روہنگیا مسلمان عالمی بے ضمیری کا نیا نشان
بربریت کے ان ہول ناک واقعات کو عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے پوری توجہ دی ہے۔
رنگ و نسل، زبان و مذہب کی تفریق اور عمر کے تفاوت سے قطعِ نظر ایک احساس دنیا کے مختلف برِاعظموں پر آباد لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے، یہ کہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہ سفاکی، بربریت، وحشیانہ پن اور غیرانسانی رویوں سے مغلوب ہوتی جارہی ہے اور اس لیے ناقابلِ برداشت بھی۔
یہ احساس اس لیے غلط نہیں ہے کہ روزمرہ تجربات و مشاہدات حقیقی صورتِ حال کے اسی نقشے کی تصدیق کرتے ہیں۔ یقیناً یہ نہایت ہول ناک اور بہت مایوس کن بات ہے۔ اس لیے کہ دوسرے لفظوں میں یہ انسانی تہذیب و تمدن کے معکوس سفر کا منظرنامہ ہے۔ گویا انسان کو اب واپس جنگلوں اور غاروں کی طرف جانا پڑے گا، لیکن خیال رہے کہ وہ پہلے جس طرح جنگلوں اور غاروں میں ''محفوظ و آسودہ'' رہا ہے، اب اُس طرح نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ سفاکی اور چالاکی بھی اب اُس کے ساتھ جنگل اور غار میں پہنچے گی اور تباہی کا سامان کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اب اُس کی بے حسی بھی مزید غارت گر ثابت ہوگی۔
بے حسی اس جدید، ترقی یافتہ، روشن خیال اور ٹیکنولوجی کی نعمتوں سے مالامال دنیا کا سب سے بڑا مظہر ہے جو انسان اور اُس کے تمدن کے معکوس سفر کی قدم بہ قدم نشان دہی کررہا ہے۔ اِس کے مظاہرے آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ہر بار بے حسی کا پہلے سے بڑا تماشا سامنے آتا ہے اور انسانی اعصاب کو سن کر دیتا ہے، لیکن جلد ہی جلتی بجھتی روشنیوں کے کھیل اور مسلسل شور کرتے ڈھول تاشوں کی گونج میں اُسے فراموش کردیا جاتا ہے اور اس طرح کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ خود غرضی اور سفاکی افراد اور معاشروں میں پہلے بھی رہی ہوگی، لیکن جس سطح پر اب اظہار ہوتا ہے، وہ کچھ اور ہی ہے۔ اس کے ساتھ بے حسی کا بڑھتا ہوا رُجحان تو خاکم بدہن شرفِ انسانی ہی کے درپے نظر آتا ہے۔ یہ بے حسی آج افراد سے زیادہ اجتماعی یعنی، گروہوں، اداروں اور قوموں کی سطح پر دیکھنے میں آرہی ہے۔ اُس کا تازہ اور بدترین حوالہ اِس وقت روہنگیا مسلمانوں کی صورتِ حال ہے۔
اطلاعات اور محدود اندازے کے مطابق روہین ریاست سے جان بچاکر بھاگنے یا ہجرت کرنے والے مسلمان باشندوں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے متجاوز ہے جن میں سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد بنگلادیش میں زندہ داخل ہونے میں کام یاب ہوئے ہیں، کچھ لوگ ابھی دوسرے پڑوسی ممالک کے راستوں یا سرحدوں پر ہیں، لیکن سیکڑوں افراد جن میں مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہیں، بھوک، پیاس، راستے کی صعوبتوں اور منہ زور سمندری موجوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ خود میانمار کی جغرافیائی حدود میں ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔
بربریت کے ان ہول ناک واقعات کو عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے پوری توجہ دی ہے۔ متعدد ممالک میں ان کے خلاف ردِعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ریلیاں نکالی جارہی ہیں، قراردادیں منظور کی جارہی ہیں اور احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان باتوں سے اس حقیقت کا ثبوت تو ضرور ملتا ہے، کہ ہر طرح کی تفریق سے بالا تر ہوکر انسانیت کا دُکھ محسوس کرنے اور اُس کے لیے آواز اٹھانے والے بہت لوگ آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں، بلکہ یہ کہا جانا چاہیے کہ عامۃ الناس کی اکثریت انسان دوست ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان مظاہروں، ریلیوں اور قراردادوں سے بربریت کے ایسے واقعات پہلے بھی کب رک پاتے تھے اور اب تو طاقت ور افراد اور اقوام کی ہٹ دھرمی اور بے غیرتی کی حد ہی گزرچکی ہے۔
سخت حیرت اور اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کچھ برما کے مسلمانوں کے ساتھ اُس وقت ہورہا ہے جب وہاں آنگ ساں سوچی کی حکومت ہے، جمہوری قدروں کی پالن ہار محترمہ سوچی اپنی طویل نظر بندی یا اسیری کے دنوں میں مسلسل سیاسی اقدار، جمہوری روایات، سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی دہائی دیتی رہی ہیں۔ وہ بار بار انسانی غیرت کی بیداری کو موضوعِ گفتگو بناتی رہی ہیں۔
بنیادی حقوق کی بات کرتی رہی ہیں۔ یہ وہی محترمہ ہیں جن کی لگ بھگ پندرہ سال نظر بندی نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دلائی، جن کے جمہوری اداروں پر ایمان، انسانیت پر یقین، عدم تشدد کے فلسفے اور باہمی افہام و تفہیم سے جینے کے نظریے نے انھیں عالمی سطح پر اس حد تک پسندیدہ سیاسی راہ نما بنا دیا کہ ان کے لیے دوسرے ممالک کے اہلِ قلم، اہلِ دانش اور اہلِ سیاست نے تہنیت کے کلمات کہے۔ ان کے لیے بین الاقوامی سطح پر رہائی کی آواز اٹھائی گئی۔ نظمیں کہی گئیں اور کالم لکھے گئے۔ بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے اُن کے لیے پروگرام کیے۔ ان کے پرامن، بھائی چارے اور جمہوری نظریات کا پرچار کیا۔
ناروے کی سویڈش اکیڈمی نے جب انھیں امن کا نوبیل انعام دیا تو اُن کے ملک میں ڈکٹیٹر شپ چل رہی تھی۔ سوچی نظر بند تھیں۔ انھیں انعام وصول کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کے دو بیٹے یہ انعام لینے کے لیے ناروے پہنچے تو انھوں نے اپنی تقریر میں اپنی والدہ کی طرف سے جو پیغام پہنچایا، وہ امن، محبت، بھائی چارے، انسانیت اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے تھا۔ اس میں دوستی، انصاف اور بقائے باہمی پر اصرار کیا گیا تھا اور دہائی دی گئی تھی کہ ڈکٹیٹرز نے رنگون اور برما میں انسانی خون سے ہولی کھیلی ہے۔ افسوس کیا گیا تھا کہ ان کے ملک میں انسانی قدروں کی پامالی شرم ناک حد کو پہنچی ہے۔ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا تھا اور انسانیت کے نام پر پکارا گیا تھا۔
یہ ہیں آنگ ساں سوچی جو اس وقت میانمار کی بے تاج ملکہ ہیں، اور جن کے اشارۂ ابرو سے وہاں ہواؤں کا رُخ بدلتا ہے اور امن، انصاف، بھائی چارے، جمہوریت اور انسانیت کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ یہ انھی کا عہدِزرّیں ہے کہ جس میں آج روہنگیا مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی اور آسمان تاریک۔ یہ امن کے نوبیل انعام کی قدر افزائی کا مظاہرہ ہی تو ہے کہ آج میانمار کی ریاست میں ماں باپ کے سامنے اولاد کو برہنہ کرکے بدترین تشدد اور ذلت کا سامان کیا جاتا ہے۔ زندہ لوگوں کے انسانی اعضا کاٹے جاتے ہیں۔ بچوں کے منہ میں جلتے ہوئے انگارے ٹھونسے جاتے ہیں، عورتوں کے جسموں کی رُسوا کن بے حرمتی کی جاتی ہے۔ زندہ افراد کو آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔
جان بچا کر بھاگنے والوں کا سمندر میں اس وقت تک پیچھا کیا جاتا ہے جب تک انھیں ہلاک خیز موجیں نگل نہیں لیتیں۔ امن، انصاف اور انسانیت کی پالن ہار محترمہ آنگ ساں سوچی ان سب واقعات کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور اس خلفشار کو اپنی ریاست کا داخلی مسئلہ بتاتی ہیں۔ وہ شکایت کرتی ہیں کہ عالمی میڈیا اُن کے ملک کے گروہی اختلاف کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے اور خواہ مخواہ اسے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی قرار دے رہا ہے۔ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہتی ہیں کہ یہ سب تو کچھ بھی نہیں، محض گروہی جھگڑا ہے۔
وہ نہتے انسانوں پر ریاستی جبر و تشدد کو امنِ عامہ کے حصول کی کارروائی قرار دیتی ہیں، وہ فوج کی مسلح بربریت کو ریاستی نظام کی عمل داری بتاتی ہیں۔ ان کے اشارۂ ابرو پر ریاستی ادارے اور حکومتی افراد اس سارے اندوہ ناک منظرنامے کی بنیاد کی عجیب مضحکہ خیز تعبیر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب اُن حملوں کا ردِعمل ہے جو مسلمان شرپسندوں نے رہین ریاست کی پولیس اور فوجی چوکیوں پر کیے تھے۔ بی بی سی اور وائس آف امریکا پر یہ رپورٹس اور بیانات چلائے جاتے ہیں۔ انھیں بار بار دُہرایا جاتا ہے۔
ان خبروں، بیانات اور رپورٹس کو سننے والوں کو بوسنیا کے مسلمانوں کے اذیت و آلام کے دن یاد آجاتے ہیں جب مسلمانوں کی بڑی آبادی کو ایسے ہی خاک و خون میں نہلا دیا گیا تھا، لیکن سی این این اور وائس آف امریکا کرد، کرد، کرد کی تکرار کرتے ہوئے عالمی رائے کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر کردوں کے ضمنی مسئلے پر مبذول کرانے کی ناکام اور جاہلانہ کوشش کررہے تھے۔ رُبع صدی سے زیادہ عرصے پہلے کا وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ اس وقت بہت کچھ ممکن نہیں تھا، مگر آج ہے۔
آنگ ساں سوچی یہ بات کیسے بھول رہی ہیں کہ آج سیٹیلائٹ کیمرے اُن کے ملک اور اُس کی رہین ریاست میں ہونے والے واقعات کو بھی ریکارڈ کررہے ہیں جن کو اپنے ملک کے ذرائع ابلاغ کو ریکارڈ اور نشر کرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ آج وہ خبر رساں اور تحقیقاتی اداروں کے افراد کو ویزا دینے سے انکار کرکے یہ سمجھ رہی ہیں کہ سب انتظام ہوگیا، اب کوئی قصہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔ یہ بھلا اب کہاں ممکن ہے۔
اب تو سو ذرائع ہیں کہ جو ایسی خبریں بھی مع دستاویزی ثبوت کے نکال لیتے ہیں جنھیں سات پردوں میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ مناظر بھی محفوظ کرلیے جاتے ہیں جنھیں دیکھنے والی آنکھوں کو ابدی نیند سلا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب رُوئے زمیں پر ان کی کوئی گواہی باقی نہیں رہی۔
چناںچہ پھر وائس آف امریکا، سی این این، بی بی سی، الجزیرہ، سیلون اور گارجین غرض سبھی وہ ساری باتیں بتانے اور وہ سارے منظر دکھانے لگتے ہیں جنھیں چھپایا گیا تھا، بے شرمی سے جن کی نفی کی گئی تھی۔ اس کے بعد وہی عالمی رائے عامہ جس نے ان کی اسیری کے دور میں آنگ ساں سوچی کے حق میں آواز اٹھائی تھی، نعرے لگائے تھے، اُن کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا اور اُن کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا تھا، اُن کے خلاف بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی خبریں، تصاویر اور وڈیو کلپس آخر ساری دنیا کے سامنے آنگ سان سوچی اور اُن کے حکومتی کارندوں کے جھوٹ، مکار، دھوکا دہی اور منافقت کا پردہ چاک کرکے رکھ دیتی ہیں۔
دنیا بھر میں سادہ دل اور باضمیر لوگ لرز کر رہ جاتے ہیں۔ آنگ ساں سوچی کے خلاف گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر یہاں تک پہنچتا ہے کہ انھیں دیے گئے انسان دوستی، جمہوریت پسندی اور نوبیل امن کے انعامات کی واپسی کے مطالبات سامنے آنے لگتے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کی تنقید اپنی جگہ، لیکن جو کچھ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر پھیلا ہے، اگر انسان میں غیرت ہو، اس کا ضمیر زندہ ہو تو اس کے بعد اقتدار میں رہنا تو دور کی بات ہے، زندہ رہنا تک گالی بن جاتا ہے۔
یہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے سانحات پر عوامی یا عام انسانی ردِعمل کی صورتِ حال کا ایک رُخ ہے۔ دوسری طرف اب ذرا عالمی قوتوں کی بے حسی اور ضمیری کا نقشہ بھی لگے ہاتھوں دیکھ لیجیے۔ جبر واستبداد کے اس لرزا دینے والے کھیل پر ساری عالمی قوتیں محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت دیکھیے تو اقوامِ متحدہ کے سارے طاقت ور راہ نما ایسے لاتعلق ہیں جیسے اُنھیں اس بربریت کی مطلق خبر ہی نہیں ہے، یا پھر منافقت کی حد کو پہنچی ہوئی کسی مصلحت نے انھیں بھیگے ہوئے چوہوں میں تبدیل کردیا ہے۔
دوسری طرف اس یک قطبی دنیا کی سپرپاور، غریبوں کا ملجا اور بے سہاروں کا ماویٰ، جمہوریت کا چیمپئن اور جنگ و جدل کے ہر منظرنامے کا خدائی فوج دار امریکا بہادر فلسطین، مصر اور شام کے ساتھ اب برما کے مسلمانوں کی اذیت و ابتلا سے بھی بالکل بے خبر ہے۔ شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم کے تجربات پر اپنی گہری تشویش کے اظہار سے وہ غافل نہیں ہے، لیکن برما میں سسکتی ہوئی انسانیت کی آہ و بکا اس تک نہیں پہنچ رہی۔ فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس جیسے جغادری بھی اوّل تو غافل ہیں اور اگر کوئی ان میں سے ہشیار ہے بھی تو محض مذمت کو کافی جانتا ہے۔
امنِ عالم، انسان دوستی، عدل و انصاف، مساوات، بنیادی حقوق اور آزادی کے سب دعوے دار منہ میں یوں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں جیسے حقیقی نہیں، بلکہ کسی فلم کا منظر اُن کے سامنے ہے۔ دوسری طرف حد یہ ہے کہ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی اس بربریت کی داد دینے اور محترمہ آنگ ساں سوچی سے اظہارِ یک جہتی کے لیے میانمار جاپہنچتے ہیں۔ ہندوستان کی حکومت مودی کے دورے کے چاہے جتنے اور جو بھی جواز پیش کرے، لیکن ان سے مودی کے ایشیائی خواب اور عزائم چھپائے نہیں چھپتے۔ اس لیے کہ اس دورے کی ٹائمنگ زبانِ حال سے کچھ اور کہہ رہی ہے۔
چلیے، یہ تو عالمی سام راج، اُس کے ہتھ کنڈوں، حیلوں، امنگوں اور آرزوؤں کا تناظر ہے۔ مسلمان حمیت کو اس سے اور کوئی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے، لیکن دیکھا جانا چاہیے کہ وہ امتِ واحدہ جو ایک خدائے بزرگ و برتر اور نبیِ آخر الزماںؐ کا کلمہ پڑھتی ہے، جسے بلاتفریقِ رنگ و نسل اور زمین و زماں جسدِ واحد کہا گیا ہے، وہ اپنے نہتے، کم زور اور بے گناہ بھائیوں کے اذیت و آلام کی اس بھٹی میں جھونکے جانے پر ضرور تڑپ اٹھی ہو گی۔ انھوں نے تو ظالم و جابر حکم رانوں کو پوری قوت سے للکارا ہوگا۔ بے یار و مددگار معصوم بچوں کی مدد کو لپکے ہوں گے۔ بہنوں بیٹیوں کی عزت کی پامالی نے خون کھولا دیا ہوگا۔
اس قوت و جوش کے ساتھ بڑھے ہوں گے کہ رَن کانپ اٹھا ہوگا۔ اب آن کی آن میں یہ منظر بدلے گا، ظالم سے رعایت نہیں ہوگی۔ مظلوم کو انصاف دلایا جائے گا اور حق کا بول بالا ہوگا۔ نہیں- ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سائیں سائیں کرتا ہوا سکوت ہے۔ دلوں کو پاش پاش کرڈالنے والا گہرا سکوت۔ یاخدا! اس سکوت میں اور یہود و نصاریٰ کی طرف کے سناٹے میں کیا فرق ہے؟ عراق، افغانستان، فلسطین، مصر، اور شام کو چھوڑ دیجیے کہ خود ابتلاؤں میں گھرے ہوئے ہیں، لیکن سعودی عرب، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، عمان، پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا کے حکم رانوں کو آخر کیا ہوا؟
وہ جسے مسلم امہ کہتے ہیں، اس کا درد کیا ہوا؟ وہ جو مسلمان ممالک نے متحدہ فوج بنائی ہے، وہ آخر کس دن کے لیے ہے اور کس کام کے لیے؟ ان حکم رانوں پر پیٹرو ڈالر جن کے ملکوں کی معیشت چلاتے ہیں، جن کے یہاں سونے کی سونے کی سر بمہر کانیں ہیں، جو عالمی منظرنامے پر اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، آخر اُن پر کس مصلحت کے جبر نے خاموشی نافذ کی ہے؟ یہ کوئی اندوہ ناک خواب ہے یا خاکم بدہن واقعی امتِ مسلم کے حکمرانوں کی حمیت پارہ پارہ ہوچکی ہے؟
ہم عالمی منظرنامے پر سایہ فگن خداؤں کو اور اُن کی منافقت کو برا کہنا چاہتے ہیں، حرفِ دشنام سے مخاطب کرنا چاہتے ہیں، لیکن لفظ نہیں سوجھتا۔ نہیں، نہیں- دشنام کے لیے تو سوجھتا ہے، لیکن اپنے اور پرائے کے رویوں میں فرق کو سمجھنے کے لیے کوئی لفظ نہیں سوجھتا۔ جو لفظ سوجھتا ہے گالی بن جاتا ہے اور گالی اپنوں کی طرف لوٹ کر آتی ہے:
الٰہی تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں