بلوچستان کے آتش کدے کو ٹھنڈا کیجیے
شورش زدہ بلوچستان میں گریٹر بلوچستان کی تحریک بھی جاری ہے۔
PESHAWAR:
سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے، ملک دشمن سرگرمیوں اور دہشتگردی میں ملوث افراد سے آہنی ہاتھوںسے نمٹنے کا فیصلہ کیاہے، صدرآصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اورآرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کے درمیان ایوان صدرمیں اہم ملاقات ہوئی جس میں ملک خصوصاً بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال اور سانحہ کیرانی روڈ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کاجائزہ لیا گیا۔ بلوچستان کی اندوہ ناک صورتحال اور سانحہ کوئٹہ کے پس منظر میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ ابھی اور اسی وقت دہشت گردی کے خلاف کوئی جارحانہ فیصلہ اور نتیجہ خیز ایکشن نہ لیا گیا تو پانی سر سے اونچا ہوجائے گا اور پھر تاریخ بھی حکمرانوں کو ان کی عاقبت نااندیشی،عدم معاملہ فہمی، فیصلہ سازی کی جرات و بصیرت کے فقدان اور دہشت گردوں سے ناقابل یقین نرمی برتنے پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔
حقیقت میں سوا ماہ کے کم تر وقفہ میں کوئٹہ کے یکے بعد دیگرے دو ہولناک سانحوں نے قومی ضمیرکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور سیاسی و جمہوری قوتوں کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ وہ جمہوری عمل کو آزادی کے ایستادہ خاموش و بے بس مجسمہ کی شکل نہ دیں۔ اجلاس کے ممکنہ فیصلوں کی روشنی میں اس امر کا اعلان قدرے خوش آیند ہے کہ بلوچستان میں متحرک غیر ملکی قوتوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی ہو گی، صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ملاقات میں وزیر قانون فاروق نائیک کوبھی طلب کیا گیاجنہوں نے بلوچستان کے حوالے سے آئینی وقانونی نکات پر بریفنگ دی، اجلاس میں انٹیلی جنس اداروں کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے میں ناکامی پر بھی غورکیا گیا،اجلاس میں تمام انٹیلی جنس اداروں میں رابطوں کو بڑھانے اورمعلومات کے فوری تبادلے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایک اہم فیصلہ جو سامنے آیا وہ آرمی چیف کا صدر اور وزیر اعظم کویقین دلانا ہے کہ مسلح افواج امن و امان پرقابو پانے کے لیے انتظامیہ کی ہر طرح سے مدد کریں گی اور انتظامیہ جہاںضرورت محسوس کرے گی فوج وہاں اسے مدد دے گی، وفاقی وزیر قانون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اجلاس میں بلوچستان میں گورنر راج ختم کرنے اورصوبائی حکومت بحال کرنے پرغور کیا گیا ۔یہاں سوالات کا ایک سلگتا سلسلہ بلوچستان میں ہزارہ برادری کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کے اسباب کے گرد اپنا حصار قائم کرتا ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ کون سے عناصر اس برادری کی نسل کشی پر کمربستہ ہیں، بلوچ سیاسی حلقوں کی طرف سے اس اندیشے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ نادیدہ ہاتھ اور غیر ملکی قوتیں اس برادری کو بلوچوں کے خلاف صوبہ کا ایک اور اسٹیک ہولڈر بنانا چاہتی ہیں ۔
بعض تجزیہ کاروں نے کوئٹہ کی ڈیموگرافک تبدیلیوں، شاندار محلات نما عمارات پر مبنی نئی آبادیوں اور ان مکانوں کی بیش بہا قیمتوں کے تناطر میںقتل و غارت کے اسکرپٹ کی نشاندہی کی ہے۔صدر کے مشیر فرحت اﷲ بابر نے الزام لگایا ہے کہ ایک کالعدم تنظیم کے قیدیوں کو کینٹ جیل سے فرار کرایا گیا۔ مسنگ پرسنز کیس بلوچستان کی سیاست کا آتش کدہ ہے، بعض وزرا اور ڈھیر سارے مختلف النوع مذہبی، فرقہ وارانہ،لسانی،قوم پرست مجرمانہ گروہ ہیں جو پیدا شدہ بدامنی کو کیش کرا رہے ہیں، انھیں بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے۔یہ لوگ اغوا برائے تاوان کی ایسی دردناک وارداتوں میں ملوث ہیں کہ جن کے خلاف سپریم کورٹ کے بار بار انتباہ کے باوجود ان کے خلاف آپریشن نہیں ہوا۔
شورش زدہ بلوچستان میں گریٹر بلوچستان کی تحریک بھی جاری ہے، اسے غیر ملکی قوتوں اور در پردہ انکل سام کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ میر حاصل بزنجو،ڈاکٹر شکیل، عبدالحئی بلوچ، اسماعیل بلیدی، صابر بلوچ سمیت دیگر قوم پرست بلوچ رہنما اب بھی پاکستان کے آئینی اور جغرافیائی ڈھانچے میں اپنے قومی حقوق و وسائل کی بازیافت کے حامی ہیں اور اس کی بھاری قیمت بھی ادا کر رہے ہیں ،ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔اس لیے ان سے بھی مشاورت کرکے بلوچستان کو بحران سے نکالنے کی کوشش ہونی چاہیے۔اور کڑوا گھونٹ ہی سہی غیر ممالک میں مقیم بلوچ لیڈروں کو پاکستان بلا کر ان سے مکالمے کا آغاز کرنا اشد ضروری ہے جو ملک کے مقتدر حلقوں ، منتخب جمہوری رہنمائوں،قبائلی اکابرین اور اپوزیشن رہنمائوں کا بلوچستان کی کشتی کو طوفان سے نکالنے کا ایک امتحان بھی ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی سانحہ کوئٹہ اور ہزارہ برادری کے قتل عام کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عبوری حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت بلوچستان میں امن و امان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوگئیں۔ دونوں حکومتوں نے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کیں،عدالت کو اب پوچھنا پڑے گا کہ وزیراعظم اورگورنرسانحہ کوئٹہ کی ذمے داری قبول کیوں نہیں کر رہے؟ اور ایک ہزار کلوگرام دھماکا خیزمواد ہزارہ ٹائون کیسے پہنچا ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ صدر ، وزیراعظم اور گورنرکو فیکس کرکے عدالت کا حکم پہنچایا جائے، تمام ادارے موجود ہیں مگرکوئی نہیں پکڑا جاتا، منگل کو چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
ایڈووکیٹ طارق اسد نے عدالت سے استدعا کی کہ صوبے میں آئین کا آرٹیکل245لاگو کیا جائے، اگر جمہوریت بچاتے رہے تو زندگیاں نہیں بچیں گی۔یہاں وہ تاریخ ساز دورانیہ آتا ہے جہاں قوم آزاد عدلیہ کی بلوچستان کے حوالے سے درد مندی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس امید کی شمع کو جلائے رکھنا چاہتی ہے کہ اس صوبہ کو جلد امن اور آشتی کی دولت نصیب ہوگی ، ہزارہ سمیت ہر شہری کے جان و مال کے تحفظ کے لیے فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا فرض تندہی سے نبھائیں گے۔ ضررورت اس امر کی ہے کہ مقامی انتظامیہ سانحہ ہزارہ ٹائون کوئٹہ میں جاں بحق افرادکی تدفین اورکوئٹہ سمیت ملک بھرمیں دھرنے ختم کرنے کے اعلان کے بعد متاثرین اور غمزدہ خاندانوں کے تالیف قلوب اور ان کی بحالی کے اقدامات پر توجہ دے۔
وعدے کے مطابق اس علاقے کو ریڈ زون میں شامل کرے اور سیکیورٹی کے مزید اقدامات کو یقینی بنائے۔ مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ امین شہیدی اور سانحہ کوئٹہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کوئٹہ میں دھرنے کے مقام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر کے اچھا قدم اٹھایا۔ اب جب کہ سانحہ کوئٹہ کے متاثرین نے دھرنا ختم کردیا ہے ارباب اختیار طے شدہ حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کردیں،جس کا عملی طور پر آغاز ہو بھی چکا ہے تاہم ضرورت بلاامتیاز ایک ایسے نتیجہ خیز، بے رحم اور عبرت انگیز آپریشن کی ہے ۔ یہ کارروائی قوم کو نظر آنی چاہیے۔
سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے، ملک دشمن سرگرمیوں اور دہشتگردی میں ملوث افراد سے آہنی ہاتھوںسے نمٹنے کا فیصلہ کیاہے، صدرآصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اورآرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کے درمیان ایوان صدرمیں اہم ملاقات ہوئی جس میں ملک خصوصاً بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال اور سانحہ کیرانی روڈ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کاجائزہ لیا گیا۔ بلوچستان کی اندوہ ناک صورتحال اور سانحہ کوئٹہ کے پس منظر میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ ابھی اور اسی وقت دہشت گردی کے خلاف کوئی جارحانہ فیصلہ اور نتیجہ خیز ایکشن نہ لیا گیا تو پانی سر سے اونچا ہوجائے گا اور پھر تاریخ بھی حکمرانوں کو ان کی عاقبت نااندیشی،عدم معاملہ فہمی، فیصلہ سازی کی جرات و بصیرت کے فقدان اور دہشت گردوں سے ناقابل یقین نرمی برتنے پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔
حقیقت میں سوا ماہ کے کم تر وقفہ میں کوئٹہ کے یکے بعد دیگرے دو ہولناک سانحوں نے قومی ضمیرکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور سیاسی و جمہوری قوتوں کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ وہ جمہوری عمل کو آزادی کے ایستادہ خاموش و بے بس مجسمہ کی شکل نہ دیں۔ اجلاس کے ممکنہ فیصلوں کی روشنی میں اس امر کا اعلان قدرے خوش آیند ہے کہ بلوچستان میں متحرک غیر ملکی قوتوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی ہو گی، صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ملاقات میں وزیر قانون فاروق نائیک کوبھی طلب کیا گیاجنہوں نے بلوچستان کے حوالے سے آئینی وقانونی نکات پر بریفنگ دی، اجلاس میں انٹیلی جنس اداروں کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے میں ناکامی پر بھی غورکیا گیا،اجلاس میں تمام انٹیلی جنس اداروں میں رابطوں کو بڑھانے اورمعلومات کے فوری تبادلے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایک اہم فیصلہ جو سامنے آیا وہ آرمی چیف کا صدر اور وزیر اعظم کویقین دلانا ہے کہ مسلح افواج امن و امان پرقابو پانے کے لیے انتظامیہ کی ہر طرح سے مدد کریں گی اور انتظامیہ جہاںضرورت محسوس کرے گی فوج وہاں اسے مدد دے گی، وفاقی وزیر قانون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اجلاس میں بلوچستان میں گورنر راج ختم کرنے اورصوبائی حکومت بحال کرنے پرغور کیا گیا ۔یہاں سوالات کا ایک سلگتا سلسلہ بلوچستان میں ہزارہ برادری کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کے اسباب کے گرد اپنا حصار قائم کرتا ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ کون سے عناصر اس برادری کی نسل کشی پر کمربستہ ہیں، بلوچ سیاسی حلقوں کی طرف سے اس اندیشے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ نادیدہ ہاتھ اور غیر ملکی قوتیں اس برادری کو بلوچوں کے خلاف صوبہ کا ایک اور اسٹیک ہولڈر بنانا چاہتی ہیں ۔
بعض تجزیہ کاروں نے کوئٹہ کی ڈیموگرافک تبدیلیوں، شاندار محلات نما عمارات پر مبنی نئی آبادیوں اور ان مکانوں کی بیش بہا قیمتوں کے تناطر میںقتل و غارت کے اسکرپٹ کی نشاندہی کی ہے۔صدر کے مشیر فرحت اﷲ بابر نے الزام لگایا ہے کہ ایک کالعدم تنظیم کے قیدیوں کو کینٹ جیل سے فرار کرایا گیا۔ مسنگ پرسنز کیس بلوچستان کی سیاست کا آتش کدہ ہے، بعض وزرا اور ڈھیر سارے مختلف النوع مذہبی، فرقہ وارانہ،لسانی،قوم پرست مجرمانہ گروہ ہیں جو پیدا شدہ بدامنی کو کیش کرا رہے ہیں، انھیں بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے۔یہ لوگ اغوا برائے تاوان کی ایسی دردناک وارداتوں میں ملوث ہیں کہ جن کے خلاف سپریم کورٹ کے بار بار انتباہ کے باوجود ان کے خلاف آپریشن نہیں ہوا۔
شورش زدہ بلوچستان میں گریٹر بلوچستان کی تحریک بھی جاری ہے، اسے غیر ملکی قوتوں اور در پردہ انکل سام کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ میر حاصل بزنجو،ڈاکٹر شکیل، عبدالحئی بلوچ، اسماعیل بلیدی، صابر بلوچ سمیت دیگر قوم پرست بلوچ رہنما اب بھی پاکستان کے آئینی اور جغرافیائی ڈھانچے میں اپنے قومی حقوق و وسائل کی بازیافت کے حامی ہیں اور اس کی بھاری قیمت بھی ادا کر رہے ہیں ،ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔اس لیے ان سے بھی مشاورت کرکے بلوچستان کو بحران سے نکالنے کی کوشش ہونی چاہیے۔اور کڑوا گھونٹ ہی سہی غیر ممالک میں مقیم بلوچ لیڈروں کو پاکستان بلا کر ان سے مکالمے کا آغاز کرنا اشد ضروری ہے جو ملک کے مقتدر حلقوں ، منتخب جمہوری رہنمائوں،قبائلی اکابرین اور اپوزیشن رہنمائوں کا بلوچستان کی کشتی کو طوفان سے نکالنے کا ایک امتحان بھی ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی سانحہ کوئٹہ اور ہزارہ برادری کے قتل عام کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عبوری حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت بلوچستان میں امن و امان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوگئیں۔ دونوں حکومتوں نے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری نہیں کیں،عدالت کو اب پوچھنا پڑے گا کہ وزیراعظم اورگورنرسانحہ کوئٹہ کی ذمے داری قبول کیوں نہیں کر رہے؟ اور ایک ہزار کلوگرام دھماکا خیزمواد ہزارہ ٹائون کیسے پہنچا ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ صدر ، وزیراعظم اور گورنرکو فیکس کرکے عدالت کا حکم پہنچایا جائے، تمام ادارے موجود ہیں مگرکوئی نہیں پکڑا جاتا، منگل کو چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
ایڈووکیٹ طارق اسد نے عدالت سے استدعا کی کہ صوبے میں آئین کا آرٹیکل245لاگو کیا جائے، اگر جمہوریت بچاتے رہے تو زندگیاں نہیں بچیں گی۔یہاں وہ تاریخ ساز دورانیہ آتا ہے جہاں قوم آزاد عدلیہ کی بلوچستان کے حوالے سے درد مندی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس امید کی شمع کو جلائے رکھنا چاہتی ہے کہ اس صوبہ کو جلد امن اور آشتی کی دولت نصیب ہوگی ، ہزارہ سمیت ہر شہری کے جان و مال کے تحفظ کے لیے فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا فرض تندہی سے نبھائیں گے۔ ضررورت اس امر کی ہے کہ مقامی انتظامیہ سانحہ ہزارہ ٹائون کوئٹہ میں جاں بحق افرادکی تدفین اورکوئٹہ سمیت ملک بھرمیں دھرنے ختم کرنے کے اعلان کے بعد متاثرین اور غمزدہ خاندانوں کے تالیف قلوب اور ان کی بحالی کے اقدامات پر توجہ دے۔
وعدے کے مطابق اس علاقے کو ریڈ زون میں شامل کرے اور سیکیورٹی کے مزید اقدامات کو یقینی بنائے۔ مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ امین شہیدی اور سانحہ کوئٹہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کوئٹہ میں دھرنے کے مقام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر کے اچھا قدم اٹھایا۔ اب جب کہ سانحہ کوئٹہ کے متاثرین نے دھرنا ختم کردیا ہے ارباب اختیار طے شدہ حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کردیں،جس کا عملی طور پر آغاز ہو بھی چکا ہے تاہم ضرورت بلاامتیاز ایک ایسے نتیجہ خیز، بے رحم اور عبرت انگیز آپریشن کی ہے ۔ یہ کارروائی قوم کو نظر آنی چاہیے۔