دولت کے جائز بچے
ہمارے ملک کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں اس مرض میں مبتلا ہزاروں لوگوں سے آپ کی ملاقات ہوجائے گی
KARACHI:
عظیم ہوریس کہتا ہے ''جیسے ایک نیلام کرنے والا اپنے چاروں طرف خریدنے والوں کا مجمع لگا لیتا ہے، ویسے ہی ایک شاعر، جو بڑی جائیداد اور دولت کا مالک ہو اپنے چاروں طرف خوشامدیوں اور تعریف کرنے والوں کا مجمع لگا لیتا ہے، جیسے کسی جنازے میں کرائے کے نوحہ گر بمقابلہ ان کے جو واقعی غمزدہ ہیں زیادہ شور کرتے ہیں، اسی طرح جھوٹی تعریف کرنے والے بمقابلہ سچی تعریف کرنے والوں کے بڑھ چڑھ کر زیادہ داد دیتے ہیں، اگر آپ کو شاعری کرنا ہے تو ان لوگوں سے ہوشیار رہیے جو لومڑی کی طرح چالاک ہوتے ہیں''۔
ہوریس اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ خوشامدیوں کی جھوٹی تعریف ادیب و شاعر کو تباہ کردیتی ہے اور ہدایت کرتا ہے کہ ان سے بچو، ورنہ کہیں کے نہ رہو گے۔ آج ہمارے ملک کے سابق حکمران جو کہیں کے نہیں رہے ہیں، انھیں اس انجام پر پہنچانے والے کوئی اور نہیں بلکہ وہ ہی خوشامدی ہیں جو ان کے دور اقتدار میں ان سے چمٹے ہوئے تھے اور آج وہ ان خوشامدیوں کو تاریکیوں میں ٹٹول ٹٹول کر تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
بات صرف یہاں تک نہیں رکی ہے، اس کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے چند کرائے کے نوحہ گر آج بھی جو رہی سہی کسر رہ گئی ہے اس کو پورا کرنے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف ان کے خیرخواہ جو پہلے بند اجلاسوں میں انھیں ان خوشامدیوں اور کرائے کے نوحہ گروں سے بچنے کی گزارشات کرتے تھے اب وہ کھلے عام ٹی وی پروگرامز کے ذریعے اپنا فرض پورا کررہے ہیں۔ لیکن وہ ہیں کہ سب کچھ گنوا کر بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور آج بھی جھوٹی تعریفوں اور واہ واہ کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اصل میں خوشامدیوں اور کرائے کے نوحہ گروں کے مرض میں مبتلا لوگوں کو اسی مرض میں ہی تسکین ملتی ہے، ان کا اصل مسئلہ ہی نفسیاتی ہوتا ہے، انھیں چین ہی ان ہی لوگوں کے درمیان ملتا ہے، وہ روٹی اور پانی کی وجہ سے زندہ نہیں رہتے ہیں بلکہ جھوٹی تعریفوں اور ہر بات پر واہ واہ پر زندہ ہوتے ہیں اور اگر یہ آوازیں تھوڑی دیر کے لیے آنا بند ہوجائیں تو مارے تکلیف کے تڑپ تڑپ جاتے ہیں۔
ہمارے حکمران ہی اس مر ض میں مبتلا نہیں ہیں، ہمارے ملک کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں اس مرض میں مبتلا ہزاروں لوگوں سے آپ کی ملاقات ہوجائے گی اور بہت سے تو ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے اس مرض میں تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں گنوائیں ہیں۔ خدا کسی کو بھی کسی مرض میں مبتلا نہ کرے لیکن خدا کسی کو بھی اس مرض میں مبتلا نہ کرے، کیونکہ اس سے زیادہ المناک مرض کوئی دوسرا ہوہی نہیں سکتا ہے۔
لونجائنس لکھتا ہے ''مزید غور کرنے پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر ہم بے پناہ دولت حاصل کرنے کی قدر کرتے ہیں یا بات کو سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے یوں کہیں کہ اسے دیوتا سمجھتے ہیں تو پھر کیسے ہم ان بدیوں کو جو دولت سے وابستہ ہیں اپنی روحوں میں سرائیت کرجانے سے روک سکتے ہیں ؟ کیونکہ بے شمار و بے حساب دولت کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم اسراف، بے جا اور فضول خرچی آتی ہے اور جیسے ہی وہ شہروں اور گھروں کے دروازے کھول دیتی ہے ویسے ہی دوسری برائیاں داخل ہوجاتی ہیں اور وہاں اپنے گھر تعمیر کرلیتی ہیں، وقت گزرنے پر فلسفیوں کے مطابق وہ ہماری زندگیوں میں گھونسلے بنا لیتی ہے اور جلد ہی بچے دینے لگتی ہے، ظاہر داری، بے جا غرور، آرام طلبی و عیش پسندی اسی کے بچے ہیں جو حرامی بچے نہیں بلکہ اس کے جائز بچے ہیں اور دولت کے یہ بچے جب سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں میں سنگدل آقاؤں کی گستاخی، بدتمیزی، لاقانونیت اور بے حیائی و بے شرمی کو جنم دیتے ہیں، پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ نہ نظر اٹھا کر دوسروں کو دیکھیں گے اور نہ نیک نامی کا خیال کریں گے، ان کی زندگی رفتہ رفتہ برباد ہوجائے گی اور روح کی رفعت اس وقت مرجھا کر ذلت و خواری میں غرق ہوجائے گی، جب وہ فانی اور ناپائیدار دلچسپیوں کی لذتوں میں محو ہوکر لافانی قوتوں کی نشوونما کو بالائے طاق رکھ دیں گے''۔
اگر ہم ملک کے تمام اہم ایوانوں، وزیروں، مشیروں، ملک کے اہم سیاسی رہنماؤں کی اکثریت، بیوروکریٹس، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، ملاؤں کے گھروں اور آفسوں کا مشاہداتی دورہ کریں تو ہماری ملاقات کسی اور سے ہو نہ ہو لیکن دولت کے جائز بچوں سے ضرور ہوجائے گی۔
دولت کے بچے آپ کو وہاں اچھل کود اور شرارتیں کرتے باآسانی نظر آئیں گے، یہ بچے اتنے خوبصورت، دلکش اور حسین ہیں کہ ان کے والد ایک لمحہ بھی ان کے بغیر جینے کا نہیں سوچ سکتے ہیں، آپ ان کے والد کو لاکھ سمجھالیں، لاکھ نصیحت کرلیں، لاکھ واقعات پڑھ پڑھ کر سنا دیں، لاکھ قصے کہانیاں سنادیں، لاکھ عبرتناک واقعات بتادیں، لیکن وہ کسی بھی صورت ان بچوں کو اپنے سے دور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
آہ یہ کند ذہن، جاہل، گنوار، عقل کے اندھے، شعور کے بہرے، فکر کے کانے، سوچ کے لنگڑے لولے اور دوزخ کے نمایندوں کا یہ المناک ریوڑ، آپ کے اور میرے خوابوں کو روندتا، سانپوں کا یہ خوفناک ریوڑ، آپ کی اور میری ترقی، خوشحالی، کامیابی، سکھ اور چین کے قاتلوں کے بچھوؤں کا وہشتناک ریوڑ، ہم اگر ان سب کے حال پر غور کرنے بیٹھ جائیں تو ہم فوراً اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ اصل میں یہ سب سزا یافتہ ہیں، انھیں دولت اور اس کے بچوں سے محبت کے عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے، ان کے نصیب میں یہ سزا لکھ دی گئی ہے کہ یہ سب دولت کی صلیب اور اس کے بچوں کو ہر وقت اٹھائے اٹھائے پھرتے رہیں، جب تھک جائیں تو بیٹھ جائیں لیکن یہ صلیب اور بچے پھر بھی ان سے جدا نہیں کیے جائیں گے، وہ پھر ہانپتے کانپتے اٹھیں گے، تھوڑی دور چلیں گے اور پھر تھک کر بیٹھ جائیں گے۔
اصل میں لوگوں کی بددعائیں، آہیں، صدائیں ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہیں۔ یہ لاکھ معافی مانگ لیں، لاکھ خدا کے سامنے گڑگڑا لیں، لاکھ چیخ و پکار کرلیں، لیکن ان پر سے یہ عذاب پھر بھی ختم نہیں ہوگا، یہ اسی طرح سے دولت اور اس کے بچوں سے محبت اور خوشامدیوں کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ آج نہیں تو کل ہم بیس کروڑ انسانوں کے نصیب تو بدل ہی جانے ہیں لیکن ان پر سے یہ عذاب پھر بھی ختم نہیں ہوگا۔