تعلیمی تجارت کا مسلسل فروغ
تمام سرکاری افسروں کے بچے نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں کیونکہ انھیں سرکاری اسکولوں کی تعلیم پر اعتماد نہیں ہے۔
صوبائی حکومتوں کی معنی خیز خاموشی سے نجی اداروں کی تعلیمی تجارت عوام کے لیے اب اتنی مشکل بنا دی گئی ہے کہ والدین بھی ہر سال کے لیے جانے والے تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافے پر احتجاج اور مظاہروں پر مجبور ہوگئے ہیں جس کا ثبوت فیسوں میں اضافے کے خلاف والدین کا حالیہ احتجاج ہے مگر نجی تعلیمی مافیا والدین کے احتجاج کو اہمیت دے رہی ہے اور نہ صوبائی حکومتیں اس ناجائز اضافے کو روکنے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔
یہ مافیا اب اس قدر طاقتور ہوچکا ہے کہ جس کے آگے حکومتیں اور محکمہ تعلیم خود مجبور ہیں کیونکہ اس مافیا کی جڑیں اب حکومتوں کے ایوانوں، میڈیا اور اعلیٰ حکومتی حلقوں تک انتہائی مضبوط ہوچکی ہیں اور خود محکمہ تعلیم کے افسران بھی نجی اسکول چلا رہے ہیں اور نجی اسکولوں کے مفاد پرست مالکان نے اپنی تنظیموں کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ محکمہ تعلیم خود ان کے آگے بے بس ہوچکا ہے۔
کسے نہیں معلوم کہ گنتی کے چند بڑے نجی تعلیمی اداروں کو چھوڑکر نجی اسکولوں کی اکثریت حکومتی قوانین پر پورا نہیں اترتی اور بہت کم تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کی عمارتیں اپنی ہیں جن میں 80 گز تک کے مکانوں میں بنے ہوئے نجی اسکول بھی ہیں جن کی فیسیں کم ہیں تو ان کا معیار بھی ایسا ہی ہے اور جو نجی اسکول بڑے بنگلوں میں کرائے پر چل رہے ہیں ان بنگلوں کے بھاری کرایوں اور اسکول مالکان کی کمائی کی ذہنیت کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں کی فیسیں تو زیادہ ہیں مگر وہاں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں کم ہیں تاکہ اخراجات کم سے کم کرکے نجی اسکول مالکان کی آمدنی ہر ماہ بڑھتی رہے خواہ معیار تعلیم اس وجہ سے پست ہوتا رہے۔
کون نہیں جانتا کہ اب ہر سال امتحانوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کا تعلق نجی اسکولوں سے ہوتا ہے اور سرکاری اسکولوں کو نمایاں پوزیشن نہیں ملتی کیونکہ وہ متعلقہ تعلیمی بورڈ سے یہ پوزیشن خرید نہیں سکتے جب کہ پوزیشن خریدنے والے نجی تعلیمی اداروں کی کمی نہیں ہے جو تعلیمی پوزیشن خرید کر اپنے اسکولوں کے باہر بڑے بڑے خوشنما پینا فلیکس کے ذریعے لوگوں کو فخریہ طور پر اپنے ادارے میں داخلے کے لیے ترغیب دیتے ہیں۔ نجی اسکولوں میں مختلف طریقوں سے پہلے بچوں کی تعداد پھر نئے نئے کیمپس کھولنے کے مقابلے چل رہے ہیں مگر ہر سال فیس بڑھانے کے لیے سب ایک اور متحد ہوجاتے ہیں۔
ملک کے بعض سیاستدانوں، میڈیا پرسنز، اعلیٰ حکومتی حلقوں میں تعلقات اور اثر و رسوخ والے معززین یا ان کی بیگمات نے بھی اپنے نجی اسکول کھول رکھے ہیں تو کس کی جرأت ہے کہ انھیں فیسں بڑھانے سے روک سکے۔ محکمہ تعلیم کے بڑے افسروں کو نجی اسکول مالکان سے تحائف بھی ملتے ہیں اور ان کے کہنے پر نجی اسکول داخلے بھی دیتے ہیں، فیس بھی کم کردیتے ہیں کیونکہ دونوں کے باہمی مفادات مشترک ہیں۔
بڑے اسکولوں میں بڑے افسروں، ارکان اسمبلی اور سیاستدانوں کے بچے پڑھتے ہیں جو ان اسکولوں کے مالکان کے مالی مفادات کا تحفظ اور اسکولوں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں جب کہ سرکاری اسکول صرف غریبوں کے بچوں کے لیے رہ گئے ہیں کیونکہ غریب لوگ اپنے بچوں کو چھوٹے نجی اسکولوں میں پڑھانے کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر حکومت یا تعلیمی افسران کی توجہ بالکل نہیں ہے جس کی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے مسلسل فروغ پا رہے ہیں۔
دیہاتوں میں سرکاری اسکولوں میں زمینداروں کے جانور بندھتے ہیں یا وہ گودام کا کام دیتے ہیں۔ شہروں میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ تعلیمی افسروں کو بھی مقررہ رشوت ملتی رہتی ہے۔ بعض سرکاری اسکولوں میں طلبا سے زیادہ اساتذہ ہیں جو اسکول نہیں آتے یا حاضری لگانے کبھی آجاتے اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سرکاری اسکولوں کے فنڈ میں کرپشن اور گھوسٹ اساتذہ کی بھرمار ہے اور ہر صوبائی حکومت کا محکمہ تعلیم صرف کمائی پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے افسران شہری علاقوں ہی کے سرکاری اسکولوں کے دورے بہت کم کرتے ہیں اور انھوں نے دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں کو وڈیروں اور وہاں تعینات اساتذہ کے حوالے کر رکھا ہے جہاں اساتذہ خود نہیں آتے تو بچوں کو کون پڑھائے۔ سرکاری اسکولوں کا معیار ہر صوبے میں وہاں کے محکمہ تعلیم اور تعلیمی افسران نے تباہ کر رکھا ہے۔
تمام سرکاری افسروں کے بچے نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں کیونکہ انھیں سرکاری اسکولوں کی تعلیم پر اعتماد نہیں ہے۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے تمام سرکاری افسران خواہش مند ہوتے ہیں جن میں بڑے افسران ان مہنگے اور مشہور اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخلے دلاتے ہیں، جہاں ماہانہ فیس چالیس ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے جب کہ دیگر افسران دوسرے درجے کے اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ماہانہ فیس دس بیس ہزار روپے ماہانہ ہو اور اتنے مہنگے اسکولوں میں اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات وہ اپنی تنخواہ سے نہیں بلکہ رشوت اور کرپشن کے بغیر ادا کر ہی نہیں سکتے ۔
اس لیے مہنگے نجی اسکول ملک میں کرپشن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ بڑے تاجر بھی سرکاری ٹیکس چوری کرکے اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل تابناک اور ملک و قوم کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔ نجی اسکولوں کو سال میں فیس بڑھانا اسکول میں دی گئی سہولیات سے مشروط ہوتا ہے جب کہ نجی اسکول تعلیمی افسروں کو رشوت دے کر فیس بڑھاتے ہیں اور سہولتیں نہیں بڑھاتے بلکہ حاصل سہولت کم کردیتے ہیں اور رشوت میں دی گئی رقم اسکول میں داخل طلبا سے مختلف بہانوں سے منگوا کر پوری کرلیتے ہیں۔ ہر اسکول میں آمدنی و اخراجات کے دو رجسٹر رکھ کر حکومت کے آگے آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کا رونا رو کر فیس بڑھانے کی اجازت لے لی جاتی ہے۔
نجی اسکول ہمیشہ نقصان کا رونا روتے ہیں جب کہ نقصان کی بنیاد پر کبھی کوئی اسکول بند نہیں ہوا بلکہ آمدنی بڑھنے کے ساتھ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ نجی اسکول مالکان کی آمدنی کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ 1982 میں ایک تاجر نے ایک اسکول کھولا تھا اور 35 سال میں اس تعلیمی تاجر کے اسکولوں کی تعداد چوبیس ہوچکی ہے اور یہ تعلیم فروشی کی کمائی سے ایک انٹرمیڈیٹ کالج بھی قائم کرچکے ہیں۔
ملک میں نامور سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز کے اسکولوں کی بڑی چین ہے جہاں معیار کے ساتھ فیس بھی مثالی ہے، جہاں بھاری فیسیں لے کر معیاری تعلیم دی جاتی ہے اور معمولی فیس کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار کہیں موجود نہیں کیونکہ سرکاری اسکول صرف تعلیمی افسروں کی کمائی کا ذریعہ بنا دیے گئے ہیں اور حکومتیں اپنے جھوٹے دعوؤں سے عوام کو دھوکا دے رہی ہے جو ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہی کا باعث ہیں، نجی تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد صرف اس صورت میں کم ہوسکتی ہے اگر حکومت مخلص اور ارکان اسمبلی واقعی عوام کا درد رکھتے ہوں اور سرکاری اسکولوں کا فروغ چاہتے ہوں۔
ملک کے تمام سرکاری افسروں پر یہ پابندی لگا دی جائے کہ وہ صرف سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرائیں تو حیرت انگیز طور پر سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار بڑھ سکتا ہے اور نجی اسکولوں کی حوصلہ شکنی سے ہی ان کی لوٹ کھسوٹ روکی جاسکتی ہے وگرنہ تعلیم فروشی کا یہ مذموم کاروبار کبھی بند نہیں ہوگا اور والدین ہر سال بڑھتی فیسوں سے لٹتے رہیں گے۔
یہ مافیا اب اس قدر طاقتور ہوچکا ہے کہ جس کے آگے حکومتیں اور محکمہ تعلیم خود مجبور ہیں کیونکہ اس مافیا کی جڑیں اب حکومتوں کے ایوانوں، میڈیا اور اعلیٰ حکومتی حلقوں تک انتہائی مضبوط ہوچکی ہیں اور خود محکمہ تعلیم کے افسران بھی نجی اسکول چلا رہے ہیں اور نجی اسکولوں کے مفاد پرست مالکان نے اپنی تنظیموں کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ محکمہ تعلیم خود ان کے آگے بے بس ہوچکا ہے۔
کسے نہیں معلوم کہ گنتی کے چند بڑے نجی تعلیمی اداروں کو چھوڑکر نجی اسکولوں کی اکثریت حکومتی قوانین پر پورا نہیں اترتی اور بہت کم تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کی عمارتیں اپنی ہیں جن میں 80 گز تک کے مکانوں میں بنے ہوئے نجی اسکول بھی ہیں جن کی فیسیں کم ہیں تو ان کا معیار بھی ایسا ہی ہے اور جو نجی اسکول بڑے بنگلوں میں کرائے پر چل رہے ہیں ان بنگلوں کے بھاری کرایوں اور اسکول مالکان کی کمائی کی ذہنیت کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں کی فیسیں تو زیادہ ہیں مگر وہاں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں کم ہیں تاکہ اخراجات کم سے کم کرکے نجی اسکول مالکان کی آمدنی ہر ماہ بڑھتی رہے خواہ معیار تعلیم اس وجہ سے پست ہوتا رہے۔
کون نہیں جانتا کہ اب ہر سال امتحانوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا کا تعلق نجی اسکولوں سے ہوتا ہے اور سرکاری اسکولوں کو نمایاں پوزیشن نہیں ملتی کیونکہ وہ متعلقہ تعلیمی بورڈ سے یہ پوزیشن خرید نہیں سکتے جب کہ پوزیشن خریدنے والے نجی تعلیمی اداروں کی کمی نہیں ہے جو تعلیمی پوزیشن خرید کر اپنے اسکولوں کے باہر بڑے بڑے خوشنما پینا فلیکس کے ذریعے لوگوں کو فخریہ طور پر اپنے ادارے میں داخلے کے لیے ترغیب دیتے ہیں۔ نجی اسکولوں میں مختلف طریقوں سے پہلے بچوں کی تعداد پھر نئے نئے کیمپس کھولنے کے مقابلے چل رہے ہیں مگر ہر سال فیس بڑھانے کے لیے سب ایک اور متحد ہوجاتے ہیں۔
ملک کے بعض سیاستدانوں، میڈیا پرسنز، اعلیٰ حکومتی حلقوں میں تعلقات اور اثر و رسوخ والے معززین یا ان کی بیگمات نے بھی اپنے نجی اسکول کھول رکھے ہیں تو کس کی جرأت ہے کہ انھیں فیسں بڑھانے سے روک سکے۔ محکمہ تعلیم کے بڑے افسروں کو نجی اسکول مالکان سے تحائف بھی ملتے ہیں اور ان کے کہنے پر نجی اسکول داخلے بھی دیتے ہیں، فیس بھی کم کردیتے ہیں کیونکہ دونوں کے باہمی مفادات مشترک ہیں۔
بڑے اسکولوں میں بڑے افسروں، ارکان اسمبلی اور سیاستدانوں کے بچے پڑھتے ہیں جو ان اسکولوں کے مالکان کے مالی مفادات کا تحفظ اور اسکولوں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں جب کہ سرکاری اسکول صرف غریبوں کے بچوں کے لیے رہ گئے ہیں کیونکہ غریب لوگ اپنے بچوں کو چھوٹے نجی اسکولوں میں پڑھانے کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر حکومت یا تعلیمی افسران کی توجہ بالکل نہیں ہے جس کی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے مسلسل فروغ پا رہے ہیں۔
دیہاتوں میں سرکاری اسکولوں میں زمینداروں کے جانور بندھتے ہیں یا وہ گودام کا کام دیتے ہیں۔ شہروں میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ تعلیمی افسروں کو بھی مقررہ رشوت ملتی رہتی ہے۔ بعض سرکاری اسکولوں میں طلبا سے زیادہ اساتذہ ہیں جو اسکول نہیں آتے یا حاضری لگانے کبھی آجاتے اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سرکاری اسکولوں کے فنڈ میں کرپشن اور گھوسٹ اساتذہ کی بھرمار ہے اور ہر صوبائی حکومت کا محکمہ تعلیم صرف کمائی پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے افسران شہری علاقوں ہی کے سرکاری اسکولوں کے دورے بہت کم کرتے ہیں اور انھوں نے دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں کو وڈیروں اور وہاں تعینات اساتذہ کے حوالے کر رکھا ہے جہاں اساتذہ خود نہیں آتے تو بچوں کو کون پڑھائے۔ سرکاری اسکولوں کا معیار ہر صوبے میں وہاں کے محکمہ تعلیم اور تعلیمی افسران نے تباہ کر رکھا ہے۔
تمام سرکاری افسروں کے بچے نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں کیونکہ انھیں سرکاری اسکولوں کی تعلیم پر اعتماد نہیں ہے۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے تمام سرکاری افسران خواہش مند ہوتے ہیں جن میں بڑے افسران ان مہنگے اور مشہور اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخلے دلاتے ہیں، جہاں ماہانہ فیس چالیس ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے جب کہ دیگر افسران دوسرے درجے کے اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ماہانہ فیس دس بیس ہزار روپے ماہانہ ہو اور اتنے مہنگے اسکولوں میں اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات وہ اپنی تنخواہ سے نہیں بلکہ رشوت اور کرپشن کے بغیر ادا کر ہی نہیں سکتے ۔
اس لیے مہنگے نجی اسکول ملک میں کرپشن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ بڑے تاجر بھی سرکاری ٹیکس چوری کرکے اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل تابناک اور ملک و قوم کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔ نجی اسکولوں کو سال میں فیس بڑھانا اسکول میں دی گئی سہولیات سے مشروط ہوتا ہے جب کہ نجی اسکول تعلیمی افسروں کو رشوت دے کر فیس بڑھاتے ہیں اور سہولتیں نہیں بڑھاتے بلکہ حاصل سہولت کم کردیتے ہیں اور رشوت میں دی گئی رقم اسکول میں داخل طلبا سے مختلف بہانوں سے منگوا کر پوری کرلیتے ہیں۔ ہر اسکول میں آمدنی و اخراجات کے دو رجسٹر رکھ کر حکومت کے آگے آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کا رونا رو کر فیس بڑھانے کی اجازت لے لی جاتی ہے۔
نجی اسکول ہمیشہ نقصان کا رونا روتے ہیں جب کہ نقصان کی بنیاد پر کبھی کوئی اسکول بند نہیں ہوا بلکہ آمدنی بڑھنے کے ساتھ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ نجی اسکول مالکان کی آمدنی کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ 1982 میں ایک تاجر نے ایک اسکول کھولا تھا اور 35 سال میں اس تعلیمی تاجر کے اسکولوں کی تعداد چوبیس ہوچکی ہے اور یہ تعلیم فروشی کی کمائی سے ایک انٹرمیڈیٹ کالج بھی قائم کرچکے ہیں۔
ملک میں نامور سیاستدانوں اور میڈیا پرسنز کے اسکولوں کی بڑی چین ہے جہاں معیار کے ساتھ فیس بھی مثالی ہے، جہاں بھاری فیسیں لے کر معیاری تعلیم دی جاتی ہے اور معمولی فیس کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار کہیں موجود نہیں کیونکہ سرکاری اسکول صرف تعلیمی افسروں کی کمائی کا ذریعہ بنا دیے گئے ہیں اور حکومتیں اپنے جھوٹے دعوؤں سے عوام کو دھوکا دے رہی ہے جو ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہی کا باعث ہیں، نجی تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد صرف اس صورت میں کم ہوسکتی ہے اگر حکومت مخلص اور ارکان اسمبلی واقعی عوام کا درد رکھتے ہوں اور سرکاری اسکولوں کا فروغ چاہتے ہوں۔
ملک کے تمام سرکاری افسروں پر یہ پابندی لگا دی جائے کہ وہ صرف سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرائیں تو حیرت انگیز طور پر سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار بڑھ سکتا ہے اور نجی اسکولوں کی حوصلہ شکنی سے ہی ان کی لوٹ کھسوٹ روکی جاسکتی ہے وگرنہ تعلیم فروشی کا یہ مذموم کاروبار کبھی بند نہیں ہوگا اور والدین ہر سال بڑھتی فیسوں سے لٹتے رہیں گے۔