بی بی کے قتل کا مقدمہ افسوس ناک ڈرامہ
جائے وقوع کو دھو دینا، جس سے ثبوت برباد ہوگئے۔ بی بی کا دوپٹہ جو ایک اہم شہادت تھی، غائب ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کی جانب سے دس سال بعد بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کا فیصلہ سنادیا گیا۔ مگر یوں لگتا ہے کہ دس سال طویل کارروائی اس المناک ڈرامے کا صرف پہلا حصہ تھی۔ کھیل کا دوسرا حصہ بھی شروع ہو چکا ہے اور دو سینئر پولیس افسروں نے، جنھیں فرائض سے مجرمانہ غفلت برتنے کے الزام میں سزا سنائی گئی، اپیل دائر کردی ہے، جس میں اے ٹی سی کی طرف سے دی گئی سخت سزا کو چیلنج کیا گیا ہے۔
جب پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے اقوام متحدہ کی طرف سے بی بی کے قتل کی تحقیقات کے لیے کہا تو بہت سے ٹیلی وژن پنڈتوں اور اپوزیشن لیڈروں نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔ پی پی پی کی قیادت کو اس بات پر یقین تھا کہ کسی مقامی تحقیقاتی ایجنسی میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ صحیح سمت میں اشارہ کرے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ صحیح سمت میں اشارہ کرنے کے لیے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔
اگر ہم یو این رپورٹ کو پڑھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ کمیشن نے سب کچھ صاف صاف کہہ دیا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس رپورٹ کو معروضی انداز میں نہیں پڑھ سکتے یا پڑھنا نہیں چاہتے تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''انٹیلی جنس ایجنسیوں اور حکومتی افسروں کی طرف سے تحقیقات میں شدید مشکلات پیدا کی گئیں، جس سے سچ تک پہنچنے کے لیے آزادانہ تحقیقات میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بعض خفیہ اداروں کی جانب سے متوازی تحقیقات کی گئیں، شواہد جمع کیے گئے اور مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ ان متوازی تحقیقات سے جو ثبوت حاصل ہوئے وہ اپنی پسند کے مطابق پولیس کو دیے گئے''۔
کمیشن کی رائے میں، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی موثر طریقے سے تفتیش میں پولیس کی ناکامی دانستہ تھی۔ یہ افسر، جنھیں جزوی طور پر خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کا خوف تھا، اس بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے کہ انھیں پروفیشنلز کی حیثیت سے کس قدر جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
واضح حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں بی بی کے جلوس پر حملہ اور اسلام آباد میں ان کا قتل، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے واقعات ہیں۔ مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ '' ایک اہم ادارے کے افسر نے 27 دسمبر کو صبح سویرے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں محترمہ بے نظیر سے ملاقات کی تھی۔ براہ راست معلومات رکھنے والے ذرایع نے کمیشن کو بتایا کہ ان دونوں کے درمیان الیکشن اور بی بی کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں بات چیت ہوئی، اس بارے میں بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ انھیں خطرات کے بارے میں کس حد تک تفصیلات سے آگاہ کیا گیا''۔
کمیشن نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ کم سے کم ایک اہم افسر نے محترمہ بے نظیر کو بتادیا تھا کہ ریاستی ادارے کو ان پر کسی ممکنہ دہشت گرد حملے کے بارے میں تشویش ہے اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی عوامی مصروفیات کو محدود کردیں اور انتخابی مہم حتیٰ کہ اسی روز ہونے والے لیاقت باغ کے جلسہ میں بھی خود کو ایک فاصلے پر رکھیں۔ اب خفیہ ادارے اپنے دفاع میں کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے تو اس واقعہ سے پہلے خطرے سے آگاہ کردیا تھا۔ انھوں نے ایک انٹرنل میمو بھی لکھا تھا کہ بی بی کی جان کو خطرہ ہے۔ ایک عام آدمی بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اگر قتل میں ایجنسیاں ملوث تھیں تو انھیں محترمہ کو پیشگی خبردار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
کمیشن نے یہ بات نوٹ کی کہ ''ابتدائی معلومات رکھنے والے متعدد افراد نے جن سے پوچھ گچھ کی گئی، کمیشن کو بتایا کہ جب بے نظیر بھٹو نے واپس آنے کا اعلان کیا تو اس وقت کے حکمران سخت غصے میں آگئے اور ایک ذریعے کے مطابق، وہ سمجھتے تھے کہ بے نظیر کی واپسی کا فیصلہ معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ دیگر باخبر ذرایع کا کہنا تھا کہ حکومت کے ردعمل سے بے نظیر بھی خاصی حیران نظر آتی تھیں''۔
یو این کمیشن رپورٹ نے یہ بات پوری طرح سے ثابت کردی کہ اس شام بی بی کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی ناکافی تھی۔ ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں کوئی پولیس اہلکار شامل نہیں تھا۔ بعد میں مشرف حکومت کے حکام کی طرف سے کیے جانے والے متعدد اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پردہ پوشی کی کوشش کر رہے تھے، جس سے اس شبہے کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ ایک سازش تھی اور یہ طالبان و القاعدہ کی طرف سے محض ایک لبرل لیڈر کو قتل کرنے کے لیے حملہ نہیں تھا، جیسا کہ رحمن ملک نے حال ہی میں ایک انگریزی روزنامے میں شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کہا ہے۔ پردہ پوشی کی درج ذیل کوششوں پر غور کیجیے جن پر رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
جائے وقوع کو دھو دینا، جس سے ثبوت برباد ہوگئے۔ بی بی کا دوپٹہ جو ایک اہم شہادت تھی، غائب ہے۔ پروفیسر مصدق نے پولیس حکام سے بی بی کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے تین بار اجازت مانگی مگر انھوں نے انکار کردیا۔ پولیس حکام کی ڈاکٹروں کو یہ ہدایت کہ وہ اپنی رپورٹ انھیں پیش کریں اور اس رپورٹ کی کوئی ہارڈ یا سافٹ کاپی اپنے پاس نہ رکھیں۔
ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پی پی کے حامی مشتعل ہوسکتے تھے اس لیے پولیس کو امن عامہ کے اقدام کے طور پر جائے وقوع سے خون کے دھبے دھونے پڑے۔ مگر کمیشن کے مطابق کسی بھی ایسے شخص نے جو اس کیس سے واقف تھا اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا۔
اس فیصلے میں ایک پولیس افسر کا کردار متنازع ہے۔ پولیس کے متعدد سینئر افسروں کا کہنا ہے کہ جائے وقوع کو دھو دینا بنیادی طور پر پاکستانی پولیس کی پریکٹس سے مطابقت نہیں رکھتا۔
پریس کانفرنس کا فیصلہ جنرل مشرف نے کیا تھا جس میں ایک افسر نے میڈیا کو بی بی کی موت کی وجہ اور بیت اﷲ محسود کی کال انٹرسیپٹ کرنے کے بارے میں بتایا۔ اس کال کی ٹیپ کبھی بھی میڈیا کو نہیں دی گئی تاکہ تصدیق کی جاسکتی کہ یہ آواز واقعی بیت اﷲ محسود کی ہے یا نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک پولیس افسر جے آئی ٹی کو جائے وقوع پر لے جانے کے لیے دو روز تک ٹال مٹول کرتے رہے۔
اس رپورٹ کو پڑھنے سے ایسے بہت سے معاملات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کے ایک مخصوص ڈھانچے کے باعث کوئی بھی ملکی تحقیقاتی ٹیم ان معاملات کو سرکاری طور پر نہیں اٹھا سکتی تھی۔ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کون جائے وقوع سے بھاگ گیا، بے نظیر کی موت گولی لگنے کے زخم سے ہوئی یا ان کا سر گاڑی کی چھت کی کھڑکی کے کونے سے ٹکرایا، حقیقت یہ ہے کہ انھیں قتل کیا گیا۔ اور یہ کہ حکومت نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے انھیں مطلوبہ سیکیورٹی فراہم نہیں کی اور حکومتی افسروں نے حقائق چھپانے کی کوشش کی۔
مگر یہ سب کچھ کہنے کے باوجود اور پاکستان میں سیاسی قتل کے واقعات کی ماضی کی تاریخ کے پیش نظر اس بات کا بہت کم امکان نظر آتا ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یہ المناک ڈرامہ اسی طرح جاری رہے گا۔
جب پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے اقوام متحدہ کی طرف سے بی بی کے قتل کی تحقیقات کے لیے کہا تو بہت سے ٹیلی وژن پنڈتوں اور اپوزیشن لیڈروں نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔ پی پی پی کی قیادت کو اس بات پر یقین تھا کہ کسی مقامی تحقیقاتی ایجنسی میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ صحیح سمت میں اشارہ کرے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ صحیح سمت میں اشارہ کرنے کے لیے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔
اگر ہم یو این رپورٹ کو پڑھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ کمیشن نے سب کچھ صاف صاف کہہ دیا ہے۔ اگر کچھ لوگ اس رپورٹ کو معروضی انداز میں نہیں پڑھ سکتے یا پڑھنا نہیں چاہتے تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''انٹیلی جنس ایجنسیوں اور حکومتی افسروں کی طرف سے تحقیقات میں شدید مشکلات پیدا کی گئیں، جس سے سچ تک پہنچنے کے لیے آزادانہ تحقیقات میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بعض خفیہ اداروں کی جانب سے متوازی تحقیقات کی گئیں، شواہد جمع کیے گئے اور مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ ان متوازی تحقیقات سے جو ثبوت حاصل ہوئے وہ اپنی پسند کے مطابق پولیس کو دیے گئے''۔
کمیشن کی رائے میں، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی موثر طریقے سے تفتیش میں پولیس کی ناکامی دانستہ تھی۔ یہ افسر، جنھیں جزوی طور پر خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کا خوف تھا، اس بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے کہ انھیں پروفیشنلز کی حیثیت سے کس قدر جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔
واضح حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں بی بی کے جلوس پر حملہ اور اسلام آباد میں ان کا قتل، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے واقعات ہیں۔ مزید برآں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ '' ایک اہم ادارے کے افسر نے 27 دسمبر کو صبح سویرے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں محترمہ بے نظیر سے ملاقات کی تھی۔ براہ راست معلومات رکھنے والے ذرایع نے کمیشن کو بتایا کہ ان دونوں کے درمیان الیکشن اور بی بی کی زندگی کو لاحق خطرات کے بارے میں بات چیت ہوئی، اس بارے میں بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ انھیں خطرات کے بارے میں کس حد تک تفصیلات سے آگاہ کیا گیا''۔
کمیشن نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ کم سے کم ایک اہم افسر نے محترمہ بے نظیر کو بتادیا تھا کہ ریاستی ادارے کو ان پر کسی ممکنہ دہشت گرد حملے کے بارے میں تشویش ہے اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی عوامی مصروفیات کو محدود کردیں اور انتخابی مہم حتیٰ کہ اسی روز ہونے والے لیاقت باغ کے جلسہ میں بھی خود کو ایک فاصلے پر رکھیں۔ اب خفیہ ادارے اپنے دفاع میں کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے تو اس واقعہ سے پہلے خطرے سے آگاہ کردیا تھا۔ انھوں نے ایک انٹرنل میمو بھی لکھا تھا کہ بی بی کی جان کو خطرہ ہے۔ ایک عام آدمی بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اگر قتل میں ایجنسیاں ملوث تھیں تو انھیں محترمہ کو پیشگی خبردار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
کمیشن نے یہ بات نوٹ کی کہ ''ابتدائی معلومات رکھنے والے متعدد افراد نے جن سے پوچھ گچھ کی گئی، کمیشن کو بتایا کہ جب بے نظیر بھٹو نے واپس آنے کا اعلان کیا تو اس وقت کے حکمران سخت غصے میں آگئے اور ایک ذریعے کے مطابق، وہ سمجھتے تھے کہ بے نظیر کی واپسی کا فیصلہ معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ دیگر باخبر ذرایع کا کہنا تھا کہ حکومت کے ردعمل سے بے نظیر بھی خاصی حیران نظر آتی تھیں''۔
یو این کمیشن رپورٹ نے یہ بات پوری طرح سے ثابت کردی کہ اس شام بی بی کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی ناکافی تھی۔ ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں کوئی پولیس اہلکار شامل نہیں تھا۔ بعد میں مشرف حکومت کے حکام کی طرف سے کیے جانے والے متعدد اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پردہ پوشی کی کوشش کر رہے تھے، جس سے اس شبہے کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ ایک سازش تھی اور یہ طالبان و القاعدہ کی طرف سے محض ایک لبرل لیڈر کو قتل کرنے کے لیے حملہ نہیں تھا، جیسا کہ رحمن ملک نے حال ہی میں ایک انگریزی روزنامے میں شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کہا ہے۔ پردہ پوشی کی درج ذیل کوششوں پر غور کیجیے جن پر رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
جائے وقوع کو دھو دینا، جس سے ثبوت برباد ہوگئے۔ بی بی کا دوپٹہ جو ایک اہم شہادت تھی، غائب ہے۔ پروفیسر مصدق نے پولیس حکام سے بی بی کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے تین بار اجازت مانگی مگر انھوں نے انکار کردیا۔ پولیس حکام کی ڈاکٹروں کو یہ ہدایت کہ وہ اپنی رپورٹ انھیں پیش کریں اور اس رپورٹ کی کوئی ہارڈ یا سافٹ کاپی اپنے پاس نہ رکھیں۔
ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پی پی کے حامی مشتعل ہوسکتے تھے اس لیے پولیس کو امن عامہ کے اقدام کے طور پر جائے وقوع سے خون کے دھبے دھونے پڑے۔ مگر کمیشن کے مطابق کسی بھی ایسے شخص نے جو اس کیس سے واقف تھا اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا۔
اس فیصلے میں ایک پولیس افسر کا کردار متنازع ہے۔ پولیس کے متعدد سینئر افسروں کا کہنا ہے کہ جائے وقوع کو دھو دینا بنیادی طور پر پاکستانی پولیس کی پریکٹس سے مطابقت نہیں رکھتا۔
پریس کانفرنس کا فیصلہ جنرل مشرف نے کیا تھا جس میں ایک افسر نے میڈیا کو بی بی کی موت کی وجہ اور بیت اﷲ محسود کی کال انٹرسیپٹ کرنے کے بارے میں بتایا۔ اس کال کی ٹیپ کبھی بھی میڈیا کو نہیں دی گئی تاکہ تصدیق کی جاسکتی کہ یہ آواز واقعی بیت اﷲ محسود کی ہے یا نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک پولیس افسر جے آئی ٹی کو جائے وقوع پر لے جانے کے لیے دو روز تک ٹال مٹول کرتے رہے۔
اس رپورٹ کو پڑھنے سے ایسے بہت سے معاملات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کے ایک مخصوص ڈھانچے کے باعث کوئی بھی ملکی تحقیقاتی ٹیم ان معاملات کو سرکاری طور پر نہیں اٹھا سکتی تھی۔ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کون جائے وقوع سے بھاگ گیا، بے نظیر کی موت گولی لگنے کے زخم سے ہوئی یا ان کا سر گاڑی کی چھت کی کھڑکی کے کونے سے ٹکرایا، حقیقت یہ ہے کہ انھیں قتل کیا گیا۔ اور یہ کہ حکومت نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے انھیں مطلوبہ سیکیورٹی فراہم نہیں کی اور حکومتی افسروں نے حقائق چھپانے کی کوشش کی۔
مگر یہ سب کچھ کہنے کے باوجود اور پاکستان میں سیاسی قتل کے واقعات کی ماضی کی تاریخ کے پیش نظر اس بات کا بہت کم امکان نظر آتا ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یہ المناک ڈرامہ اسی طرح جاری رہے گا۔