گھر تو آخر اپنا ہے

فلاں کام کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا ہے، مگر ہوتا کچھ نہیں۔

najmalam.jafri@gmail.com

ہم قربانی سنت ابراہیمی کے ذریعے اپنے رب کی خوشنودی و رضا کے حصول کے لیے کرتے ہیں جب کہ رضائے الٰہی کا حصول اس کے بندوں کے کام آنے ان کے مسائل حل کرنے میں بھی مضمر ہے، پھر آخر ہم قربانی کے بعد گلی گلی آلائشوں کے ڈھیر لگا کر قربانی کو بارگاہ ایزدی میں قبولیت کا یقین کرسکتے ہیں؟

رضائے الٰہی کے لیے سنت ابراہیمی پر عمل کریں اور خلق خدا کے لیے اتنی مشکلات پیدا کریں کہ ان کا جینا دوبھر ہوجائے، پورا علاقہ بلکہ شہر تعفن زدہ ہوکر رہ جائے، جس سے وبائی امراض کے پھوٹنے کا خطرہ ہر وقت سروں پر منڈلا رہا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ان آلائشوں کے تعفن سے جو وبائیں پھوٹتی ہیں کیا وہ نام پوچھ کر کسی کو متاثر کرتی ہیں؟ جس گلی یا محلے میں یہ تعفن پیدا ہوگا وبائی امراض وہاں سے پورے محلے نہیں بلکہ شہر بھر میں پھیلتے ہیں، تو جو لوگ اسی محلے، شہر کے رہائشی ہوکر ان آلائشوں کو یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں تو خدانخواستہ وہ وبائی امراض میں مبتلا نہ ہوں گے؟

کیا اس علاقے کے چند نوجوان مل کر اپنی اپنی گلی، محلے کے آس پاس کسی مناسب جگہ پر ایک گڑھا کھود کر ان آلائشوں کو اول روز ہی نہیں دفنا سکتے؟ جس قوم میں 62 فیصد نوجوان ہوں، وہاں بے حسی کا یہ عالم۔ یہ حقیقت ہے کہ جیسے حاکم ہوں عوام بھی انھی کی روش اختیار کرلیتے ہیں۔ صاحبان اقتدار خود کچھ کرتے ہیں نہ نوجوانوں کو متحرک کرکے ان کی صلاحیتوں سے کوئی استفادہ کرنے کا پروگرام یا منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

جب یہ صورتحال برسوں سے چلی آرہی ہے تو آخر خاندان کے بزرگ جو اپنی جوانی میں یقیناً بے حد فعال رہے ہوں گے، اپنے جوان بیٹوں یا پوتوں سے کیوں یہ کارخیر نہیں کرواتے؟ قبل اس کے کہ ہم کسی وبائی مرض کا شکار ہوں ازخود خود کو محفوظ کرنے میں آخر کیا حرج ہے؟ ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ کسی بھی طرح کی کوئی ذمے داری ازخود اٹھانے پر تیار نہیں ہوتے، چاہے اس میں ہمارا خود کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ چاہتے ہیں کہ ہر کام حکومت کرے اور وہ نہ کرے تو ہم اس پر تنقید کرتے رہیں۔

ادھر حکومت بطور خاص سندھ کی حکومت کی کارکردگی تو بس ایسی ہے کہ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔ سوائے روز اخبارات میں ایسے بیانات اور اشتہارات کے فلاں ترقیاتی کام کا آغاز کردیا گیا ہے یا ہونے والا ہے۔ فلاں کام کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا ہے، مگر ہوتا کچھ نہیں۔

گزشتہ آٹھ، دس برس سے سب حکومت سندھ کی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر نوجوانوں کو ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ چلو آگے بڑھ کر کچھ کام ہم ازخود کرلیں۔ ابھی تو ہم یہ کہہ رہے ہیں مگر ہمارا معاشرتی ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ واقعی اگر کچھ پرجوش جوان آگے بڑھ کر کوئی ذمے داری اٹھائیں تو ان کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کی جانے لگیں گی، الٹا ان سے پوچھا جائے گا کہ آپ کو کس نے اجازت دی کہ آپ کسی ادارے یا حکومتی رٹ کو چیلنج کریں؟

ادھر صوبائی حکومت اور شہری ذمے داران ایک دوسرے پر ٹالتے رہتے ہیں، حکومت سندھ کسی بھی شہری ادارے بشمول بلدیہ کو کچھ نہیں کرنے دیتی ہے نہ ان کے پاس اختیارات نہ فنڈز ۔یہ صورتحال غالباً اس لیے ہے کہ سندھ کے صاحبان اقتدار ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی کریڈٹ ان کو نہ مل جائے، خود کچھ کرنے کی عادت ہی نہیں بلکہ جو اپنے وسائل سے کچھ کرنا چاہتے ہیں ان پر طنز کیے جاتے ہیں، ان کے کام میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔


بھئی اگر کریڈٹ لینے کا ایسا ہی شوق ہے تو بڑھ کر کام کیجیے، کون آپ کو روکتا ہے؟ ویسے بھی بہرصورت یہ سب کچھ آپ ہی کی ذمے داری ہے، حکومت پر مامور ہیں تو کیا صرف حکومتی ارکان ہونے کی مراعات کے لیے اپنے عہدے اور اختیارات کو غلط اور ناجائز کام انجام دینے کے لیے آئین، اداروں اور وفاق سے پنگے لینے کے لیے؟

کوئی ایک شعبہ تو ہو جہاں آپ کی کارکردگی نظر آئے۔ تعلیم، صحت، معیشت، امن وامان، بے روزگاری، مہنگائی کہیں تو کوئی فرق نظر آئے۔ ہر جگہ آپ کی ذاتی مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں نے فیس میں اضافے کا طوفان کھڑا کیا ہوا ہے، والدین احتجاج کر رہے ہیں مگر ''واں ایک خموشی تیری سب کے جواب میں''۔

مان لیتے ہیں کہ کراچی سے آپ کو ''خاص بیر'' ہے (حالانکہ بھٹو صاحب کے حق میں ڈکٹیٹر کے خلاف کراچی نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا) باقی سندھ خصوصاً دیہی علاقوں کو تو آپ اون کرتے ہیں وہاں کچھ کر دکھائیے۔ پورا ملک امڈ امڈ کر کراچی چلا آرہا ہے مگر آپ سندھ کے لیے جان دینے والے اس کو کسی انتظامی بہتری کے لیے بھی تقسیم نہ کرنے کے بارے میں سخت جذباتی رویہ، تمام قوم پرست لیڈر اپنے صوبے کے خیر خواہ جلسوں، میٹنگز میں صرف پرجوش تقاریر اور سندھ سے وفاداری کا عہد کرتے رہنا مگر سندھ کے لیے کچھ عملی اقدام نہ کرنا۔

یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اب سندھ میں سندھی اقلیت میں ہیں جب کہ دوسرے صوبوں کے افراد ان سے زیادہ۔ اگر یہ محض افواہ ہی ہو تب بھی آپ کی آنکھیں تو کھلنی چاہئیں۔ کوئی قاعدہ، ضابطہ تو بنائیں اپنے صوبے کی ترقی، خوشحالی کا، اس کو بچانے کا، اپنا بنانے کا۔ نااہل سے نااہل لوگ بھی کم ازکم اپنے گھر کو (اگر بنا نہیں سکتے تو) برباد ہوتا بھی نہیں دیکھ سکتے۔

مہاجروں کو تو آپ ''آگے سمندر ہے'' یا بھارت واپس جانے کے مشورے دیتے رہتے ہیں مگر ایک صدی بعد تو وہ بھی سندھی ہی کہلائیں گے، کیونکہ آپ میں سے بھی بیشتر ''فرزند زمیں'' نہیں کوئی سات سو برس قبل، کوئی پانچ سو برس قبل یہاں آکر آباد ہوا تھا، تمام سید، قریشی، صدیقی، انصاری، عثمانی، غزنوی، اصفہانی، زبیری، غوری اور لودھی وغیرہ مختلف زمانوں میں یہاں ہجرت کرکے آتے رہے ہیں، ان میں سے کئی تو سندھ ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کے فرزند زمین نہ تھے، مگر اب سب یہاں کے ہیں۔ تو خورشید شاہ نے جو ماضی قریب میں مہاجرین کے خلاف مبینہ بیان ارشاد فرمایا تھا (جو مہاجروں کو بڑا ناگوار گزرا تھا) تو ایک نوجوان صاحبہ رکن قومی اسمبلی نے انھیں فون پر کہا کہ شاہ صاحب آپ بھی چند صدی پہلے مہاجر تھے، اگر آپ سرزمین عرب سے نہیں آئے تھے تو پھر آپ ''سید'' ہو ہی نہیں سکتے۔ اس کے فوراً بعد شاہ صاحب کو اپنی عزت سادات خطرے میں نظر آئی تو دوسرے بیان میں یہی فرمایا کہ میں مہاجروں کو کیسے برا کہہ سکتا ہوں میں تو خود عرب سے ہجرت کرنے والوں کی اولاد ہوں اور ہجرت تو سنت نبویؐ ہے۔

بات کہیں سے کہیں نکل گئی، عرض صرف یہ کرنا تھا کہ صاحبان اختیار و اقتدار خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ دوسروں کی کارکردگی سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر بلکہ ان سے بڑھ کر اپنے صوبے کے دیہاتوں اور شہروں کی ترقی و خوشحالی کے لیے عملی اقدامات کریں اور جو کوئی دوسرا آپ کا ہاتھ بٹانا چاہے اس کی بھی حوصلہ افزائی کیجیے کہ ''گھر تو آخر اپنا ہے'' کم ازکم اپنے گھر (صوبہ سندھ) کو مزید برباد ہونے سے بچا لیں۔

اگر آپ 2018 کے انتخابات میں ملک بھر کی ذمے داری اٹھانے کے خواہش مند ہیں تو اس کے لیے طرح طرح کے اقدامات، سازشیں، مک مکے اور دوسروں کے مقام و حیثیت کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے مراسم بڑھائیے، ان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھ کر حل کیجیے، کسی کا دل جیتنے کے لیے اس کا مان رکھنا بہتر قدم ہوسکتا ہے۔ اور یاد رکھیے کہ اب عوام کو بے وقوف بنانا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ کام اور صرف کام۔ بلاامتیاز سب کی ترقی و خوشحالی میں ہی آپ کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔
Load Next Story