پاکستان کے 70 برس
آزادی کے موقع پر کسی بھی قابل ذکر صنعت سے محروم، بیس کروڑ سے زائد کی آبادی والا یہ ملک آج ایٹمی طاقت ہے۔
لاہور:
بنگلا دیش کے سابق وزیرخارجہ افتخار احمد چوہدری اور سابق پاکستانی وزیرخزانہ شاہد جاوید برکی انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (آئی ایس اے ایس) اور نیشنل یونیورسٹی سنگاپور (این یو ایس)سے بحیثیت ریسرچ پروفیسر منسلک ہیں۔ ان صاحبان کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں مذکورہ بالا اداروں نے اپنے یو این ڈی پی آڈیٹوریم میں گیارہ ستمبر کو ایک ورکشاپ بہ عنوان ''پاکستان 70 سال بعد: سیاست، اقتصادیات اور سماجیات'' کا انعقاد کیا۔
''اسلام، معاشرہ اور سیاست'' کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ریاض حسین نے بڑے جامع انداز میں بیان کیا کہ اشاعت اسلام میں صوفیا کے مزارات ؍ خانقاہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاست کا ساتھ حاصل کرلینے کے بعد انھیں جو وسیع و عریض 'جاگیریں' عطا ہوئیں ان کے بل بوتے پر سیاسی اور اقتصادی حلقوں میں ان کا 'خانقاہی اور جاگیردارانہ' اثر ورسوخ بڑھتا چلاگیا۔ 1947ء کے بعد یہ اتحاد پاکستان میں ایک غالب قوت بن گیا۔ اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے پُرعزم علماء اور صوفیوں نے اس اتحاد کی مخالفت کی۔ معاشرے کو اسلام کے قالب میں ڈھالنے کے ضیاء الحق کے منصوبے نے ان کے کردار کو وسعت دی۔ اسی زمانے سے ان دونوں طبقوں یا روایات کے مابین سخت تصادم چلا آرہا ہے۔
''پاکستان کی اقتصادی ترقی'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے شاہد جاوید برکی نے کہا کہ صرف اقوام عالم ہی نے نہیں بلکہ خود اس کے عوام نے بھی پاکستان کی تفہیم درست انداز سے نہیں کی۔ پالیسی سازی پر ریاستی کردار کے اثر کا جائزہ لیتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے جسے ماہرین معیشت path dependence کہتے ہیں۔ میں نے اپنے موضوع ''ای سی او: خطے سے باہر پاکستان کے اقتصادی روابط'' کے تحت اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ رکن ریاستوں کے درمیان مماثلت، خام ملکی پیداوار، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری، جغرافیائی قربت اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بنیاد پر اقتصادی تعاون کی تنظیم (ای سی او) میں اشیاء و خدمات کی واحد مارکیٹ بن جانے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ مگر بدقسمتی سے 32 سال کے بعد بھی اس سمت میں جزوی کامیابی ہی حاصل کی جاسکی۔
اس ناکامی کے اسباب میں بہتر حکمرانی کے لیے سیاسی عزم کا فقدان، ٹرانسپورٹ کے ناکافی روابط، ناقص انفرااسٹرکچر وغیرہ شامل ہیں۔ دوطرفہ اقتصادی روابط کے لیے مضبوط بنیاد اور جغرافیائی قربت، اور سب سے اہم اراکین کے مابین تنازعات کا نہ ہونا علاقائی اور بیرون علاقہ تعاون مستحکم کرنے کی راہ میں آنے والے چیلنجوں اور رکاوٹوں پر قابو پانے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اقتصادی تعاون کی تنظیم کے اہداف کا کامیاب حصول ذرایع نقل و حمل اور رابطہ کاری کو بہتر بنانے میں مضمر ہے۔
سامان اور مسافروں کی نقل و حرکت میں تاخیر کا تدارک، اور کسٹم کے فراڈ اور ٹیکس چوری وغیرہ کا راستہ روکنے کے لیے باہمی تعاون اور مربوط کوششیں ہونی چاہییں۔ ایک متحد بلاک کے طور پر عالم گیریت اقتصادی تعاون کی تنظیم کو تجارت کے فروغ، ایشیا کو یورپ اور وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے ملانے کے نادر مواقع فراہم کرتی ہے۔ 46 ارب امریکی ڈالر (اور اس سے بھی بڑھتی ہوئی) مالیت کا حامل سی پیک تاریخ کا رُخ بدل دینے والا منصوبہ ہے۔
اس منصوبے کے تحت زمینی رابطوں میں بے پناہ اضافے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو علاقائی اور بیرون علاقہ تجارت بڑھانے کے مواقع مہیا ہونے سے اقتصادی تعاون کی تنظیم کو زبردست فروغ ملے گا۔ چین کے تجویز کردہ ' آبشاری ڈیموں' کا تصور حقیقت بننے کے بعد پانی کے معاملے پر ہندوستان، پاکستان کو بلیک میں نہیں کرسکے گا۔ ''پاکستان کی سیاسی ترقی میں فوج کا کردار'' کے موضوع پر سابق چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) جنرل( ریٹائرڈ) جہانگیر کرامت نے اظہار خیال کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اگرچہ سیاسی نااہلی اور چال بازی کے اشتراک سے پیدا ہونے والے حالات سنگین ترین نہیں تھے، مگر فوج پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے، اداروں کی ترقی اور پختگی کی راہ میں رکاوٹ بننے، سیاست دانوں کی سرپرستی اور انتخابات میں مداخلت کرنے وغیرہ جیسے الزامات کُلی طور پر بے جا نہیں تھے۔
شاہد کاردار نے ''تعلیم میں نجی شعبہ'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بالخصوص اسکولوں کی سطح پر نجی شعبے کی افزائش ہوئی ہے۔ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تقریباً پانچ فی صد تعداد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ (قومی سطح پر تمام اضلاع کا 10 فی صد)۔ ان میں سے 95 فی صد تعلیمی ادارے مخلوط تعلیم کی سہولت فراہم کرتے ہوئے ہر آمدنی والے طبقے کی تعلیمی ضرورت پوری کررہے ہیں۔اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹر، اور وفاقی سیکریٹری برائے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جناب سلیم رانجھا نے اپنی تنظیم ''اخوت: مائیکروکریڈٹ میں ایک نیا ماڈل''کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ بلاسود چھوٹے قرضے اور صفر فی صد کی شرح سے قرض فراہم کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم اخوت نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز 2001ء میں 10000 روپے کے پہلے عطیے سے کیا تھا۔
اب تک یہ تنظیم 47 ارب روپے کے قرضے دے چکی ہے اور قرضوں کی واپسی کی شرح 99.93 فی صد ہے۔ اس وقت اخوت پاکستان بھر میں قائم 686 شاخوں کے ذریعے 22 لاکھ خاندانوں کو خدمات فراہم کررہی ہے، اور ایک تخمینے کے مطابق دسمبر2017ء کے اختتام تک 25 لاکھ سے زائد کاشت کاروں میں 60 ارب روپے تقسیم کرے گی۔ خوش کُن امر یہ ہے کہ یہ تنظیم تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی فعال ہے۔ 300 اخوت اسکول کراچی، فیصل آباد اور جھنگ کے اضلاع میں 40000 لڑکوں اور لڑکیوں کو معیاری تعلیم، آموزش اور انفارمیشن اور کمیونی کیشن کی جدید فنی مہارتوں (ای اسکلز)سے لیس ہونے کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔
آزادی کے موقع پر کسی بھی قابل ذکر صنعت سے محروم، بیس کروڑ سے زائد کی آبادی والا یہ ملک آج ایٹمی طاقت ہے۔ اس کا صنعتی شعبہ ترقی کے متعدد مدارج طے کرچکا ہے۔ پاکستان کو درپیش متعدد حل طلب مسائل میں دیانت دار اور بامقصد لیڈرشپ کا فقدان بھی شامل ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی نظر اکثر اپنے مفادات پر ہوتی ہے، اس تناظر میں بلاتفریق احتساب کا فقدان تمام مسائل پر حاوی ہوچکا ہے۔ ہماری مسلح افواج نے جو قربانیاں دی ہیں (اور دے رہی ہیں) ان کی بدولت دہشتگردی اور انتہاپسندی سے سختی اور کامیابی کے ساتھ نمٹا جارہا ہے۔
مقررین کے شاندار پینل نے بلاتفریق احتساب کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ بددیانت لیڈروں سے نجات حاصل کرنے ہی سے پاکستان کی علاقائی طاقت بننے کی صلاحیت ابھر کر سامنے آئے گی جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
بنگلا دیش کے سابق وزیرخارجہ افتخار احمد چوہدری اور سابق پاکستانی وزیرخزانہ شاہد جاوید برکی انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (آئی ایس اے ایس) اور نیشنل یونیورسٹی سنگاپور (این یو ایس)سے بحیثیت ریسرچ پروفیسر منسلک ہیں۔ ان صاحبان کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں مذکورہ بالا اداروں نے اپنے یو این ڈی پی آڈیٹوریم میں گیارہ ستمبر کو ایک ورکشاپ بہ عنوان ''پاکستان 70 سال بعد: سیاست، اقتصادیات اور سماجیات'' کا انعقاد کیا۔
''اسلام، معاشرہ اور سیاست'' کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ریاض حسین نے بڑے جامع انداز میں بیان کیا کہ اشاعت اسلام میں صوفیا کے مزارات ؍ خانقاہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاست کا ساتھ حاصل کرلینے کے بعد انھیں جو وسیع و عریض 'جاگیریں' عطا ہوئیں ان کے بل بوتے پر سیاسی اور اقتصادی حلقوں میں ان کا 'خانقاہی اور جاگیردارانہ' اثر ورسوخ بڑھتا چلاگیا۔ 1947ء کے بعد یہ اتحاد پاکستان میں ایک غالب قوت بن گیا۔ اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے پُرعزم علماء اور صوفیوں نے اس اتحاد کی مخالفت کی۔ معاشرے کو اسلام کے قالب میں ڈھالنے کے ضیاء الحق کے منصوبے نے ان کے کردار کو وسعت دی۔ اسی زمانے سے ان دونوں طبقوں یا روایات کے مابین سخت تصادم چلا آرہا ہے۔
''پاکستان کی اقتصادی ترقی'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے شاہد جاوید برکی نے کہا کہ صرف اقوام عالم ہی نے نہیں بلکہ خود اس کے عوام نے بھی پاکستان کی تفہیم درست انداز سے نہیں کی۔ پالیسی سازی پر ریاستی کردار کے اثر کا جائزہ لیتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے جسے ماہرین معیشت path dependence کہتے ہیں۔ میں نے اپنے موضوع ''ای سی او: خطے سے باہر پاکستان کے اقتصادی روابط'' کے تحت اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ رکن ریاستوں کے درمیان مماثلت، خام ملکی پیداوار، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری، جغرافیائی قربت اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بنیاد پر اقتصادی تعاون کی تنظیم (ای سی او) میں اشیاء و خدمات کی واحد مارکیٹ بن جانے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ مگر بدقسمتی سے 32 سال کے بعد بھی اس سمت میں جزوی کامیابی ہی حاصل کی جاسکی۔
اس ناکامی کے اسباب میں بہتر حکمرانی کے لیے سیاسی عزم کا فقدان، ٹرانسپورٹ کے ناکافی روابط، ناقص انفرااسٹرکچر وغیرہ شامل ہیں۔ دوطرفہ اقتصادی روابط کے لیے مضبوط بنیاد اور جغرافیائی قربت، اور سب سے اہم اراکین کے مابین تنازعات کا نہ ہونا علاقائی اور بیرون علاقہ تعاون مستحکم کرنے کی راہ میں آنے والے چیلنجوں اور رکاوٹوں پر قابو پانے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اقتصادی تعاون کی تنظیم کے اہداف کا کامیاب حصول ذرایع نقل و حمل اور رابطہ کاری کو بہتر بنانے میں مضمر ہے۔
سامان اور مسافروں کی نقل و حرکت میں تاخیر کا تدارک، اور کسٹم کے فراڈ اور ٹیکس چوری وغیرہ کا راستہ روکنے کے لیے باہمی تعاون اور مربوط کوششیں ہونی چاہییں۔ ایک متحد بلاک کے طور پر عالم گیریت اقتصادی تعاون کی تنظیم کو تجارت کے فروغ، ایشیا کو یورپ اور وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے ملانے کے نادر مواقع فراہم کرتی ہے۔ 46 ارب امریکی ڈالر (اور اس سے بھی بڑھتی ہوئی) مالیت کا حامل سی پیک تاریخ کا رُخ بدل دینے والا منصوبہ ہے۔
اس منصوبے کے تحت زمینی رابطوں میں بے پناہ اضافے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو علاقائی اور بیرون علاقہ تجارت بڑھانے کے مواقع مہیا ہونے سے اقتصادی تعاون کی تنظیم کو زبردست فروغ ملے گا۔ چین کے تجویز کردہ ' آبشاری ڈیموں' کا تصور حقیقت بننے کے بعد پانی کے معاملے پر ہندوستان، پاکستان کو بلیک میں نہیں کرسکے گا۔ ''پاکستان کی سیاسی ترقی میں فوج کا کردار'' کے موضوع پر سابق چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) جنرل( ریٹائرڈ) جہانگیر کرامت نے اظہار خیال کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اگرچہ سیاسی نااہلی اور چال بازی کے اشتراک سے پیدا ہونے والے حالات سنگین ترین نہیں تھے، مگر فوج پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے، اداروں کی ترقی اور پختگی کی راہ میں رکاوٹ بننے، سیاست دانوں کی سرپرستی اور انتخابات میں مداخلت کرنے وغیرہ جیسے الزامات کُلی طور پر بے جا نہیں تھے۔
شاہد کاردار نے ''تعلیم میں نجی شعبہ'' کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بالخصوص اسکولوں کی سطح پر نجی شعبے کی افزائش ہوئی ہے۔ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تقریباً پانچ فی صد تعداد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ (قومی سطح پر تمام اضلاع کا 10 فی صد)۔ ان میں سے 95 فی صد تعلیمی ادارے مخلوط تعلیم کی سہولت فراہم کرتے ہوئے ہر آمدنی والے طبقے کی تعلیمی ضرورت پوری کررہے ہیں۔اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹر، اور وفاقی سیکریٹری برائے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جناب سلیم رانجھا نے اپنی تنظیم ''اخوت: مائیکروکریڈٹ میں ایک نیا ماڈل''کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ بلاسود چھوٹے قرضے اور صفر فی صد کی شرح سے قرض فراہم کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم اخوت نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز 2001ء میں 10000 روپے کے پہلے عطیے سے کیا تھا۔
اب تک یہ تنظیم 47 ارب روپے کے قرضے دے چکی ہے اور قرضوں کی واپسی کی شرح 99.93 فی صد ہے۔ اس وقت اخوت پاکستان بھر میں قائم 686 شاخوں کے ذریعے 22 لاکھ خاندانوں کو خدمات فراہم کررہی ہے، اور ایک تخمینے کے مطابق دسمبر2017ء کے اختتام تک 25 لاکھ سے زائد کاشت کاروں میں 60 ارب روپے تقسیم کرے گی۔ خوش کُن امر یہ ہے کہ یہ تنظیم تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی فعال ہے۔ 300 اخوت اسکول کراچی، فیصل آباد اور جھنگ کے اضلاع میں 40000 لڑکوں اور لڑکیوں کو معیاری تعلیم، آموزش اور انفارمیشن اور کمیونی کیشن کی جدید فنی مہارتوں (ای اسکلز)سے لیس ہونے کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔
آزادی کے موقع پر کسی بھی قابل ذکر صنعت سے محروم، بیس کروڑ سے زائد کی آبادی والا یہ ملک آج ایٹمی طاقت ہے۔ اس کا صنعتی شعبہ ترقی کے متعدد مدارج طے کرچکا ہے۔ پاکستان کو درپیش متعدد حل طلب مسائل میں دیانت دار اور بامقصد لیڈرشپ کا فقدان بھی شامل ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی نظر اکثر اپنے مفادات پر ہوتی ہے، اس تناظر میں بلاتفریق احتساب کا فقدان تمام مسائل پر حاوی ہوچکا ہے۔ ہماری مسلح افواج نے جو قربانیاں دی ہیں (اور دے رہی ہیں) ان کی بدولت دہشتگردی اور انتہاپسندی سے سختی اور کامیابی کے ساتھ نمٹا جارہا ہے۔
مقررین کے شاندار پینل نے بلاتفریق احتساب کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ بددیانت لیڈروں سے نجات حاصل کرنے ہی سے پاکستان کی علاقائی طاقت بننے کی صلاحیت ابھر کر سامنے آئے گی جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)