پوپ کا استعفیٰ
جان پال دوئم کو بھی 80 برس کی عمر تک پہنچنے پر طویل عمری اور صحت کے مسائل کا سامنا تھا۔
عام طور پر پوپ مستعفی نہیں ہوتے۔ معلوم تاریخ میں سب سے پہلے مستعفی ہونے والے پوپ سینٹ پونٹیان تھے۔ آپ کو 230 عیسوی میں پوپ بنایا گیا تھا۔235 میں آپ بادشاہ میکسی مینیکس تھریکس کے جبر کی وجہ سے سارڈینینا کی جانب جلا وطن ہوئے۔ یہاں انھیں نمک کی کانوں میں مزدوری کرنا پڑی۔ آپ نے اپنے عہدے سے بطور پوپ دست بردار ہو کر استعفیٰ دے دیا۔ رومن کیتھولک چرچ میں پوپ اپنے چنائو کے بعد تا حیات پوپ رہتا ہے۔ کرسچین انسا ئیکلوپیڈیا کے مطابق اب تک 5 پوپ مستعفی ہوئے ہیں۔ 4 متنازع استعفے تیسری سے گیارہویں صدی عیسوی کے درمیان اور ایک استعفیٰ پندرھویں صدی عیسوی تک۔ کسی بھی پوپ کا استعفیٰ ایک غیر معمولی بات ہوتی ہے۔
رومن کیتھولک تاریخ کا ایسا ہی غیر معمولی باب اُس وقت رقم ہوا جب موجودہ پوپ بینیڈکٹ شینزدہم نے اِس ماہ کی گیارہ تاریخ کو اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ کلیسائی قانون کے مطابق پوپ استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ چونکہ وہ خود ہی مقتدر ہیں لہٰذا اُنہیں استعفیٰ نہ تو کسی کو پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی کسی کی منظوری کی احتیاج۔ وہ بس اپنا فیصلہ سُناتے ہیں۔ کلیسائی قانون کے تحت ایک پادری سے جب کہ وہ ڈایو سیسن ہو 75 برس کی عمر کو پہنچنے پر ڈایو سیس چھوڑنے کا کہا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح وہ کارڈینیل جو 80 برس کی عمر کو پہنچ جائیں جلسہ انتخاب پوپ (کان کلیو) میں شریک نہیں ہو سکتے۔ پوپ البتہ عمر کی ہر پابندی سے ماورا قرار پاتے ہیں۔ اِس طرح کی کوئی قید نہیں کہ وہ کسی خاص عمر کو پہنچ کر استعفیٰ دیں یا کوئی اُن سے استعفیٰ طلب ہی کر سکے۔ ڈایو سیسانز، بشپس اور کارڈینیلز کے مندرجہ بالا قواعد کے اطلاق سے اب تک صرف تین پوپ ایسے ہوئے ہیں جو اپنے دورِ پاپائی میں 80 برس کی عمر کو پہنچے ہوں۔ پال ششم، جان پال دوئم اور بینیڈکٹ شینزدہم۔
جان پال دوئم کو بھی 80 برس کی عمر تک پہنچنے پر طویل عمری اور صحت کے مسائل کا سامنا تھا۔ یہ 2000ء کی بات ہے۔ لیکن ویٹیکن نے استعفے کے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ پوپ بینیڈکٹ نے البتہ اِس عمر کو پہنچنے پر استعفے کا اعلان کر دیا۔ یہ استعفی 28 فروری کی رات 8 بجے سے نافذ العمل ہو گا۔ اب سے قریباً چھ سو برس قبل 1415ء میں پوپ گریگوری دیوانز دہم نے استعفیٰ دیا تھا۔ گزشتہ چھ سو برس میں کسی پوپ کے استعفے کا یہ پہلا معاملہ ہے۔ پوپ سیلسٹائن پنجم (1294) کے استعفے کے بعد سے اب تک کسی بھی پوپ کے بغیر کسی خارجی دبائو کے استعفے کا یہ پہلا موقع ہو گا۔ آیندہ پوپ کے چنائو کے لیے جلسہ انتخاب پوپ (کان کلیو) 15سے20 مارچ تک شروع ہونے کا امکان ہے۔
پوپ بینیڈکٹ شینزدہم کا نام جوزف ایلویسیس ریٹزنگر ہے۔ آپ 16 اپریل 1927ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق بواریا سے ہے۔ آپ کے پاس جرمنی اور ویٹیکن کی شہریت ہے۔ آپ دو سو پینسٹھویں پوپ ہیں۔ پوپ نہ صرف یہ کہ ریاست ویٹیکن سٹی کا مقتدرِ اعلیٰ ہوتا ہے، بلکہ کیتھولک چرچ کا راہ نما اور رکھوالا بھی۔ آپ کا چنائو 19 اپریل2005ء کے جلسہ انتخاب پوپ (پاپل کان کلیو) میں ہوا تھا۔ جیسا کہ روایت بھی رہی ہے۔ آپ تاریخ کے سب سے عمر رسیدہ پوپ ہیں جس کا انتخاب کیا گیا ہو۔ آپ کی عمر انتخاب کے وقت 78 برس تھی۔ گیارہویں صدی سے اب تک آپ پہلے جرمن ہیں جو کہ پوپ کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوا ہو۔
اپنے استعفے کے بعد آپ تاریخ کے مختصر ترین مدت کے پوپ بھی ثابت ہوئے ہیں یعنی محض سات برس دس ماہ اور تین یوم۔ 1951ء تک آپ مسیحی پیشوا تھے۔ پچاس کی دہائی کے اواخر میں آپ نے خود کو یونی ورسٹیز کے ماہرِ دینیات کے طور پر منوایا۔ 1958ء میں آپ کا تقرر بطور پروفیسر ہوا۔ آپ نے بطور پروفیسر جرمنی کی متعدد یونی ورسٹیز میں ایک عرصے تک تعلیم دی۔ آپ بہترین ساکھ کے حامل پروفیسر تھے۔ آپ کی آخری تقرری یونی ورسٹی ریگسن برگ میں بطور نائب صدر (1976-77ء) رہی۔1977ء میں پوپ پال ششم نے آپ کو میونخ کا آرچ بشپ، فرائزگ اور کارڈینیل مقرر کیا۔ بطور پاسٹر کم تجربہ کار ہونے کی بنا پر یہ ایک غیر معمولی تقرر تھا۔1981ء میں آپ روم میں اہم ترین منصب یعنی پریفیکٹ آف کانگری گیشن فار دی ڈاکٹرائن آف فیتھ پر فائز ہوئے۔2002ء سے لے کر بطور پوپ چنائو تک آپ کارڈینیل کالج کے ڈین بھی رہے۔ آپ کی رائے کی ویٹیکن میں بہت اہمیت تھی۔ آپ نہ صرف یہ کہ ایک با اثر شخصیت تھے بلکہ آپ کو پوپ جان پال دوئم کا اعتماد بھی حاصل تھا۔
آپ متقدمین کی طرح قدامت پسند ہیں۔ آپ نے اپنی تحریروں میں روایتی کیتھولک تعلیمات اور اقدار کا دفاع کیا۔ آپ مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے لادینی رجحانات کے قطعی حامی نہیں۔ آپ قدیم عیسائی روایات کے امین ہیں۔ آپ نے کئی قدیم روایات مثلاً ٹرائی ڈینٹائن ماس کا احیاء کیا۔
پوپ بینیڈکٹ شینزدہم کے استعفے کا اعلان ایک غیر متوقع اور چونکا دینے والی خبر تھی۔ اِس خبر کی تصدیق کے ساتھ ہی افواہوں کا ایک طومار بھی اُمنڈ آیا۔ کچھ تو مبنی بر صداقت بھی تھیں مثلاً کچھ عرصہ قبل آپ کے دل کی جراحت کا ہونا۔ پیس میکر کی تبدیلی کے لیے ۔ لیکن ظاہر ہے یہ ایک معمول کی سی بات ہے۔ بہت سی افواہوں میں آپ کے استعفے کو کیتھولک چرچ سے وابستہ اسکینڈلز کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ یقیناً یہ ایک پریشان کُن صورت حال ہے۔ اس پر پوپ کو معذرت بھی پیش کرنی پڑی تھی۔ لیکن یہ استعفے کی وجہ نہیں۔
بعض افواہیں تو ڈان برائون کے کسی ناول ہی کا پلاٹ معلوم ہوتی ہیں۔ جس میں ویٹیکن کے آئی او آر (ایک طرح کا بینک) کے مالی معاملات اور ویٹیکن سے متعلق بعض دستا ویزات کے افشاء کا ذکر ہے۔ تو کچھ افواہوں میں ویٹیکن کے بند دروازوں کے پیچھے غلام گردشوں میں جنم لینے والی اقتدار اور مسند کی جنگ کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ ان قیاسات میں سی این این اور ٹیلی گراف بھی پیچھے نہیں رہے۔ اپنے استعفے سے محض ایک دن قبل محترم پوپ نے ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا۔ ''ہمیں یقیناً خداوند کی عظیم رحمتوں پر بھروسا کرنا چاہیے۔ ہم سب گناہ گار ہیں، لیکن اُس کا عفو ہمیں بدل دیتا ہے اور پاک کر دیتا ہے''۔ ہمیں افواہوں کے بجائے پوپ کی بات پر یقین رکھنا چاہیے۔
آج پوپ بینیڈکٹ کو جن افواہوں اور تنقید کا سامنا ہے اُس کا بڑا سبب خود اُن کی اور کیتھولک چرچ کی قدامت پسندی اور روایت پرستی ہے۔ آج ہر طرف جدیدیت، جمہوریت، آزادی اور سائنس کا بول بالا ہے۔ عیسائیت کا المیہ یہ ہے کہ اُس نے صدیوں پہلے اُس وقت کی علمیت کو بے سبب مذہب میں داخل کر لیا تھا۔ ارسطو کے نظریہ کائنات کو کلیسا کے اسقف نے جوں کا توں قبول کر لیا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی عقائد کے نظام میں یونانی فلسفے، منطق اور سائنس کے آمیختے سے تیار شدہ نظریات شامل ہوتے چلے گئے۔
یہاں تک کہ مذہب قرار پا گئے۔ کلیسا فلسفے، منطق اور سائنس کے سائے میں مذہبی تعلیمات اور عیسوی اعتقادات کی عقلی اور سائنسی توجیہات پیش کرتا رہا۔ اکثر پادری سائنسی، عقلی اور حسی امور میں بغیر علم اور تجربے کے منہمک رہتے تھے۔ وہ انجیل اور سائنس کے ملغوبے سے عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے۔ مثلاً آرچ بشپ ''اشر'' نے انجیل کے مطالعے سے نتیجہ اخذ کیا کہ دنیا کا آغاز اتوار 23 اکتوبر 4004 قبل مسیح میں ٹھیک نو بجے دن کو ہوا۔ علمیت کا یہ سلسلہ اٹھارہ سو سال تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ جدید سائنس اور علمیت کا ظہور ہوا۔
کلیسا نے اس کی شدید مخالفت کی لیکن اُسے ہر ہر قدم پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اس نے بھی سائنس کو بادلِ ناخواستہ قبول کر لیا۔ کلیسا کی غلطی یہ تھی اور ہے کہ اُس نے مذہبی منہاجِ علم کو فلسفیانہ، منطقیانہ اور سائنسی منہاجِ علم سے علیحدہ نہیں رکھا۔ ہمارے ننانوے فی صد جدیدیت پسند مسلم مفکرین بھی آج اِسی کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دین کو سائنسی ثابت کر دیا جائے۔ کھینچ کھانچ کر قرآن سے سائنسی علوم برآمد کیے جاتے ہیں۔ یورپ امریکا کی یونی ورسٹیز پر تو بس نہیں چلتا کہ وہاں جا کر سائنس کو اسلامی ثابت کریں یہاں البتہ اعلان پر اعلان ہوتے رہتے ہیں کہ اسلام سائنسی مذہب ہے۔ (خواہ سائنس اس دعوے کو کبھی تسلیم نہ کرے)۔
پوپ بینیڈکٹ ہوں، کلیسا یا امتِ مسلمہ اگر وہ مذہبی خدمت کے دائرے میں واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اُنھیں سائنسی منہاج سے استعفیٰ دینا ہو گا۔
رومن کیتھولک تاریخ کا ایسا ہی غیر معمولی باب اُس وقت رقم ہوا جب موجودہ پوپ بینیڈکٹ شینزدہم نے اِس ماہ کی گیارہ تاریخ کو اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ کلیسائی قانون کے مطابق پوپ استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ چونکہ وہ خود ہی مقتدر ہیں لہٰذا اُنہیں استعفیٰ نہ تو کسی کو پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی کسی کی منظوری کی احتیاج۔ وہ بس اپنا فیصلہ سُناتے ہیں۔ کلیسائی قانون کے تحت ایک پادری سے جب کہ وہ ڈایو سیسن ہو 75 برس کی عمر کو پہنچنے پر ڈایو سیس چھوڑنے کا کہا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح وہ کارڈینیل جو 80 برس کی عمر کو پہنچ جائیں جلسہ انتخاب پوپ (کان کلیو) میں شریک نہیں ہو سکتے۔ پوپ البتہ عمر کی ہر پابندی سے ماورا قرار پاتے ہیں۔ اِس طرح کی کوئی قید نہیں کہ وہ کسی خاص عمر کو پہنچ کر استعفیٰ دیں یا کوئی اُن سے استعفیٰ طلب ہی کر سکے۔ ڈایو سیسانز، بشپس اور کارڈینیلز کے مندرجہ بالا قواعد کے اطلاق سے اب تک صرف تین پوپ ایسے ہوئے ہیں جو اپنے دورِ پاپائی میں 80 برس کی عمر کو پہنچے ہوں۔ پال ششم، جان پال دوئم اور بینیڈکٹ شینزدہم۔
جان پال دوئم کو بھی 80 برس کی عمر تک پہنچنے پر طویل عمری اور صحت کے مسائل کا سامنا تھا۔ یہ 2000ء کی بات ہے۔ لیکن ویٹیکن نے استعفے کے کسی بھی امکان کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ پوپ بینیڈکٹ نے البتہ اِس عمر کو پہنچنے پر استعفے کا اعلان کر دیا۔ یہ استعفی 28 فروری کی رات 8 بجے سے نافذ العمل ہو گا۔ اب سے قریباً چھ سو برس قبل 1415ء میں پوپ گریگوری دیوانز دہم نے استعفیٰ دیا تھا۔ گزشتہ چھ سو برس میں کسی پوپ کے استعفے کا یہ پہلا معاملہ ہے۔ پوپ سیلسٹائن پنجم (1294) کے استعفے کے بعد سے اب تک کسی بھی پوپ کے بغیر کسی خارجی دبائو کے استعفے کا یہ پہلا موقع ہو گا۔ آیندہ پوپ کے چنائو کے لیے جلسہ انتخاب پوپ (کان کلیو) 15سے20 مارچ تک شروع ہونے کا امکان ہے۔
پوپ بینیڈکٹ شینزدہم کا نام جوزف ایلویسیس ریٹزنگر ہے۔ آپ 16 اپریل 1927ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق بواریا سے ہے۔ آپ کے پاس جرمنی اور ویٹیکن کی شہریت ہے۔ آپ دو سو پینسٹھویں پوپ ہیں۔ پوپ نہ صرف یہ کہ ریاست ویٹیکن سٹی کا مقتدرِ اعلیٰ ہوتا ہے، بلکہ کیتھولک چرچ کا راہ نما اور رکھوالا بھی۔ آپ کا چنائو 19 اپریل2005ء کے جلسہ انتخاب پوپ (پاپل کان کلیو) میں ہوا تھا۔ جیسا کہ روایت بھی رہی ہے۔ آپ تاریخ کے سب سے عمر رسیدہ پوپ ہیں جس کا انتخاب کیا گیا ہو۔ آپ کی عمر انتخاب کے وقت 78 برس تھی۔ گیارہویں صدی سے اب تک آپ پہلے جرمن ہیں جو کہ پوپ کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوا ہو۔
اپنے استعفے کے بعد آپ تاریخ کے مختصر ترین مدت کے پوپ بھی ثابت ہوئے ہیں یعنی محض سات برس دس ماہ اور تین یوم۔ 1951ء تک آپ مسیحی پیشوا تھے۔ پچاس کی دہائی کے اواخر میں آپ نے خود کو یونی ورسٹیز کے ماہرِ دینیات کے طور پر منوایا۔ 1958ء میں آپ کا تقرر بطور پروفیسر ہوا۔ آپ نے بطور پروفیسر جرمنی کی متعدد یونی ورسٹیز میں ایک عرصے تک تعلیم دی۔ آپ بہترین ساکھ کے حامل پروفیسر تھے۔ آپ کی آخری تقرری یونی ورسٹی ریگسن برگ میں بطور نائب صدر (1976-77ء) رہی۔1977ء میں پوپ پال ششم نے آپ کو میونخ کا آرچ بشپ، فرائزگ اور کارڈینیل مقرر کیا۔ بطور پاسٹر کم تجربہ کار ہونے کی بنا پر یہ ایک غیر معمولی تقرر تھا۔1981ء میں آپ روم میں اہم ترین منصب یعنی پریفیکٹ آف کانگری گیشن فار دی ڈاکٹرائن آف فیتھ پر فائز ہوئے۔2002ء سے لے کر بطور پوپ چنائو تک آپ کارڈینیل کالج کے ڈین بھی رہے۔ آپ کی رائے کی ویٹیکن میں بہت اہمیت تھی۔ آپ نہ صرف یہ کہ ایک با اثر شخصیت تھے بلکہ آپ کو پوپ جان پال دوئم کا اعتماد بھی حاصل تھا۔
آپ متقدمین کی طرح قدامت پسند ہیں۔ آپ نے اپنی تحریروں میں روایتی کیتھولک تعلیمات اور اقدار کا دفاع کیا۔ آپ مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے لادینی رجحانات کے قطعی حامی نہیں۔ آپ قدیم عیسائی روایات کے امین ہیں۔ آپ نے کئی قدیم روایات مثلاً ٹرائی ڈینٹائن ماس کا احیاء کیا۔
پوپ بینیڈکٹ شینزدہم کے استعفے کا اعلان ایک غیر متوقع اور چونکا دینے والی خبر تھی۔ اِس خبر کی تصدیق کے ساتھ ہی افواہوں کا ایک طومار بھی اُمنڈ آیا۔ کچھ تو مبنی بر صداقت بھی تھیں مثلاً کچھ عرصہ قبل آپ کے دل کی جراحت کا ہونا۔ پیس میکر کی تبدیلی کے لیے ۔ لیکن ظاہر ہے یہ ایک معمول کی سی بات ہے۔ بہت سی افواہوں میں آپ کے استعفے کو کیتھولک چرچ سے وابستہ اسکینڈلز کے ساتھ نتھی کیا گیا۔ یقیناً یہ ایک پریشان کُن صورت حال ہے۔ اس پر پوپ کو معذرت بھی پیش کرنی پڑی تھی۔ لیکن یہ استعفے کی وجہ نہیں۔
بعض افواہیں تو ڈان برائون کے کسی ناول ہی کا پلاٹ معلوم ہوتی ہیں۔ جس میں ویٹیکن کے آئی او آر (ایک طرح کا بینک) کے مالی معاملات اور ویٹیکن سے متعلق بعض دستا ویزات کے افشاء کا ذکر ہے۔ تو کچھ افواہوں میں ویٹیکن کے بند دروازوں کے پیچھے غلام گردشوں میں جنم لینے والی اقتدار اور مسند کی جنگ کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ ان قیاسات میں سی این این اور ٹیلی گراف بھی پیچھے نہیں رہے۔ اپنے استعفے سے محض ایک دن قبل محترم پوپ نے ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا۔ ''ہمیں یقیناً خداوند کی عظیم رحمتوں پر بھروسا کرنا چاہیے۔ ہم سب گناہ گار ہیں، لیکن اُس کا عفو ہمیں بدل دیتا ہے اور پاک کر دیتا ہے''۔ ہمیں افواہوں کے بجائے پوپ کی بات پر یقین رکھنا چاہیے۔
آج پوپ بینیڈکٹ کو جن افواہوں اور تنقید کا سامنا ہے اُس کا بڑا سبب خود اُن کی اور کیتھولک چرچ کی قدامت پسندی اور روایت پرستی ہے۔ آج ہر طرف جدیدیت، جمہوریت، آزادی اور سائنس کا بول بالا ہے۔ عیسائیت کا المیہ یہ ہے کہ اُس نے صدیوں پہلے اُس وقت کی علمیت کو بے سبب مذہب میں داخل کر لیا تھا۔ ارسطو کے نظریہ کائنات کو کلیسا کے اسقف نے جوں کا توں قبول کر لیا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی عقائد کے نظام میں یونانی فلسفے، منطق اور سائنس کے آمیختے سے تیار شدہ نظریات شامل ہوتے چلے گئے۔
یہاں تک کہ مذہب قرار پا گئے۔ کلیسا فلسفے، منطق اور سائنس کے سائے میں مذہبی تعلیمات اور عیسوی اعتقادات کی عقلی اور سائنسی توجیہات پیش کرتا رہا۔ اکثر پادری سائنسی، عقلی اور حسی امور میں بغیر علم اور تجربے کے منہمک رہتے تھے۔ وہ انجیل اور سائنس کے ملغوبے سے عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے۔ مثلاً آرچ بشپ ''اشر'' نے انجیل کے مطالعے سے نتیجہ اخذ کیا کہ دنیا کا آغاز اتوار 23 اکتوبر 4004 قبل مسیح میں ٹھیک نو بجے دن کو ہوا۔ علمیت کا یہ سلسلہ اٹھارہ سو سال تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ جدید سائنس اور علمیت کا ظہور ہوا۔
کلیسا نے اس کی شدید مخالفت کی لیکن اُسے ہر ہر قدم پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اس نے بھی سائنس کو بادلِ ناخواستہ قبول کر لیا۔ کلیسا کی غلطی یہ تھی اور ہے کہ اُس نے مذہبی منہاجِ علم کو فلسفیانہ، منطقیانہ اور سائنسی منہاجِ علم سے علیحدہ نہیں رکھا۔ ہمارے ننانوے فی صد جدیدیت پسند مسلم مفکرین بھی آج اِسی کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دین کو سائنسی ثابت کر دیا جائے۔ کھینچ کھانچ کر قرآن سے سائنسی علوم برآمد کیے جاتے ہیں۔ یورپ امریکا کی یونی ورسٹیز پر تو بس نہیں چلتا کہ وہاں جا کر سائنس کو اسلامی ثابت کریں یہاں البتہ اعلان پر اعلان ہوتے رہتے ہیں کہ اسلام سائنسی مذہب ہے۔ (خواہ سائنس اس دعوے کو کبھی تسلیم نہ کرے)۔
پوپ بینیڈکٹ ہوں، کلیسا یا امتِ مسلمہ اگر وہ مذہبی خدمت کے دائرے میں واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اُنھیں سائنسی منہاج سے استعفیٰ دینا ہو گا۔