قتل گوری لنکیش کا چِتا بھارتی سیکولرازم کی
گزشتہ دو دہائیوں میں تو وہاں ہندو انتہاپسندی کی گھن گرج مزید خوفناک شکل اختیار کرچکی ہے۔
انڈیا میں خوف اور دھمکی کا ماحول صرف مذہبی اقلیتوں تک محدود نہیں رہا بلکہ دانشور اور صحافی بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ جرأت مند اور بے باک صحافی گوری لنکیش کے قتل کے بعد تو انسانی حقوق سے وابستہ خدشات مجسم ہوکر سامنے آگئے۔ تیزی سے فروغ پاتی عدم برداشت کی فضا اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے تشدد کے لرزہ خیز واقعات اب وہاں تقریباً روز کا معمول ہیں۔ ہندوتوا دہشت گردی اب انڈیا میں رچ بس چکی ہے۔ اسی لیے گوری لنکیش کی سچائی کو گندگی سمجھتے ہوئے اس سے نجات حاصل کرلی گئی۔
گوری لنکیش کا جرم کیا تھا؟ یہ کہ وہ ہندو انتہاپسند نظریے سے لڑنے کو تیار تھی، اپنی تحریروں کے ذریعے مذہبی توہمات کے خلاف شعور بیدار کرنا، دلت برادری اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا، بی جے پی کی حکومت پر دباؤ ڈالنا کہ نہ صرف اقلیتوں پر کیے جانے والے حملے بند کیے جائیں بلکہ ان کو بھی بھارتی ثقافت کا حصہ تسلیم کیا جائے۔ یہ اس کا سنگین جرم تھا کہ وہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے واقعات کے خلاف تھی، نفرت کو نفرت کے ذریعے ختم کرنے کے نظریے کی کڑی نقاد تھی، ظلم اور جبر کا شکار دلتوں کو اپنا بیٹا قرار دینے والی گوری کئی محاذوں پر لڑنے والی تنہا سپاہی تھی۔
ظلم کی سیاست کو بدلنے کے لیے پرعزم گوری کا امن اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کا مطالبہ ایسا غلط تو نہ تھا کہ اس کی سزا میں زندگی کی ڈور کاٹ دی جاتی۔ گوری کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف وہ سیکولر بھارت کے مستقبل کے لیے فکرمند رہتی بلکہ ریاست کرناٹک میں بدعنوان صنعت کاروں اور سیاست دانوں کو بے نقاب کرنے کا مصمم ارادہ بھی کرچکی تھی اور جب عزم پہاڑ جیسا مضبوط ہو تو اس کو روکنے کا واحد راستہ صرف موت ہی ہوتا ہے، یہی گوری کے ساتھ ہوا۔ گوری کی غلطی فقط یہ تھی کہ یہ سب کرتے وقت اس نے بھلا دیا تھا کہ بھارت میں مذہبی انتہاپسندی اور ریاست کے غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے پر کسی کو بھی معاف نہیں کیا جاتا، خواہ اس کا تعلق ہندو دھرم سے ہی کیوں نہ ہو۔
بھارتی معاشرے میں صحافیوں اور دانشوروں کا قتل محض ایک حادثہ نہیں بلکہ یہ اختلاف کرنے والے ذہنوں کو خوفزدہ کرنے کی منظم کوشش ہے۔ آبادی کے بڑے حصے کو خاموش کرکے سیاسی اور مذہبی فوائد حاصل کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ گوری لنکیش کے قتل سے یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بھارتی معاشرہ تشدد کی لہروں کی نذر ہوچکا ہے۔ بھارتی ریاست اپنے شہریوں کے لیے اظہارِرائے کی آزادی، انصاف اور مساوات کے دعوے تو بہت کرتی ہے مگر دوسری طرف ظالموں اور قاتلوں کو بھی کھلی چھوٹ دیتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں تو وہاں ہندو انتہاپسندی کی گھن گرج مزید خوفناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ حیرت اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جب انتہاپسندی اپنی انتہا سے گزر جاتی ہے تو بھی وزیراعظم نریندر مودی اس کے خلاف اپنی زبان پر لگا قفل نہیں کھولتے۔ ان کی خاموشی نے بھارتی معاشرے کی بقا کے سامنے کئی سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ یہ خاموشی ہی تو ہے جس نے انتہاپسند ہندو نظریے کو وہ تقویت فراہم کی ہے کہ ناقدین فتنہ قرار دے کر قتل کیے جارہے ہیں۔ انتہاپسند خیالات کے خلاف آواز بلند کرنے والا ہر فرد باغی ہے۔
بھارت میں ایک جیسی سوچ رکھنے والوں کا انجام ایک جیسا ہے۔ جس کی آواز میں زیادہ زور ہوتا ہے اس کو اتنا ہی قریب سے گولیاں ماری جاتی ہیں۔ نڈر اور بے باک صحافی گوری لنکیش کے قتل نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ ابھی تو کمیونسٹ پارٹی کے رکن گووند پانسرے، سدھانا میگزین کے مدیر نریندر دابھولکر اور کینیڈا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مالشپا کالبری کے قتل کے مجرم بھی نہیں پکڑے گئے تھے کہ گوری کے قتل کی نئی فائل بھی کاغذات کے گودام میں داخل ہوگئی۔
نریندر دابھولکر ترقی پسند صحافت کا بڑا نام تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے مذہبی توہمات اور کالے جادو کے خلاف مہم چلائی۔ ساتھ ہی وہ بعض ہندوانہ مذہبی رسومات کے خلاف کھل کر بولتے تھے۔ ان کو اگست 2013 میں قتل کردیا گیا۔ عقلیت پسند طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے گووند پانسرے کا جرم بھی کم و بیش یہی تھا۔ وہ کتاب ''شیوا جی کون تھے؟'' کے مصنف بھی تھے۔ اس کتاب میں انھوں نے ہندو عسکریت پسندی کی علامت سمجھے جانے والے شیواجی کو سیکولر لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ یوں وہ ہندو انتہاپسندوں کی برداشت سے باہر ہوگئے، لہٰذا 2015 میں ان کا انجام بھی اتنا ہی دردناک ہوا۔
کینیڈا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر بھارتی معاشرے کی طبقاتی گروہ بندی کے خلاف تھے۔ ہندوتوا عناصر کے خطرات سے آگاہ کرنے میں آگے آگے رہتے، مذہب کے نام پر انسانی قربانی، کالے جادو اور دیگر غیرانسانی مذہبی رسومات کے سخت خلاف تھے۔ ان کی کوششوں سے ان سب رسومات کے خلاف ایکٹ منظور تو ہوئے لیکن ان کی موت کے بعد، اگست 2015 میں ان کو گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا اور اب گوری لنکیش کا قتل، بھارتی معاشرے کی بیمار ذہنیت کی علامت کے سوا اور کیا ہے۔
بھارت میں عدم برداشت کی گنگا جمنا بہہ رہی ہے، مگر اس کو ہندومت کی تعلیمات کا حصہ قرار دینا سراسر غلط ہے۔ مذہب خواہ کوئی بھی ہو وہ انسان کو درس اخلاقیات کا ہی دیتا ہے، لیکن بھارت میں انتہاپسند ہندو مذہب کو جارحیت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ عدم برداشت کوئی پانچ دس سال کی کہانی نہیں بلکہ بھارت میں اس کی لمبی تاریخ ہے۔ سکھوں کے گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی، بابری مسجد کی شہادت، گرجا گھروں کا جلایا جانا، ایم ایف حسین سے بھارت میں سکونت کا حق چھین لینا، کشمیریوں کی حمایت کے جرم میں ارون دھتی رائے کے گھر پر حملہ اور قتل کی دھمکیاں دینا، سیاہ فاموں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کرنا، گائے کے تحفظ کی آڑ میں مسلمانوں پر ریاستی تشدد اور ان جیسے سیکڑوں واقعات نے بھارتی جمہوریت کا چہرہ مسخ کردیا ہے۔
امریکی تحقیقی ادارے PEW کی رپورٹ کے مطابق بھارت مذہبی عدم برداشت کے حوالے سے دنیا کے 198ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ مذہب سے منسلک تشدد کے واقعات میں شام، نائیجیریا اور عراق کے بعد چوتھا بدترین ملک بھارت ہے۔ نفرت بھرے رویے، تعصب، متحرک تشدد، طاقت کا استعمال، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنا بھارت میں اب کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں رہا۔ اس طرح بھارت کا سیکولر ریاست ہونے کا دعویٰ غلط ثابت ہوگیا ہے۔
2014 میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد صحافیوں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہ وہ لوگ تھے جو ہندوستانی معاشرے کی بگڑتی ہوئی تصویر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کی معقولیت اور استدلال کو دائیں بازو نے رد کردیا۔
بھارت میں مذہب اور نسل پرستی کو اگر الگ نہیں کیا گیا تو اسے ایک نیا کوسوو اور روانڈا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ معاشرے میں ہر سطح پر بڑھتا ہوا عدم برداشت مودی کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ساتھ ہی خاموش اکثریت کے لیے بھی لازمی ہے کہ اب سکوت توڑ کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرے۔ ورنہ یہ خاموشی پیچیدہ صورت حال اختیار کرلے گی، ایسی صورت حال جس میں ہندومت کی حقیقی اقدار اور بھارتی سیکولرازم کو بچانے کی کوشش کرنے والے قربان ہوتے رہیں گے۔
گوری لنکیش کے بعد انڈیا میں ہونے والے چند مظاہروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ امید شاید ابھی زندہ ہے۔ ہوسکتا ہے یہاں صداقت بحال ہوسکے اور امن لوٹ آئے۔ اظہار رائے کی آزادی، سچ کی جرأت اور انفرادی سوچ رکھنے والوں کے نظریات میں ہمیشہ دوام کی صلاحیت رہی ہے۔ لہٰذا تمام تر ریاستی اور مذہبی جبر اور تشدد کے بعد بھی یہ بھارتی معاشرے میں زندہ رہیں گے۔ ان افراد کو قبول نہ کرنا اور ان کو موت کے دروازے کی طرف دھکیل دینا کہیں بھارت کی تقسیم کا ایک بار پھر باعث نہ بن جائے۔
گوری لنکیش کا جرم کیا تھا؟ یہ کہ وہ ہندو انتہاپسند نظریے سے لڑنے کو تیار تھی، اپنی تحریروں کے ذریعے مذہبی توہمات کے خلاف شعور بیدار کرنا، دلت برادری اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا، بی جے پی کی حکومت پر دباؤ ڈالنا کہ نہ صرف اقلیتوں پر کیے جانے والے حملے بند کیے جائیں بلکہ ان کو بھی بھارتی ثقافت کا حصہ تسلیم کیا جائے۔ یہ اس کا سنگین جرم تھا کہ وہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے واقعات کے خلاف تھی، نفرت کو نفرت کے ذریعے ختم کرنے کے نظریے کی کڑی نقاد تھی، ظلم اور جبر کا شکار دلتوں کو اپنا بیٹا قرار دینے والی گوری کئی محاذوں پر لڑنے والی تنہا سپاہی تھی۔
ظلم کی سیاست کو بدلنے کے لیے پرعزم گوری کا امن اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کا مطالبہ ایسا غلط تو نہ تھا کہ اس کی سزا میں زندگی کی ڈور کاٹ دی جاتی۔ گوری کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف وہ سیکولر بھارت کے مستقبل کے لیے فکرمند رہتی بلکہ ریاست کرناٹک میں بدعنوان صنعت کاروں اور سیاست دانوں کو بے نقاب کرنے کا مصمم ارادہ بھی کرچکی تھی اور جب عزم پہاڑ جیسا مضبوط ہو تو اس کو روکنے کا واحد راستہ صرف موت ہی ہوتا ہے، یہی گوری کے ساتھ ہوا۔ گوری کی غلطی فقط یہ تھی کہ یہ سب کرتے وقت اس نے بھلا دیا تھا کہ بھارت میں مذہبی انتہاپسندی اور ریاست کے غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے پر کسی کو بھی معاف نہیں کیا جاتا، خواہ اس کا تعلق ہندو دھرم سے ہی کیوں نہ ہو۔
بھارتی معاشرے میں صحافیوں اور دانشوروں کا قتل محض ایک حادثہ نہیں بلکہ یہ اختلاف کرنے والے ذہنوں کو خوفزدہ کرنے کی منظم کوشش ہے۔ آبادی کے بڑے حصے کو خاموش کرکے سیاسی اور مذہبی فوائد حاصل کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ گوری لنکیش کے قتل سے یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بھارتی معاشرہ تشدد کی لہروں کی نذر ہوچکا ہے۔ بھارتی ریاست اپنے شہریوں کے لیے اظہارِرائے کی آزادی، انصاف اور مساوات کے دعوے تو بہت کرتی ہے مگر دوسری طرف ظالموں اور قاتلوں کو بھی کھلی چھوٹ دیتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں تو وہاں ہندو انتہاپسندی کی گھن گرج مزید خوفناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ حیرت اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جب انتہاپسندی اپنی انتہا سے گزر جاتی ہے تو بھی وزیراعظم نریندر مودی اس کے خلاف اپنی زبان پر لگا قفل نہیں کھولتے۔ ان کی خاموشی نے بھارتی معاشرے کی بقا کے سامنے کئی سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ یہ خاموشی ہی تو ہے جس نے انتہاپسند ہندو نظریے کو وہ تقویت فراہم کی ہے کہ ناقدین فتنہ قرار دے کر قتل کیے جارہے ہیں۔ انتہاپسند خیالات کے خلاف آواز بلند کرنے والا ہر فرد باغی ہے۔
بھارت میں ایک جیسی سوچ رکھنے والوں کا انجام ایک جیسا ہے۔ جس کی آواز میں زیادہ زور ہوتا ہے اس کو اتنا ہی قریب سے گولیاں ماری جاتی ہیں۔ نڈر اور بے باک صحافی گوری لنکیش کے قتل نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ ابھی تو کمیونسٹ پارٹی کے رکن گووند پانسرے، سدھانا میگزین کے مدیر نریندر دابھولکر اور کینیڈا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مالشپا کالبری کے قتل کے مجرم بھی نہیں پکڑے گئے تھے کہ گوری کے قتل کی نئی فائل بھی کاغذات کے گودام میں داخل ہوگئی۔
نریندر دابھولکر ترقی پسند صحافت کا بڑا نام تھے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے مذہبی توہمات اور کالے جادو کے خلاف مہم چلائی۔ ساتھ ہی وہ بعض ہندوانہ مذہبی رسومات کے خلاف کھل کر بولتے تھے۔ ان کو اگست 2013 میں قتل کردیا گیا۔ عقلیت پسند طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے گووند پانسرے کا جرم بھی کم و بیش یہی تھا۔ وہ کتاب ''شیوا جی کون تھے؟'' کے مصنف بھی تھے۔ اس کتاب میں انھوں نے ہندو عسکریت پسندی کی علامت سمجھے جانے والے شیواجی کو سیکولر لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ یوں وہ ہندو انتہاپسندوں کی برداشت سے باہر ہوگئے، لہٰذا 2015 میں ان کا انجام بھی اتنا ہی دردناک ہوا۔
کینیڈا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر بھارتی معاشرے کی طبقاتی گروہ بندی کے خلاف تھے۔ ہندوتوا عناصر کے خطرات سے آگاہ کرنے میں آگے آگے رہتے، مذہب کے نام پر انسانی قربانی، کالے جادو اور دیگر غیرانسانی مذہبی رسومات کے سخت خلاف تھے۔ ان کی کوششوں سے ان سب رسومات کے خلاف ایکٹ منظور تو ہوئے لیکن ان کی موت کے بعد، اگست 2015 میں ان کو گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا اور اب گوری لنکیش کا قتل، بھارتی معاشرے کی بیمار ذہنیت کی علامت کے سوا اور کیا ہے۔
بھارت میں عدم برداشت کی گنگا جمنا بہہ رہی ہے، مگر اس کو ہندومت کی تعلیمات کا حصہ قرار دینا سراسر غلط ہے۔ مذہب خواہ کوئی بھی ہو وہ انسان کو درس اخلاقیات کا ہی دیتا ہے، لیکن بھارت میں انتہاپسند ہندو مذہب کو جارحیت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ عدم برداشت کوئی پانچ دس سال کی کہانی نہیں بلکہ بھارت میں اس کی لمبی تاریخ ہے۔ سکھوں کے گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی، بابری مسجد کی شہادت، گرجا گھروں کا جلایا جانا، ایم ایف حسین سے بھارت میں سکونت کا حق چھین لینا، کشمیریوں کی حمایت کے جرم میں ارون دھتی رائے کے گھر پر حملہ اور قتل کی دھمکیاں دینا، سیاہ فاموں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کرنا، گائے کے تحفظ کی آڑ میں مسلمانوں پر ریاستی تشدد اور ان جیسے سیکڑوں واقعات نے بھارتی جمہوریت کا چہرہ مسخ کردیا ہے۔
امریکی تحقیقی ادارے PEW کی رپورٹ کے مطابق بھارت مذہبی عدم برداشت کے حوالے سے دنیا کے 198ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ مذہب سے منسلک تشدد کے واقعات میں شام، نائیجیریا اور عراق کے بعد چوتھا بدترین ملک بھارت ہے۔ نفرت بھرے رویے، تعصب، متحرک تشدد، طاقت کا استعمال، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو سلب کرنا بھارت میں اب کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں رہا۔ اس طرح بھارت کا سیکولر ریاست ہونے کا دعویٰ غلط ثابت ہوگیا ہے۔
2014 میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد صحافیوں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہ وہ لوگ تھے جو ہندوستانی معاشرے کی بگڑتی ہوئی تصویر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کی معقولیت اور استدلال کو دائیں بازو نے رد کردیا۔
بھارت میں مذہب اور نسل پرستی کو اگر الگ نہیں کیا گیا تو اسے ایک نیا کوسوو اور روانڈا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ معاشرے میں ہر سطح پر بڑھتا ہوا عدم برداشت مودی کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ساتھ ہی خاموش اکثریت کے لیے بھی لازمی ہے کہ اب سکوت توڑ کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرے۔ ورنہ یہ خاموشی پیچیدہ صورت حال اختیار کرلے گی، ایسی صورت حال جس میں ہندومت کی حقیقی اقدار اور بھارتی سیکولرازم کو بچانے کی کوشش کرنے والے قربان ہوتے رہیں گے۔
گوری لنکیش کے بعد انڈیا میں ہونے والے چند مظاہروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ امید شاید ابھی زندہ ہے۔ ہوسکتا ہے یہاں صداقت بحال ہوسکے اور امن لوٹ آئے۔ اظہار رائے کی آزادی، سچ کی جرأت اور انفرادی سوچ رکھنے والوں کے نظریات میں ہمیشہ دوام کی صلاحیت رہی ہے۔ لہٰذا تمام تر ریاستی اور مذہبی جبر اور تشدد کے بعد بھی یہ بھارتی معاشرے میں زندہ رہیں گے۔ ان افراد کو قبول نہ کرنا اور ان کو موت کے دروازے کی طرف دھکیل دینا کہیں بھارت کی تقسیم کا ایک بار پھر باعث نہ بن جائے۔