رہے ہیں کہ ایران اس جنگ میں شامل نہ ہو جائے حالانکہ عرب ممالک ایران کی حمایت کا اشارہ دے رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان نے دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے اور اپنے پڑوسی ایران سے جو کشیدہ تعلقات میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا تھا اس میں کمی کی توقع نظر آرہی ہے۔ ورنہ پاکستان کا اپنے اردگرد مخالف ملکوں کے نرغے میں رہنا اچھی علامت نہ تھا۔
بھارت اور افغانستان نے تو ویسے ہی مشکلات میں اضافہ پیدا کر رکھا ہے۔ خصوصاً بلوچستان کے معاملات کو کشیدہ تر کر رکھا ہے اور جو لوگ بلوچستان کے لیڈر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی وزارت اور لیڈری محض ایک تنخواہ دار کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ وہ کسی قسم کی گفت و شنید کا آغاز نہیں کر رہے اور حالات جوں کے توں کھڑے ہیں اور نہ کسی سیاسی پیشرفت کی توقع ہے۔
بہرحال ہماراموضوع گفتگو کیونکہ سفیروں کی کانفرنس تک محدود تھا جیساکہ کچھ دیر قبل یہ کہا گیا ہے کہ اس ایک کانفرنس سے کوئی نئی خیال آفرینی کا امکان نہیں بلکہ جیسا کہ افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ وہ استدلال اور منطق کی زبان سمجھتے ہیں تو پھر ان سے ایسے ہی ماحول میں گفتگو کی ضرورت ہے اور انٹرنیشنل ریلیشن کے کسی بلند پایہ استاد سے تیار کردہ پمفلٹ کی روشنی میں اشرف غنی سے مدلل گفتگو کی جائے اور پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں سیمینار کا انعقاد کیا جائے تاکہ ہمارا پیغام گلی گلی کوچہ کوچہ کوبہ کو پہنچے ورنہ صرف ایک کانفرنس لاحاصل رہے گی۔