حضرت ختمی مرتبتؐ کے امت پر حقوق

آپؐ کی ذات پر حقیقی ایمان سے مراد یہ ہے کہ بستر مرگ تک کسی مفکر یا فلسفی کا مقام آپؐ سے بلند نہ سمجھا جائے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

ZHOB:
جس وقت ایک انسان مشرف بہ اسلام ہو کر مسلمان بنتا ہے تو وہ کلمہ طیبہ کا زبان سے اعلان کرتا ہے۔ یہ کلمہ ایک طرح سے حلف نامہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی سے آخرت کے سفر تک زاد سفر اللہ اور محمدؐ کی وفاداری اور فرمانبرداری ہوگا۔

حقوق النبیؐ کی فہرست یوں تو بہت طویل ہے جن کا کماحقہ احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں اس لیے ان میں سے چند ایک بنیادی اور اساسی حقوق پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایمان۔ یہ امت کا فرض ہے اور آپؐ کا حق ہے کہ آپؐ کی ذات پاک پر غیر مشکوک اور غیر متزلزل سچا اور پکا یقین رکھا جائے۔ ایسا یقین کہ یہ نام مبارک ذہن کا سکون، دل کی دھڑکن اور آنکھوں کا اطمینان بن جائے۔ ذہنی اور قلبی طور پر آپؐ کی ذات طیبہ کو اور عملی طور پر آپؐ کی تعلیمات کو سب سے بہتر اور سب کی رہبر تسلیم کی جائے۔ وہ فکر و نظر جو آپؐ کی تعلیمات کی منکر نظر آئے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہی نہ جائے بلکہ حتی المقدور اس کی قولی، عملی اور قلبی موثر قوت کے ساتھ مخالفت اور مزاحمت کرکے بے اثر بنادیا جائے۔

''دنیا کے ملکوں میں کفر کی روش اختیار کرنے والے لوگوں کی چلت پھرت(ظاہری چمک دمک) تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔''(سورہ آل عمران۔ آیت194)

آپؐ کی ذات پر حقیقی ایمان سے مراد یہ ہے کہ بستر مرگ تک کسی مفکر یا فلسفی کا مقام آپؐ سے بلند نہ سمجھا جائے۔ دوسرے افکار و نظریات کو آپؐ کی تعلیمات سے بہتر نہ زبان سے کہا جائے اور نہ دل سے سمجھا جائے بلکہ ہر حال میں آپؐ کی ذات سے وابستہ اور آپ کی تعلیمات سے پیوستہ رہا جائے، کیونکہ آپؐ نے ایمان کی پہچان یہ بتائی ہے کہ:''ایمان کی حقیقی لذت سے وہی آشنا ہوا جو اللہ کے اپنا رب ہونے پر، اسلام کے اپنا دین ہونے پر اور محمدؐ کے اپنا رسول ہونے پر راضی اور مطمئن ہوگیا۔''

اطاعت۔ آپؐ کی تعلیمات پر من جانب اللہ ہونے پر یقین اور ان کی غیر مشروط اطاعت امت پر فرض ہے،کیونکہ آپؐ ناطق قرآن تھے، آپؐ کی زبان وحی کی ترجمان تھی، اس طرح آپؐ کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی ہی اطاعت ہے، اللہ کی معرفت کا راستہ اور اس کی جنت کا صحیح پتا صرف آپؐ کو معلوم ہے۔

جو مسلمان ظاہری اور رسمی طور پر تو محمدؐ کا نام لیوا بنتا ہے لیکن باطنی اور معنوی طور پر اس کی زبانی، تحریری فکری اور ذہنی کاوشیں اور اخلاقی اور مادی قوتیں اسلام کے متحارب اور متصادم فکر، فلسفہ اور نظریہ کے ساتھ ہوئی۔ قرآن اس اصول کا ترجمان ہے۔''جو شخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو حالانکہ اس پر راہ راست واضح ہوچکی ہو اور مومنین کی روش کے سوا کسی اور روش پر چل دے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونک دیں گے۔''

(سورہ النسا آیت۔ 115)''اس (قیامت کے) دن وہ سب لوگ جو رسول سے سرکشی اور نافرمانی کرتے ہیں، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔''(سورہ النسا۔ آیت ۔22) ''پس نہیں، اے نبیؐ! تمہارا رب (اس حقیقت کا) گواہ ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ آپس کے تمام معاملات میں آپ کو حکم نہ بنائیں اور پھر آپ کے فیصلے پر بنا کسی دلی تنگی کے آمادگی کے ساتھ سر تسلیم خم نہ کردیں۔''(سورہ النسا۔ آیت 65)''اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کے لیے یہ گنجائش نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کردیں تو ان لوگوں کو اپنے معاملے میں (اس فیصلے کے قبول و عدم قبول کا) کوئی اختیار باقی رہے۔''(سورہ الاحزاب۔ آیت36) ایسے شخص کی پہاڑ برابر اونچی اور وزنی نیک اعمال کی گٹھڑی جس میں احترام رسالت کی خوشبو نہ ہو اللہ کی نظر میں بے اثر، بے وزن اور بے ثمر ہے۔

ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں وہ راکھ کا ڈھیر ہیں۔ آپؐ نے اپنی اطاعت کے سلسلے میں فرمایا:''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات نفس میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائے۔''محبت۔ مسلمان کے یقین کے لیے سب سے معتبر اور مستند شہادت اللہ تعالیٰ کی شہادت ہے۔ قرآن شاہد ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے آپ کی محبت کا دم بھرتے ہیں اس ذات پاک پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ''اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو! تم بھی نبیؐ پر درود و سلام بھیجا کرو۔'' (سورہ الاحزاب۔آیت56) معراج کے موقع پر اپنے رب کے روبرو، دو بدو گفتگو فرماتے ہوئے جب آپؐ نے فرمایا رب، سب مالی، قولی اور بدنی عبادتیں تیرے لیے تو رب نے کہا:


السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

تشہد کی اہمیت یا دوسرے الفاظ میں اللہ کی نظر میں عظمت رسالتؐ کا احترام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے وہ نماز اللہ کو قبول نہیں اگر کوئی دانستہ تشہد نماز میں نہ پڑھے۔ نماز رب سے سلسلہ تکلم اور شرف ملاقات ہے۔ ملاقات سے واپسی پر پہلے مسلمان نبیؐ معظم پر درود بھیجتا ہے اور پھر دنیا میں لوٹتا ہے۔ اس طرح معلوم ہوا کہ آپؐ سے محبت جز ایمان ہے۔ اللہ کی رضا ہے۔

ایک طرف سارا جہاں اور دوسری طرف آپؐ کی ذات جمیلہ ہو تو ایمان کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی خاطر ہر چیز گھر بار، سامان معاش، اہل و عیال، عزیز و اقارب حتیٰ کہ والدین جیسی متاع عظیم کو چھوڑ دیا جائے۔ہر محبت پر آپؐ کی محبت غالب ہوجائے۔ یہ آپؐ ہی کی ذات سے محبت کا اثر تھا کہ حضرت علیؓ کی نگاہ عشق و مستی نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بلاچوں و چرا خوش دلی کے ساتھ ہجرت مدینہ کے موقع پر دشمنوں کے نرغے میں آپؐ کے بستر پر لیٹ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اہل و عیال چھوڑ کر آپؐ کے رفیق سفر بن گئے۔ حضرت زید بن حارثؓ نے آپؐ کی غلامی کو آزادی پر ترجیح دی اور والدین کو چھوڑ دیا۔ حضرت بلال حبشیؓ آگ کی طرح جلتے ہوئے ریت کے توے پر اور حضرت خبابؓ دہکتے ہوئے انگاروں پر لیٹ گئے۔

ادھر مالی ایثار کے لیے آپؐ نے پکارا ادھر دیوانہ وار شمع رسالتؐ کے پروانے ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں کہتے ہوئے دوڑ پڑے۔ یہ چند آپؐ کی محبت میں ڈوبی ہوئی شہادتیں ہیں اور ہمارے لیے مثالیں ہیں۔ آپؐ کی محبت کا معیار جسے قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے:

''کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے عزیز و اقارب اور مال جو تم نے کمایا ہے اور تجارت جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے اور مکانات جو تمہیں پسند ہیں تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو حتیٰ کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کردے۔''(سورہ التوبہ۔ آیت24)یہ تو تھی قرآن کی زبان اور آپؐ نے اسی معیار محبت کو یوں بیان فرمایا:''تم میں سے اس وقت تک کوئی آدمی مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو ماں، باپ، اولاد اور دوسرے تمام لوگوں اور چیزوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔''ان حقوق النبی کا تعلق صرف آپؐ کی حیات طیبہ سے ہی نہیں تھا بلکہ آج بھی آپؐ کی سنت آپؐ کی قائم مقام ہے۔

آپؐ کی سنت سے محبت کرنا اس کو زندہ اور پایندہ رکھنا اس کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کا انتظام و اہتمام کرنا آپؐ کے ذکر کو بلند کرنا یہ سب باتیں آپؐ کی ذات سے ہی محبت کے مترادف ہے آپؐ کی ذات سے محبت اور آپؐ کی سنت کی اطاعت ہی حقیقی سعادت اور جنت کی ضمانت ہے نگاہ عشق و مستی میں جب تک آپؐ ہی اول آپؐ ہی آخر نہ بن جائیں محبت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ جو یہ کہتا ہے کہ زبان سے کہہ بھی دیا محمد رسول اللہ تو کیا حاصل، غلط ہے، اس نام مبارک میں وہ برکت و رحمت اور روحانی تاثیر ہے کہ کہنے دینے سے بھی کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوتا ہے لیکن سب کچھ اسی وقت ہی حاصل ہوتا ہے جب اطاعت رسولؐ کو سرمایہ حیات سمجھ لیا جائے۔

حق بات تو یہ ہے کہ جسے آپؐ مل گئے آپؐ کی شفاعت مل گئی اسے خدا مل گیا۔ اور آپؐ، آپؐ کی شفاعت اور اللہ کی رحمت ملنے کا پتا آپؐ کی ذات سے محبت اور آپؐ کی سنت کی اطاعت ہے۔ اور آخر میں شعری زبان میں حقوق النبیؐ کا لب لباب:

''کی محمدؐ سے وفا تو نے' تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
Load Next Story