90 کی دہائی کا ری پلے
مکمل سیاسی تصویر کو بغور دیکھنے سے صرف دو پارٹیوں کو فتحیاب ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
الیکشن قریب آتے ہی ملک کا سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے، ہر لحظہ بدلتے سیاسی لینڈ اسکیپ کے باعث کوئی بھی پارٹی حتمی طور پر فتحیاب ہونے کا اعلان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کریہہ سیاست کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے۔ ایک طرف تو زرداری صاحب پنجاب کی راجدھانی لاہور کے لالہ زار میں بم پروف بلاول ہاؤس کی بنیاد ڈال کر آئے دن لاہوریوں کے مہمان اور میزبان بنے ہوئے ہیں، جہاں وہ پنجاب کی پر پیچ سیاست کے پس منظر میں نواز لیگ کی سیاست کا توڑ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب نواز شریف پیپلز پارٹی کے سیاسی گڑھ سندھ میں میدان مارنے کی غرض سے مصروف عمل نظر آتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے گھر نو ڈیرو میں آ کر شاندار سیاسی جلسے کا انعقاد کر کے زرداری صاحب کی بار بار لاہور آمد اور سیاسی سرگرمیوں کا جیسے براہ راست سیاسی جواب دیا ہے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق نو ڈیرو کے جلسے میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی، حالانکہ جلسوں والی سیاست کے Dynamics انتخابات کی مکمل تصویر کشی نہیں کرتے تاہم ملک کے مخصوص سیاسی حالات کے تناظر میں پیپلز پارٹی کا قلعہ سمجھے جانے والے علاقے میں لاکھوں افراد کے اجتماع کا انعقاد اور پھر وہاں کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت مکمل طور پر معمولی بات بھی نہیں کہی جا سکتی۔ اسی دوران (ن) لیگ نے پیپلز پارٹی کو پنجاب کے سیاسی میدان میں بھی چت کیا ہے۔
جہاں گزشتہ دنوں پی پی پنجاب کے سات ممبران نے ناراضگی کا اظہار کرتے اور الوداعی ہاتھ ہلاتے ہوئے روانگی والی راہ اختیار کر لی ہے۔ اس سیاسی ڈویلپمنٹ کو اچھی خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ مگر (ن) لیگ کو بھی معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی بھی کرارا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور کسی بھی وقت پچاس سے زائد ٹی وی چینلز کو گرما گرم بریکنگ نیوز مل سکتی ہے۔ اس بات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے پیپلز پارٹی کا ماہر مہرہ جناب منظور وٹو میدان میں اب بھی موجود ہے، حالانکہ وہ اپنی تقرری سے اب تک کوئی Break Through حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، تاہم حالات کا عندیہ یہ ہے کہ صدر زرداری کا ان کے اوپر اعتماد اور بے انتہا امیدیں اب تک وابستہ ہیں۔
حالانکہ منظور وٹو کی تقرری پر پی پی پنجاب میں بے انتہا بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور کئی ایک علاقوں سے کارکنان اعتراض اٹھاتے ہوئے نظر آئے، اور تو اور خود سابق وزیر اعظم گیلانی صاحب نے اپنی سیاسی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وٹو صاحب کو کئی قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے اور اب وہ صرف سینٹرل پنجاب تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں، لیکن وہاں پر بھی ان کی کارکردگی کوئی نتیجہ نہیں دے پائی۔ مگر اس کے باوجود زرداری صاحب کا ان پر اعتبار تاحال برقرار ہے۔ مجموعی طور پر ملکی سیاست 80ء اور 90ء کی دہائیوں کی طرف کھسکتی جا رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں سی او ڈی (چارٹر آف ڈیموکریسی) سمیت ساری مثبت نظر آنے والی سیاسی سرگرمیاں ایک بار پھر ملک کی مخصوص بے رحم سیاست کی سولی پر چڑھتی نظر آ رہی ہیں۔
مکمل سیاسی تصویر کو بغور دیکھنے سے صرف دو پارٹیوں کو فتحیاب ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جنہوں نے پوری سیاسی صورت حال کو اپنے حصار میں مقید کر لیا ہے۔ اس حوالے سے عمران خان جب دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی مک مکا پر چیختے چلاتے نظر آتے ہیں تو اپنے آرگیومنٹ میں بالکل صحیح معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ دونوں بڑی جماعتوں نے سیاسی کیک آدھا آدھا کر رکھا ہے اور وہ کسی بھی تیسری قوت کو Space دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتیں۔ ویسے تو وہ تقریباً ہر بات پر دست و گریبان نظر آتے ہیں، تاہم اس معاملے میں ان کا اضطراب اسی اسپرٹ سے برقرار ہے۔ وہ غیر اعلانیہ طور پر یہ بات طے کیے بیٹھے ہیں کہ ہمیشہ میوزیکل چیئر کے دو ہی کردار ہوں گے اور اگر کسی تیسرے نے جسارت کی تو پھر مفادات بھی مشترک ہوں گے تو حکمت عملی بھی ایک ہی ہو گی۔
ہم نے اس کا شاندار مظاہرہ ماضی میں سی او ڈی کی شکل میں پہلے ہی دیکھ رکھا ہے۔ یہ سب کچھ عسکری قوتوں کے اداروں کے سامنے بند باندھنے تک تو بالکل ٹھیک ہے مگر یہی سب کچھ جب وہ کسی سویلین طاقت کو روکنے کے لیے کرتے نظر آتے ہیں تو جمہوریت پسندی کے نعروں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے علاوہ کسی اور کو پنپتے نہیں دیکھ پاتیں اور اکٹھی ہوکر وار کرتی ہیں۔ بہرحال آیندہ انتخابات کے نتیجے میں جو تصویر Emerge ہوتے نظر آتی ہے اس میں یا تو پیپلز پارٹی اور اس کے ناراض اتحادی ایک بار ہاتھ ملاتے اور ہنستے مسکراتے خوش و خرم نظر آتے ہیں یا پھر (ن) لیگ کے نام کی گڈی چڑھتی نظر آتی ہے۔ باقی تیسرا کوئی بھی فریق اتحاد میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے اٹھا سکتا ہے یا پھر پانچ سال تک حزب اختلاف کے دشت کا مسافر بن سکتا ہے۔
ادھر سندھ میں پیپلزپارٹی کے سب سے پیارے اتحادی نے ان پر دہشت گردوں کی سر پرستی کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے اس فیصلے پر بے انتہا تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ وہ مدت پوری ہونے سے صرف چار ہفتے قبل علیحدہ ہوئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ متحدہ کی علیحدگی کا براہ راست تعلق انتخابات سے قبل نگران حکومتوں کے قیام سے ہے اور یہ فیصلہ حقیقت میں مشترکہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے، گزشتہ دو تین ماہ کی سیاسی سرگرمیاں اس بات کا عندیہ پہلے ہی سے دے رہی تھیں کہ آخرکار ایسا اور اسی طرح ہو گا۔ اسپیکر سندھ اسمبلی کی جانب سے دو ماہ تک اپوزیشن لیڈر کے معاملے کو لٹکائے رکھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ سیٹ پہلے سے ہی اتحادیوں کے لیے مخصوص کی گئی تھی۔ یہ بات اب کھلا راز بن چکی ہے کہ دونوں اتحادی مکمل ہم آہنگی سے آگے کی طرف گامزن ہیں، جو آنے والے دنوں میں مل کر اپنی مرضی کی نگراں حکومت تشکیل دیں گے جو کہ ان کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہو۔
مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے تقریباً دو ماہ قبل نصرت سحر عباسی کی بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کی درخواست اسپیکر کے آفس میں پہنچ گئی تھی مگر اسپیکر نثار کھوڑو نے اس پر فیصلہ موخر رکھا، جس کے باعث جام مدد علی نے سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹ کھٹایا، جہاں سے اس مہینے کی 8 تاریخ کو اپوزیشن لیڈر مقرر کرنے کے حوالے سے حکم صادر کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ کی جانب سے دس دن کی مہلت 18 فروری کو مکمل ہونی تھی، جس کے بعد غالباً نصرت سحر عباسی خود بخود اپوزیشن لیڈر مقرر ہو جاتیں، جو بات موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کے لیے قابل قبول نہ تھی، اس لیے ضروری تھا 18 فروری سے پہلے پہلے حکومت اپنے اتحادی کو خود سے الگ کرے یا اتحادی خود بخود الگ ہو جائے اور پیر تک اپوزیشن کی خالی پڑی سیٹ پر براجمان ہو جائے، اسی وجہ سے گزشتہ دنوں متحدہ نے ان کیمرا سیشن کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ سندھ حکومت نے لیاری سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے سنگین کیس واپس لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اب تک قاتلوں کی سر پرست بنی ہوئی ہے اور یہ بات متحدہ کے مفادات کے خلاف ہے اور جس کے باعث متحدہ علیحدگی کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ساری صورت حال کسی طے شدہ اسکرپٹ کے تحت معلوم ہو رہی ہے۔
مگر اس کے باعث دونوں جماعتوں کو دوہرا فائدہ ہو سکا ہے۔ پیپلز پارٹی لیاری کے علاقے میں انتخابی مہم کے دوران یہ کہتے ہوئے پائی جائے گی کہ ہم نے اپنے اتحادیوں کو تو ناراض کر دیا، لیکن لیاری والوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اور اپنے آخر اپنے ہوتے ہیں اور لیاری پیپلز پارٹی کا کل بھی گڑھ تھا، آج بھی اور کل بھی رہے گا، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح متحدہ بھی سیاسی شعبدہ بازی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ووٹرز سے وفاداری کے نئے وعدے کرے گی، ساتھ ساتھ یہ فیصلہ دونوں جماعتوں کو مرضی کی نگران حکومت کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو گا۔ متحدہ کا علیحدگی کا فیصلہ انھیں سندھ اسمبلی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کا ٹائٹل بھی دلوائے گا تو نگران حکومت پر گفت و شنید کرنے کا آئینی اختیار بھی۔ مجموعی طور پر دونوں جماعتیںno win situation میں ہیں، مگر اس موقعے پر بہت سارے اہم سوالات کے ساتھ ساتھ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا متحدہ آیندہ انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی اتحادی ہو گی یا حزب اختلاف کا حصہ بنے گی؟ میرے خیال میں ایسا ہونے کی کوئی امید نہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر میں فرد یا جماعتوں کے لیے دلیل کو استعمال کرنا یا اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے کا ہنر انتہائی اعلیٰ درجے پر ہے۔ ساتھ ساتھ اخلاقیات کی اہمیت صرف ایک ادنیٰ ٹشو پیپر جیسے لفظ کی سی ہے، اس لیے کسی بھی وقت کچھ بھی ہونے کے پرانے تجربے کی بنیاد پر یہ بات با آسانی کہی جا سکتی ہے کہ کس تل میں سے کیسے اور کتنا تیل نکلے گا۔