روہنگیا مسلمانوں کی مدد

ان فسادات کو کچلنے کا واحد راستہ طبقات کے خاتمے، سامراجی بندھنوں سے آزادی اور خودمختار عوامی حکومت کا قیام ہے۔


Zuber Rehman September 16, 2017
[email protected]

KARACHI: ویسے تو برما کی آزادی کی تحریک بڑی پرانی ہے لیکن 1947 میں اس کی زور آوری عروج پر آگئی اور 1948 میں برما برطانوی سامراج سے آزاد ہوا۔ یہاں کی قابل ذکر دو پارٹیاں تھیں۔ ایک سوشلسٹ اور دوسری کمیونسٹ پارٹی۔ 1948 میں اے ایف پی ای ایل نامی سوشلسٹ پارٹی کی حکمرانی قائم ہوئی۔ اس کے دو بنیادی اصول تھے، جمہوریت اور سوشلزم۔ شروع میں حکومت وفاقی جمہوری نظام سے زیادہ مقامی حکو متوں پر انحصار کرتی تھی۔ حکمران جماعت نے بعد ازاں ٹریڈ یونین کانگریس آف برما اور برما وومنز فریڈم لیگ تشکیل دی۔

عوام کی تحریک اور مطالبات کے مدنظر حکمران جماعت نے زمین، جنگلات، جزیرے اور آبی آمدورفت کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ مگر عالمی سامراج سے تعلق کا مکمل خاتمہ کیا اور نہ وسائل کو عوام کے حوالے کیا۔ جس کی وجہ سے برطانوی سامراج کو برما میں مداخلت کا موقع ملا۔ چودھویں صدی کے ذہین دانشور، موسیقار اور فلسفی سولونو نے درست کہا تھا کہ 'سانپ کو چھیڑو نہیں اور چھیڑو تو چھوڑو نہیں'۔ کچھ یہی صورتحال برما کے عوام کے ساتھ ہوئی۔

ملک کے وسائل کو مکمل طور پر عوام کے حوالے کرنے کے بجائے کارکنان کے حوالے کردیا گیا، نتیجتاً طبقات کا مکمل خاتمہ ہوا اور نہ کمیونسٹ سماج کے قیام کی جانب پیشقدمی۔ ادھر برما کی واحد مضبوط حزب اختلاف کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار اور وسائل کو عوام کے حوالے کرنے کی جدوجہد شروع کردی اور حکومت پر زوردار دباؤ بھی ڈالتی رہی۔

کمیونسٹ پارٹی کا یہ موقف تھا کہ جنگلات، جنگل میں رہنے والوں کے حوالے کیے جائیں، جزیرے، جزیرے کے باسیوں کے حوالے کیے جائیں، آبی آمدورفت کے نظام کو ساحلی عوام کے سپرد کیا جائے، زمین کی کاشت اور انتظام کسانوں کے سپرد کیا جائے۔ مگر حکمران سوشلسٹ جماعت ایسا کرنے کے بجائے سامراجی آلہ کاروں، جنرلوں، نوکرشاہی اور نیم جاگیرداروں کے ماتحت ہی چلاتی رہی۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ بارٹر سسٹم صرف روس اور چین کے ساتھ نہیں بلکہ پورے یورپی ممالک کے ساتھ بھی رائج کیا جائے، ہر چند کہ کمیونسٹ پارٹی آف برما کے روس اور چین کی کمیونسٹ پارٹیوں سے قریبی تعلقات تھے۔

جب کمیونسٹوں کے مطالبات نہیں مانے گئے تو انھوں نے احتجاج شروع کیا اور حکمران ان پر حملہ آور ہوئے تو کمیونسٹ گوریلا جنگل میں چلے گئے۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ غیر قانونی اس لیے قرار نہیں دیا گیا کہ کوئی نظریاتی اختلاف تھا، بلکہ اس لیے غیر قانونی قرار دیا گیا کہ ان کے کارکنان حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ 31 مارچ 1956 تک کمیونسٹوں کو چھوٹ دی گئی۔ پھر ان کے لیڈر تھیکسن تھان تن نے جنگل میں رہتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پارٹی کو کھلے عام کام کرنے کی آزادی دی جائے تو ہم جنگل سے باہر آجائیں گے۔

اس پیشکش کو وزیراعظم یونو نے رد کردیا۔ برما کے صوبہ اراکان کے رہائشی حق خوداختیاری (بشمول حق علیحدگی) کا مطالبہ کررہے تھے، کمیونسٹ ان کے حامی تھے، حکومت نے اس مطالبے کو بھی رد کردیا۔ حکمران نے دو صوبوں 'کاچین' اور 'چینیس' جہاں بغاوت ہوئی تھی، ان پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ 'شن' صوبے میں جاگیرداری برقرار رہنے کی وجہ سے جمہوریت پروان نہیں چڑھی۔ اسی دوران 'سواس' کے علاقے میں جب عوام نے اپنے مسائل پر احتجاج کیا تو حکومت نے ان پر یہ الزام دھر دیا کہ یہ کمیونسٹوں کے پروپیگنڈے میں آگئے ہیں۔

'شان' کے عوام بھی حکومت سے بیزار تھے۔ ان تضادات کے دوران برما کی سوشلسٹ پارٹی اور حکومت پر جنرلوں کا قبضہ ہوگیا۔ اور وہ بھی سوشلزم کا نعرہ بلند کرتے رہے، جب کہ یہ ریاست ''ریاستی سرمایہ داری'' کے تحت چل رہی تھی۔ اسی دوران حکمران طبقات کے ہی ایک حصے نے ڈیموکریٹک لیگ نام کی جماعت تشکیل دی، جس کی رہنما آنگ سانگ سوچی ٹھہریں۔ انھوں نے جمہوریت، آزادی اور عوامی حقوق کے نعروں پر جدوجہد کی۔ اس پاداش میں وہ قید بھی ہوئیں اور پھر نوبل انعام سے بھی نوازی گئیں۔

نسل پرستی، فرقہ پرستی اور توسیع پسندی، یہ سب کچھ عالمی سامراج کی پیداوار ہیں۔ اس وقت عالمی طور پر سامراج کے دو مراکز بن چکے ہیں، ایک امریکا اور دوسرا چین۔ دنیا بھر میں تیل، گیس، معدنیات اور قیمتی پتھروں کے ذخائر پر قبضے کے لیے پراکسی وار ہورہی ہیں۔ جیسا کہ گیس اور تانبے کے لیے افغانستان میں، عراق اور شام میں تیل کے لیے، سوڈان اور صومالیہ میں تیل کے لیے اور سونا، تانبا قیمتی معدنیات کے لیے بلوچستان، پاکستان میں پراکسی وار جاری ہیں۔ اسی طرح برما میں گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اور پتھروں کے ذخائر پر قبضے کے لیے پراکسی وار ہورہی ہے۔

برما میں گیس کے ذخائر 11.8 ٹریلین کیوبک فٹ ہیںِ، جب کہ تیل 3.2 بلین بیرل ہے، ہائیڈرو بجلی پیدا کرنے کی ایک لاکھ میگاواٹ کی گنجائش ہے۔ ہزاروں میگاواٹ اس وقت بھی چین برما سے بجلی حاصل کررہا ہے۔ دو سو ارب کیوبک میٹر گیس حاصل کرنے کے لیے چین نے پائپ لائن بچھادی ہے۔ برما میں زیورات میں استعمال ہونے والے قیمتی پتھر دنیا کے کل پتھروں کا 90 فیصد پائے جاتے ہیں۔ چین کے ان مفادات پر امریکا قبضہ جمانا چاہتا ہے، اس لیے اس نے 'روہنگیا سالویشن آرمی' تشکیل کروائی ہے، جس کا سربراہ عطا اﷲ ہے۔

ان فسادات کو کچلنے کا واحد راستہ طبقات کے خاتمے، سامراجی بندھنوں سے آزادی اور خودمختار عوامی حکومت کا قیام ہے۔ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں میں پانچ کروڑ انسانوں کا قتل ہوا، جس میں صرف روس میں ڈھائی کروڑ انسان مارے گئے۔ انڈونیشیا میں 1962 میں 15 لاکھ سامراج دشمنوں، کمیونسٹوں اور جمہوریت پسندوں کا قتل ہوا۔ 1971 میں لاکھوں بنگالیوں کا قتل ہوا، جن میں اردو بولنے والے بھی تھے۔ عراق میں 12 لاکھ، شام میں 5 لاکھ اور اٖٖفغا نستان میں 8 لاکھ انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اب بھی یمن، لیبیا، نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان میں قتل و غارت گری جاری ہے۔ داعش نے شام اور عراق میں ہزاروں لوگوں کو ذبح کیا، افغانستان اور وزیرستان میں انسانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلی گئی اور اب برما میں سامراجی پراکسی وار کے نتیجے میں روہنگیا مسلمانوں کو غیر برمی قرار دے کر ان کے گھر جلائے جارہے ہیں، انھیں قتل کیا جارہا ہے اور انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے، جب کہ وہ صدیوں سے یہیں کے باسی ہیں۔ اس ظلم و ستم کے خلاف سب سے پہلے برما کی کمیونسٹ پارٹی نے ینگون (رنگون) میں لاکھوں کمیونسٹوں اور امن پسندوں نے احتجاجی جلوس نکالا اور حکمرانوں کی بے حسی کی مذمت کی۔ مگر افسوس کہ عالمی میڈیا، یہاں تک پاکستانی میڈیا نے اس جلوس کی جھلکی تک نہیں دکھائی۔

اسی طرح جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ یوسف تاراگرامی کی قیادت میں سری نگر میں ہزاروں لوگوں نے دھرنا دیا تو اسے بھی نہیں دکھایا گیا۔ آئیے دنیا کے محنت کش اور مظلوم عوام ذات پات، نسل، فرقہ اور مذہب سے بالاتر ہوکر ایک غیر طبقاتی سماج، یعنی امداد باہمی کا سماج قائم کرنے کی پیش رفت کریں، جہاں سرحدیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا ایک ہوجائے گی، دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ یہ پوری دنیا سارے لوگوں کی ہوگی، پھر ہمارے سارے مسائل بھی ختم ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔