تھر میں بارشوں کے بعد کا حسن آخری حصہ
تھر کا علاقہ پاکستان کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں پر خوبصورتی کے کئی مناظر ایسے ہیں
KARACHI:
اس موقعے پر قادر لاکھیر نے صحافیوں کو بتایا کہ ملک کے اندر بجلی کی کمی کی وجہ سے ترقی میں کافی رکاوٹ ہوگئی ہے، جسے پورا کرنے کے لیے کول مائننگ کا کام حکومت نے ترجیحی بنیاد پر تیز کردیا ہے جس سے پاکستان میں بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا اور پاکستان پڑوسی ملکوں کو بھی بجلی بیچ سکتا ہے۔ تھر کا علاقہ جو تقریباً 19 ہزار اسکوائر کلومیٹر پر محیط ہے جس میں سے 9 ہزار اسکوائر کلومیٹر پر کوئلہ موجود ہے جس کی کوالٹی دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اس ایریا میں تقریباً 175 بلین ٹن کوئلہ موجود ہے جب کہ پورے پاکستان میں 186 ملین ٹن کوئلہ ہے۔
تھر کے کوئلے کی کوالٹی جرمنی، چائنا، انگلینڈ اور ہندوستان جیسی ہے کوئلے کی یہ مقدار پاکستان کے پاور پلانٹس، انڈسٹریز اور گھریلو ضرورتیں پوری کرنے کے بعد بھی بچ جائے گی۔بلاک ٹو مائننگ کی کھدائی جلد شروع کردی جائے گی اور اس سے پہلے سال میں 3.8 ملین ٹن کوئلہ ملے گا، دوسرا مرحلے میں 7.6 ملین ٹن کوئلہ حاصل ہوگا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کوئلہ نکلنے سے پہلے ہی پاور پلانٹس والوں نے اسے خرید لیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ جون 2019 میں 660 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی جب کہ اس کا ٹارگٹ اکتوبر 2019 ہے۔
تھر کا کوئلہ ہماری ضرورت دو سو سال تک پوری کرتا رہے گا۔ تھر میں جو بجلی پیدا کرنیوالے پلانٹس کام کریں گے ان کی چمنی کی لمبائی تقریباً 180 میٹر اونچی رکھی گئی ہے تاکہ وہ علاقے کے ماحولیاتی فضا کو خراب نہ کرسکے۔تھر سے نکلنے والا کوئلہ ignite ہے جو قیمتی اور اہم ہے کوئلے میں ضروری ہے کہ Sulpher, Heat, Ash ہونا چاہیے۔ سلفر کی مقدار کم ہوگی تو وہ کوئلے کے معیار کو زیادہ اچھا بنائے گی۔ اس کوئلے سے نکلنے والی ash بھی کام کی ہے جس سے کنکریٹ کے بلاک بنائے جائیں گے جس سے مالی فائدہ ہوگا۔ بلاک ٹو کی مائننگ ہوگئی ہے اور وہاں سے موجود پانی کو نکالا جا رہا ہے۔
اس کوئلے کے ساتھ پانی کی تین تہیں ہیں جن میں اوپر اور درمیانی والی تہہ میں ایک سے تین فیصد پانی ہے جب کہ کوئلے کے نیچے 98 فیصد پانی ہے جسے نکالنے کے لیے 27 ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں۔ یہ پانی تقریباً 3600 سال پرانا ہے مگر زہر آلود نہیں ہے۔ یہ پانی نمکین ہے جسے قابل کاشت بنانے کے لیے ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔
بلاک 2 کوئل مائننگ سے نکلنے والے پانی کے لیے گورانو علاقے میں جو 25 کلو میٹر مائننگ سے دور ہے اس میں چھوڑا جا رہا ہے جس کے لیے 1500 ایکڑ زمین خریدی گئی ہے جس میں سے 532 ایکڑ پرائیویٹ ہے جس کے لیے زمین کے مالکان کو سند دکھانے کے بعد فی ایکڑ ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ کا معاوضہ دیا جا رہا ہے۔ باقی زمین سرکاری ہے۔ یہ پانی کا reservoir تقریباً بھرنے میں تین سے چار سال لگا دے گا۔ جب یہ پانی بھر جائے گا تو اس کا آدھا حصہ پاور پلانٹس میں استعمال کیا جائے گا اور باقی تھوڑا جو بچے گا وہ آہستہ آہستہ اڑ جائے گا۔
علاقے کے رہنے والوں کو یہ ڈر ہے کہ اس پانی سے ان کی زمین بنجر بن جائے گی تو آپریشن ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اس پانی میں چونا ہے جو پانی کو زمین کے بالکل نیچے جانے نہیں دے گا۔تھر کے فضائی، زمینی اور زرعی ماحول کو خراب ہونے نہیں دیا جائے گا جس کے لیے ماحولیاتی ایکٹ کی پیروی کی گئی ہے اس کے باوجود بھی اگر کوئی نقصان کا اندیشہ ہوا تو اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔
تھر کے اس علاقے میں تھر فاؤنڈیشن قائم کیا گیا ہے جس کی طرف سے 100 بستروں کا اسپتال بنایا جا رہا ہے جس کو انڈس اسپتال والے بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ علاقے سے ہیپاٹائٹس بی سی کے خاتمے کے لیے لوگوں کو ٹیکے لگائے گئے ہیں، آنکھوں کا کیمپ لگوایا گیا ہے جہاں پر کئی عورتوں اور مردوں کا طبی معائنہ ہوا، جنھیں آپریشن کی ضرورت تھی ان کا آپریشن کرکے انھیں ادویات اور چشمے دیے گئے جب کہ سٹیزن فاؤنڈیشن کی طرف سے دو اسکول بنائے جا رہے ہیں۔
آر او پلانٹس بھی لگائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ایریا کے لوگوں کو صاف پینے کا پانی ملے گا، موبائل سروس کے لیے فائبر کی لائنیں بچھائی جا رہی ہیں جس سے وہاں کے لوگوں کو موبائل کی سہولت مل سکے گی۔گورانو گاؤں کو صاف پینے کے پانی کی سہولت میں ہر روز 20 ہزار گیلن پانی ہر روز دو ہزار لوگوں کو مل سکے گا۔ آر او پلانٹ کو ڈیزل سے چلایا جائے گا جس کے لیے تھری لوگوں کو آپریٹر کی تربیت دی جائے گی۔ لوکل لوگوں کو روزگار دینے کے لیے 12 سو افراد کو مختلف ہنر کی تربیت دے کر روزگار سے لگایا گیا ہے جس میں ٹرک چلانا، مکینک اور الیکٹرک اور صنعتی ہنر شامل ہیں۔
ایک اندازے کیمطابق 2020 تک اسلام کوٹ اور اس کے آس پاس کی آبادی کے پچاس فیصد لوگ برسر روزگار ہوجائیں گے۔ اس عمل میں بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ انسانوں کے ساتھ، ان کی زرعی، پرندوں چرندوں کے ماحول کو بھی محفوظ بنایا جائے گا تاکہ تھر والوں کی معاشرتی اور معاشی زندگی زیادہ پرسکون بن سکے۔ تھر سے تعلق رکھنے والے انجینئرنگ پاس کرنیوالوں کے لیے ایک تربیتی پروگرام منعقد کیا گیا ہے جس میں 25 انجینئر تربیت حاصل کر رہے ہیں جنھیں دو سال تک آئی بی اے، کراچی یونیورسٹی اور مہران یونیورسٹی تربیت دیتی رہے گی۔
تربیت کے دوران انھیں 40 ہزار روپے Stipend دیا جائے گا جب کہ رہائش ، کھانا مفت ملے گا۔ اسی طرح دوسرے پروگرام کے تحت Thar Associate Engineers پروگرام میں دو سال کا ڈپلوما اور ایک سال کی جاب تربیت دینے کے لیے 30 لوگوں کی تربیت دی جا رہی ہے جنھیں 25 ہزار روپے ماہانہ Stipend ملے گا اور رہنے اور کھانے کی مفت سہولت کے ساتھ۔ جب کہ تھری نوجوانوں کے تعلیمی میدان میں ایک اچھی آفر دی جا رہی ہے جس کے تحت جو تھری نوجوان جو 20 ٹاپ اسٹوڈنٹس میں سے جو مہران یونیورسٹی جامشورو سے مائننگ انجینئرنگ میں داخلہ لے گا اس کا سارا خرچہ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی برداشت کرے گی۔
اس کے علاوہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے اینگرو میں جاب کی بھی گارنٹی دی جائے گی۔ کول مائننگ بلاک ٹو والوں کے لیے ایک پارک بنایا گیا ہے جہاں پر عورتوں اور بچوں کے لیے جھولے اور دوسری amusement کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ اس مفصل بریفنگ کے بعد ہم لوگ کھانے کی میز پر گئے جہاں پر پرتکلف ڈشز بنائی گئی تھیں۔
اس موقع پر صحافیوں کے وفد کو تھر میں تیار کردہ شال کا تحفہ دیا گیا۔ اس کے بعد ہم لوگ پھر وہاں گئے جہاں پر ہمارے رہنے کا انتظام تھا۔ دوسری صبح تقریباً 8 بجے سارے دوست کھانے کی میز سے فارغ ہوگئے اور اس کے بعد گاڑی میں سوار ہوکر کیمپ آفس کی طرف نکل گئے۔ وہاں سے ہمیں کول مائننگ بلاک ٹو کا وزٹ کروایا گیا، پھر پاور ہاؤس کا دورہ کرنے کے بعد ہم پبلک پارک گئے، پودے لگائے، پھر وہ جگہ دیکھی جہاں پر سبزی اور فصل کول کے پانی سے اگائے گئے ہیں۔
اب ہم گورانو پانی Reservoirکی طرف چل پڑے۔ ہمارے ساتھ میڈیا کوآرڈینیٹر محسن ببر بھی ساتھ تھے جو ہمیں ہر قدم پر بریف کرتے رہے۔ پانی ریزروائر پہنچ کر کافی مزہ آیا۔ پائپ کے ذریعے 25 کلو میٹر پہنچنے والا پانی تیزی کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ پانی کا رنگ سفید تھا اور چکھنے میں نمکین تھا۔ تقریباً ہر روز 30 کیوسک پانی گورانو کی زمین میں داخل ہو رہا ہے جسے مکمل طور پر بہانے میں تین سے چار سال لگ سکتے ہیں۔اب سفر میں تھوڑی سے سستی آگئی تھی کیونکہ اب کوئی ٹارگٹ نہیں تھا بس یہ کہ گھر پہنچ جائیں۔
اس پورے وزٹ میں ہمیں موبائل سگنل صحیح طریقے سے نہیں مل پائے جس کی وجہ سے گھر والوں سے پورا رابطہ نہیں رہا۔ حکومت سندھ کو تھر میں موجود ٹوئرزم سائٹس پر خاص طور پر توجہ چاہیے جس سے حکومت کو اچھی خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔
تھر کا علاقہ پاکستان کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں پر خوبصورتی کے کئی مناظر ایسے ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے ٹورسٹ آسکتے ہیں جس سے حکومت کی اچھی خاصی آمدنی ہوسکتی ہے۔ ہمارے نوجوان وزیر ثقافت کافی متحرک ہیں جن کی کوشش سے بہت ساری آرکیالوجیکل سائٹس بہتر ہو رہی ہیں۔ اس حکومت کو ختم ہونے میں باقی کچھ عرصہ رہ گیا ہے اس لیے اسے چاہیے کہ جتنا تیزی کے ساتھ ترقیاتی کام اس ذہن میں چل رہے ہیں پورے کیے جائیں اور پھر نئی اسکیمیں تیار کی جائیں۔