روہنگیا مسلمان بدترین تشدد کا شکار

عصر حاضر میں ان برمی مسلمانوں کا آبائی وطن موجودہ بنگلادیش ہی ہے۔

میانمار، سابقہ نام برما، کل آبادی 5کروڑ، اکثریت بدھ مت۔ ان 5 کروڑ لوگوں میں ایک قلیل سی آبادی مسلمانوں کی بھی ہے جن کی تعداد ہے آٹھ سے دس لاکھ یوں تو طویل عرصے سے ان مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے، یعنی 1950 کے بعد سے جب سے برما میں فوجی آمریت قائم ہوئی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ برمی مسلمان برما کے قدیم باشندے نہیں ہیں۔

یہ لوگ برما کے صوبے رخائن میں کب سے آباد ہیں یہ بھی ایک مخفی راز ہے ان برمی مسلمانوں کا آبائی وطن کون سا ہے اس سوال کا جواب وثوق سے نہیں دیا جاسکتا، البتہ گمان کیا جاسکتا ہے ممکن ہے یہ برمی مسلمان کسی وقت متحدہ ہندوستان کے صوبے بنگال موجودہ ملک بنگلہ دیش سے بہتر روزگار کی تلاش میں ملک برما ہجرت کرکے جا بسے ان لوگوں کے بنگالی ہونے کا گمان یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تہذیب و تمدن بنگلہ دیشی باشندوں کی مانند ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ برما کے مقامی لوگ ان لوگوں کو بنگالی ہی سمجھتے ہیں۔

چنانچہ یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ یہ لوگ قدیم ہندوستانی باشندے ہی ہیں، البتہ عصر حاضر میں ان برمی مسلمانوں کا آبائی وطن موجودہ بنگلادیش ہی ہے۔ بہرکیف ان لوگوں پر جبر و ستم کا آغاز اس وقت ہوا جب ساٹھ کی دہائی میں چند شر پسندوں نے ہتھیار بند کارروائیاں شروع کردیں خود کو مجاہدین کہلانے والے ان شرپسندوں نے برما کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کردیا جواب میں برما کی فوجی حکومت نے تمام ہی برمی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا آغاز کردیا۔

سیکیورٹی فورسز کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت خواتین، بزرگ، معصوم بچے و عام شہری ہوتے ہیں یہ سیکیورٹی فورسز کا جبر و ستم ایک جانب دوسرا جبر ان لوگوں پر یہ ہوتا ہے کہ خود کو مجاہدین کہلانے والے شرپسند چھاپہ مار کارروائیاں کرنے سے قبل یا چھاپہ مار کارروائیاں کرنے کے بعد ان غریب لوگوں کی بستیوں کے قریب قیام کرتے اور ان نام نہاد مجاہدین کے طعام و قیام کا ذمہ ان غریب لوگوں پر ہوتا ہے ان لوگوں کی نقل و حرکت بھی حکومت برما نے محدود کردی ۔ بالخصوص برما کے مرکزی شہر رنگون میں ان لوگوں کا داخلہ بالکل ممنوع قرار دے دیا گیا۔

1980 میں ان لوگوں کو ووٹ کے حق سے بھی محروم کردیا گیا۔ برما حکومت کے اس فیصلے سے روز روشن کی مانند یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ برما حکومت ان لوگوں کو برمی شہری تسلیم نہیں کرتی چنانچہ تمام تر جبر کا شکار یہ برمی شہری دیگر ممالک کا رخ کرنے لگے بالخصوص پاکستان، ہندوستان و بنگلہ دیش کا یہ لوگ برما سے ترک وطن کرکے ان ممالک میں سکونت اختیار کرنے لگے۔ البتہ کثیر تعداد نے کراچی کا رخ کیا جہاں ان تارکین وطن برمی شہریوں کی تعداد 2 لاکھ بیان کی جاتی ہے یہ سب بہرکیف تھوڑا ماضی کا ذکر ہے۔

تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ ایک جانب برما کے مذہبی شدت پسند حلقے ان لوگوں پر جو ابھی تک برما میں موجود ہیں بدترین و ناقابل بیان تشدد کر رہے ہیں بلکہ برما موجودہ نام میانمارکی سیکیورٹی فورسز بھی ان تشدد میں ملوث انتہا پسندوں کی معاونت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب خود کو مجاہدین کہلانے والے شرپسندوں نے 25 اگست2017 کو ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملے کردیے یہ شرپسند خود تو چھاپہ مار کارروائیوں کے بعد فرار ہوگئے۔


البتہ برمی مذہبی انتہا پسندوں نے جو سلوک برمی مسلمانوں کے ساتھ کیا اور کر رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہی ہے، البتہ 25 اگست 2017 کے بعد ان برمی مسلمانوں جنھیں روہنگیا مسلمان کہا جاتا ہے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع کردی۔ بالخصوص بنگلادیش کی جانب۔ بنگلادیشی حکومت بھی انھیں قبول نہ کرتی مگر عالمی دباؤ کے باعث بنگلادیشی حکومت نے انھیں اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دے دی اور بدنام زمانہ شہرکوکس بازار کے قریب ان تارکین وطن کے لیے عارضی کیمپ قائم کردیے ان 2 کیمپوں میں اب مزید گنجائش ختم ہوچکی ہے کیونکہ ان تارکین وطن کی تعداد اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ کثیر تعداد میں یہ برمی یا روہنگیا مسلمان بنگلادیش میں داخلے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میانمار کی حکومت نے تازہ ترین قدم یہ اٹھایا ہے کہ بنگلہ دیش سے ملحق اپنی سرحد پر بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ میانمار کی حکومت کے اس اقدام کے خلاف بنگلہ دیشی حکومت نے سخت احتجاج بھی کیا ہے ان روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان کے صوبے آسام میں بھی آباد ہے جن میں سولہ ہزار پانچ سو رجسٹرڈ و دیگر تئیس ہزار پانچ سو غیر رجسٹرڈ لوگوں پر مشتمل ہے یوں یہ تعداد بنتی ہے چالیس ہزار۔

البتہ ستم یہ ہے کہ تمام تر سنگین حالات کے باوجود ہندوستان کی مودی حکومت یہ عندیہ دے چکی ہے کہ ان لوگوں کو ہندوستان سے بے دخل کردیا جائے گا جب کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف مذمت جیسے روایتی الفاظ ادا کرنا بھی گوارا نہیں کیے بلکہ حالیہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ میانمار کے موقعے پر ان روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی وزیر اعظم کا موقف مزید سخت ہوگیا ہے یہاں تک کہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ان دونوں رہنماؤں نے رخائن کے مسلمانوں کے مسئلے کو کشمیر سے تشبیہ دے ڈالی۔

مقام حیرت و افسوس ہے کہ آنگ سان سوچی عالمی نوبل ایوارڈ بھی وصول کرچکی ہیں پھر بھی ان کا موجودہ رویہ ناقابل فہم ہے جب کہ میانمار کی حکومت کے خلاف عالمی سطح پر افسوس و غصے کا اظہارکیا جا رہا ہے، بالخصوص مسلم دنیا میں ترکی، انڈونیشیا وملائیشیا سفارتی سطح پرکافی متحرک ہیں۔ پاکستان میں عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستانی حکومت نے میانمار کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اس تمام صورتحال پر احتجاج بھی کیا ہے جب کہ ایک نامور پاکستانی بلڈر نے روہنگیا مسلمان متاثرین کے لیے ایک ارب روپے کی امداد و متاثرین کی آبادکاری کے لیے اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے خیال میں متاثرین کو امداد دینے کا اعلان تو ٹھیک البتہ ان روہنگیا مسلمان متاثرین کو پاکستان میں آباد کرنے کا منصوبہ غیر مناسب ہوگا بالخصوص سندھ میں ان متاثرین کی آبادکاری سے سندھی قوم میں شدید بے چینی پھیلے گی عصر حاضر میں پاکستان اس بے چینی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

البتہ اقوام عالم اس موقعے پر میانمار حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنے ان شہریوں کے لیے محفوظ ترین آبادکاری کرے البتہ جو لوگ اسلام کے نام پر پرتشدد کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں ان سے ہمیں یا کسی اور کو کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ ہم مظلوم خواتین بچوں و بزرگ شہریوں کے انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔

بہرکیف مختصر ترین الفاظ میں ہم ذکر کرتے ہیں شہدا علی انٹر پرائزز بلدیہ فیکٹری کا جن کی 11 ستمبر کو پانچویں برسی ہے۔ اس موقعے پر ہم سابق وزیر اعظم نواز شریف و نامور بلڈر سے اپیل کرتے ہیں کہ وعدے کے مطابق شہدا کے لواحقین کو رقم ادا کریں مزید پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں سے بھی گزارش ہے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے متاثرین سے کیے گئے اپنے تمام وعدے جن میں تمام متاثرین کے ایک ایک فرد کو ملازمت و رہائشی پلاٹ دینے کا وعدہ شامل ہے وہ پورے کریں۔
Load Next Story