21 فروری عالمی یوم مادری زبان

سارے افریقہ میں اپنی اپنی مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی افریقی سوہالی زبان بول لیتے ہیں۔


Zuber Rehman February 21, 2013
[email protected]

دور جدید کے معروف امریکی دانشور اور ماہر لسانیات پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ آج سے صرف 50 سال قبل دنیا میں 8613 زبانیں تھیں جو اب گھٹ کر 6376 تک رہ گئی ہیں، کچھ زبانیں تو حال ہی میں معدوم ہو گئی ہیں۔ جیسا کہ بھارت کے صوبہ گوا کی کوکنی زبان اب سے چند سال قبل معدوم ہو چکی ہے۔ شاذ و نادر کوئی ضعیف العمر آدمی کوکنی بول لیتا ہو۔ اب گوا کی مادری زبان انگریزی بن چکی ہے، دنیا کی بڑی زبانوں میں دوسری زبانیں مدغم ہوتی جا رہی ہیں اور وہ سات زبانیں ہیں اسپینش، انگلش، روسی، سوہالی، ہندی/ اردو، انڈونیشی اور میڈیٹیرین۔ سارا جنوبی امریکا اور شمالی امریکا میکسیکو اسپینش بولتا ہے۔ برطانیہ، یو ایس اے، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کیریبین ممالک، کچھ افریقی ممالک، ایک حد تک جنوبی افریقہ اور جنوبی بھارت میں انگریزی بولی جاتی ہے۔

سارے افریقہ میں اپنی اپنی مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی افریقی سوہالی زبان بول لیتے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں ہندی اور اردو کو الگ الگ زبانیں بتایا گیا تھا مگر اب ان کو ایک زبان کے طور پر گردانا جاتا ہے اس لیے بھی کہ ہندی کی عمر ڈھائی ہزار سال اور اردو کو عوامی زبان بنے ہوئے ڈھائی سو سال ہوئے ہیں۔ ویسے تو امیر خسرو نے سب سے پہلے ''ہندی، فارسی'' کے نام سے ایک کتاب لکھی جسے دور قدیم کی اردو کہی جا سکتی ہے۔ ویسے تو اردو مغلوں کے راج میں اکبر بادشاہ کے دور میں وقتی ضرورت کے تحت دریافت ہوئی اور اب ہندی یا اردو نیپال سے افغانستان تک بولی اور سمجھی جا سکتی ہے۔ انڈونیشی زبان، انڈونیشیا کے ہزاروں جزیروں میں بولی جانے والی سیکڑوں مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ سب کو انڈونیشی بولنی آتی ہے اور اس کا پھیلاؤ ملائیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن اور کمبوڈیا تک جا پہنچا ہے۔ میڈیٹیرین زبان مشرقی ایشیا اور مشرق بعید میں بولی جانے والی دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔

اسے پکٹوگرافیکل لینگویج (تصاویر کی زبان) بھی کہا جاتا ہے۔ چین، جاپان، ہانگ کانگ، سنگاپور، تائیوان، مکاؤ، ملیشیا، کوریا اور منچوریا تک یہ زبان پھیلی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر چین میں اس زبان کے ڈھائی ہزار اور جاپان میں دو ہزار حروف تہجی ہیں۔ ایک ہی طرح کے لکھے جانے والے لفظ کو چین میں دو سو قومیتیں اپنی اپنی بولیوں میں پڑھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ہی لفظ کو کوئی ککڑ، کوئی مرغی اور کوئی کچھ اور پڑھتا ہے۔ ان سات زبانوں میں دیگر ہزاروں زبانیں مسلسل مدغم ہو رہی ہیں۔ اب انگریزی کو ہی لے لیں شاید ہی کوئی کرہ ارض کا خطہ یا شہر ایسا ہو جہاں انگریزی بولنے اور سمجھنے والے دو چار لوگ نہ ملیں۔ اس طرح سے ثقافت اور لباس بھی دنیا بھر میں ایک ہی جیسے ہوتے جا رہے ہیں۔ پینٹ کو لے لیں، اس کا پرانا نام ترکی میں پینٹالون ہے، جسے اب انگریزی میں پینٹ اور اردو میں پتلون کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حروف تہجی بھی ایک تسلسل میں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سنسکرت اس خطے کی زبانوں کی ماں کی حیثیت رکھتی ہے۔

رومن حروف تہجی کے تلفظ سے جرمنی سے بنگلہ دیش تک ایک ہی ترتیب میں لکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اے، بی، سی، ڈی پھر ا، ب، ج،د، ترکی زبان میں س کو''ج'' کی آواز نکال کر بولتے ہیں۔ انگریزی میں کے، ایل، ایم، این، اور اردو میں ک، ل، م، ن، ہندی اور بنگلہ میں اور گجراتی میں کویو، لو، نو، یعنی لکھنے میں ایک ہی طرز و طریقہ کار ہے۔ اس طرح سے دنیا میں صرف 5 اقسام کے حروف تہجی ہیں، باقی سب ان کی شاخیں ہیں، بنگلہ زبان کی عمر ڈھائی ہزار سال سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی گرامر آج بھی سنسکرت ہے۔ برصغیر میں اس وقت تقریباً 30 کروڑ انسان بنگلہ زبان میں لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ، مغربی بنگال کی 13 کروڑ اور باقی ماندہ ہندوستان میں تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ بنگالی بستے ہیں۔

یہ زبان بہت گہرائی رکھتی ہے، بنگلہ زبان کے معروف شاعر رابندر ناتھ ٹیگور جنھیں ایشیاء کا پہلا نوبل انعام ملا تھا اور انھوں نے یہ انعام اس وقت واپس کر دیا جب جنرل ڈائر کے حکم پر جلیاں والا باغ پر برٹش فورسز نے گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کو دنیا کی اتنی یونیورسٹیوں میں مدعو کیا گیا کہ شیکسپیئر کو بھی اتنی یونیورسٹیوں میں نہیں بلایا گیا۔ زبانوں کو ملکوں یا سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ازبکستان کے قومی شاعر مرزا اسد اللہ غالب ہیں، ایران میں علامہ اقبال کو تقریباً قومی شاعر کا درجہ دیا جاتا ہے، ٹیگور کو بنگلہ دیش کا قومی شاعر قرار دیا گیا ہے، بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بھی رابندر نارتھ ٹیگور کا لکھا ہوا ہے۔ ٹیگور نے زبانوں کی سائنس پر ''بھاشا تاتیتک بگان'' نامی معروف کتاب لکھی، انگریزی طرز کا Sonnet بنگلہ میں بھی لکھا گیا۔ ''کنگ لیئر'' نامی ڈراما شیکسپیئر نے لکھا جس میں ایک ہی کردار تھا، اسی طرح ٹیگور نے ''روکتو کوروبی'' نامی ایک ڈرامہ لکھا، جس میں پانچ بار انٹرویل ہوتا ہے۔ اس ڈرامے میں بھی شروع سے آخر تک ایک ہی لڑکی کا کردار ہوتا ہے۔

رابندر ناتھ ٹیگور کو ٹوکیو، واشنگٹن، کیلیفورنیا، آکسفورڈ، جامعہ ازہر، جکارتہ، پیکنگ، بون، برلن، ایمسٹرڈیم، کوپن ہیگن سمیت بے شمار یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ ایک ایسی زبان اور ثقافت کا حامل علاقہ مشرقی پاکستان تھا۔ 1948ء میں قائداعظم نے جب ڈھاکہ رمنا پارک میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک اللہ، ایک رسول، ایک ملک اور ایک زبان اور وہ ہے اردو۔ اس پر ایک طالب علم رہنما نے کھڑے ہوکر اعتراض کیا کہ زبان صرف اردو نہیں بنگلہ بھی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے بنگلہ کو سرکاری اور قومی زبان قرار نہیں دیا۔ جس کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ یہ تحریک 21 فروری 1952ء کو اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ جب ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے سے جلوس گزرا تو مشرقی پاکستان کے سابق گورنر کے حکم پر ان طلبہ پر گولی چلا دی گئی جو بنگلہ زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کے لیے مطالبہ کر رہے تھے۔ ان گولیوں کی زد میں آ کر طالب علم رہنما سمیت دیگر 5 طلبہ شہید ہو گئے۔

اس کے بعد یہ تحریک مشرقی پاکستان (جو اب بنگلہ دیش ہے) میں ہر شہر اور گلی کوچوں میں پھیل گئی۔ بعد ازاں 1954ء میں انھی پاکستانی حکمرانوں نے بنگلہ کو پاکستان کی دوسری قومی (سرکاری) زبان کے طور پر تسلیم کر لیا۔ اب کرنسی نوٹ سمیت ہر سطح پر بنگلہ لکھی جانے لگی۔ یہ تحریک اتنی منظم، فعال اور متحرک تھی کہ حکمرانوں نے بار ہا اسے روکنے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں رابندر ناتھ ٹیگور کے گیت جسے ''رابندر سنگیت'' کہا جاتا ہے جو بنگلہ زبان، ثقافت اور ادب کا ایک مضبوط ستون ہے پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر مشرقی پاکستان کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، طلبہ، نوجوانوں، مزدوروں اور کسانوں نے تحریک چلا کر پابندی مسترد کر دی، پھر ایک بار جنرل ایوب خان نے ہی بنگلہ زبان کو مسخ کرنے کے لیے ''لنگوا فرانکا'' کو متعارف کروانے کی کوشش کی، مگر اسے بھی عوام نے رد کر دیا۔

آخر کار بنگلہ دیش کی آزادی پر دفتری کام بنگلہ میں شروع ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے اس دن کو یعنی21 فروری کو ''عالمی یوم مادری زبان'' قرار دے دیا۔ اس کے بعد سے دنیا کے ہر ملک میں جو کہ یواین او کا رکن ہے پر یہ لازم ہو گیا کہ وہ سرکاری طور پر 21 فروری کو ہر سال ''عالمی یوم مادری زبان'' منائے۔ اب زبان تو سنائی جانے لگی اور یہ بنگالیوں کا حق بھی تھا مگر جو گونگے ہوتے ہیں وہ کوئی زبان نہیں بولتے بلکہ اشارہ کر کے کھانا مانگتے ہیں۔ بھوک کا کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی زبان ہوتی ہے۔ آج بھی بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان میں بنگلہ، ہندی اور اردو بولنے پر مکمل آزادی ہے۔ ساتھ ساتھ سرمایہ داروں کو لوٹنے کی بھی آزادی ہے۔ اور عوام کو بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرنے کی بھی آزادی ہے۔ اس وقت دنیا میں ہر روز 50 ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہیں اور دوسری طرف تین امیر آدمی 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طبقاتی نظام کو اکھاڑ پھینکا جائے اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جہاں کوئی بھوکا نہ ہو، خواہ اس کی زبان کوئی بھی ہو یا نہ ہو۔

''بھوک حس لطافت کو مٹا دیتی ہے''۔
اس لیے سرمایہ داری کو مٹا کر ایک امداد باہمی کا معاشرہ قائم کر کے استحصال سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں