یقین
اگر ان قومی زبانوں کو اس ملک کے آئین کے تحت حق دیا جائے تو کوئی لسانی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔
KARACHI:
سلیم راز ایک معروف ترقی پسند ادیب ہیں جنھوں نے اپنی زندگی استحصال سے پاک غیر طبقاتی معاشرے کے خلاف عام آدمی کے ذہن کی تبدیلی کی کوششوں میں صرف کی۔ وہ بنیادی طور پر پختون ہیں مگر خوبصورت اردو لکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ''یقین'' ادب، سیاست، سماجی اور بین الاقوامی موضوعات پر شایع ہونے والے 26 کے قریب مضامین پر مشتمل ہے۔
اس کتاب میں شایع ہونے والے مضامین معلومات سے بھرپور ہیں۔ میں نے جب کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے اندازہ نہ تھا کہ مجھے بہت سی معلومات میسر آئیں گی۔ پہلا مضمون کتابوں سے متعلق ہے۔ کتابیں تو لکھی جاتی ہیں لیکن کتابوں کے بارے میں کم لکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت کچھ ہے مگر کتب بینی کا رجحان نہیں ہے۔ سلیم نے لکھا ہے کہ کتابیں تحریروں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ یہ تحریریں تاریخ و تہذیب کا عکس و نقش ہوتی ہیں جنھیں ادبی حسن اور علمی سچائی منور اور معتبر بنا دیتی ہے۔ اس بنا پر کتابیں رہبری بھی کرتی ہیں۔
سلیم راز نے اس مضمون میں ایک انتہائی معلوماتی جملہ تحریر کیا کہ سماجی سائنس دان کہتے ہیں کہ شعور وجود کا عکس ہے اور سماجی شعور سماجی وجود کا عکس ہوتا ہے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی، قانونی، مذہبی اور فلسفیانہ افکار سائنس اور ادب وغیرہ شعور کی مختلف اقسام ہیں۔ وہ اس مضمون کا اختتام چین کے قدیم مقولہ پر کرتے ہیں 'اگر وقت ملے تو کتاب ضرور لکھو اور اگر ممکن نہ ہو تو پھر ایک درخت لگا دو''۔ ان کا مضمون ''عظیم اکتوبر انقلاب'' 1917ء کے عظیم اکتوبر انقلاب کے واقعات کی یاد تازہ کرتا ہے۔
اس عظیم انقلاب نے تاریخ میں پہلی مرتبہ مظلوم محنت کش عوام کو اقتدار منتقل کیا۔ وہ مضمون کے آخری پیراگراف میں لکھتے ہیں کہ سوشلزم بحران سے دوچار ہے لیکن تاریخی مادیت کے قوانین کا مطالعہ بتایا ہے کہ سوشلسٹ معاشرہ منجمد نہیں ہوا، اس کا رخ آگے کی جانب ہے، انقلاب زندہ ہے اور جاری ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سلیم راز نے تاریخی مادیت کے قوانین کا ذکر کیا مگر نئے تضادات کے نتیجے میں دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر توجہ نہیں دی۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سوشلزم بحران سے دوچار ہے تو ہمیں بحران کی وجوہات اور کسی نئے انقلاب کی نوعیت پر بھی کچھ رائے دینی چاہیے۔
گلوبلائزیشن کے اس دور میں کسی قسم کی آمریت کو قبول کیا جاسکتا ہے، خواہ آمریت پرولتاریہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ڈاکٹر سر علامہ اقبال کے بارے میں مضمون میں اقبال کی شاعری کے ترقی پسند پہلو کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ سلیم صاحب کی یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ اقبال کی شاعری کے ان پہلوؤں کو اس ملک میں اجاگر نہیں کیا جاتا، یہ نئی نسل کو بتانا ضروری ہے۔ مگر یہ خیال بھی اقبال کی ترقی پسندی کو ضرور اجاگر کرنا چاہیے مگر ان کی شاعری کے حقیقی پہلوؤں پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔
پھر اقبال کی برطانوی بادشاہت سے عقیدہ وغیرہ کا بھی کہیں ذکر ضرور ہونا چاہیے تاکہ نئی نسلیں انھیں کوئی مافوق الفطرت شخصیت سمجھنے کے بجائے ایک ایسے شاعر کے بارے میں حقائق سے آگاہ ہوں جو عام انسان تھا اور ہر موسم کے اعتبار سے شعر تخلیق کیا کرتا تھا۔
سندھ میں ہونے والے 1972ء میں لسانی فسادات کے تناظر میں لکھا گیا مضمون ''اصلی مسئلہ کیا ہے'' میرے لیے خصوصی دلچسپی کا حامل ہے۔ اس مضمون میں 1972ء میں پشتو زبان کے ادیبوں کی کراچی میں رئیس امروہوی کے اعزاز میں تقریب کا ذکر ہے۔ اس تقریب کی صدارت اجمل خٹک نے کی تھی۔ اس تقریب میں قومی حقوق اور لسانی تعلقات کے حوالے سے زبان و ثقافت کو لوگوں کے درمیان محبت و اخوت کے رشتوں کے مضبوط کرنے اور ہر قسم کے لسانی جھگڑوں اور قومی حقوق کے مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعے جمہوری انداز میں حل کرنے پر زور دیتے ہوئے انھیں سیاسی اور پارلیمانی فورم میں زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس تقریب میں رئیس امروہوی نے ایک نظم بنام ''پختون'' پڑھی تھی جو دوسرے روز اخبار میں بھی شایع ہوئی۔ اس مضمون میں 1952ء میں سابقہ مشرقی پاکستان میں 21 مارچ 1952ء کو بنگالی زبان کے لیے چلنے والی تحریک کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تحریک میں بنگالی نوجوانوں نے قربانیاں دے کر تاریخ رقم کی تھی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو (UNESCO) نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا دن قرار دیا ہے۔ مصنف نے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251 کا ذکر کیا ہے جس کے تحت تمام صوبوں کی زبانوں کو قومی زبان قرار دیا جانا چاہیے مگر پارلیمنٹ نے اس ضمن میں پیش کی جانے والی قراردادوں کو مسترد کیا۔
یہ بات درست ہے کہ 1952ء اور 1972ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا لیکن حکمراں طبقوں نے اپنی روش نہیں بدلی۔ سلیم نے نئے صوبوں کی تشکیل پر بھی رائے دی ہے کہ نئے صوبے انتظامی بنیادوں کی بحالی، لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر قائم ہونے چاہئیں، انھیں آئین کے مطابق لسانی اور ثقافتی حقوق دینے سے ہی مسئلے حل ہوں گے۔
سلیم راز نے اس مضمون میں فوجی آمر ایوب خان کے صدارتی الیکشن کے بعد ان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان کے کراچی میں پشتو اور پشتون نام استعمال کرکے لسانی جھگڑے فساد کرانے کا ذکر کر کے ایک حقیقت بیان کی ہے اور گوہر ایوب نے خیبر پختونخوا کی بحالی اور صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کی افضل خان لالہ کی تجویز کی مخالفت کا ذکر کرکے بہت سے حقائق آشکار کیے ہیں۔ گوہر ایوب اور اس مکتبۂ فکر کے لوگ ریاست کے اندر نہ نظر آنے والی ریاست پر یقین رکھتے ہیں۔
سلیم صاحب نے تو 1972ء کے لسانی تنازعہ میں رئیس امروہوی کے منفی کردار کا ذکر نہیں کیا مگر میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ اردو کے اس عظیم شاعر رئیس امروہوی نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دینے اور سندھی اردو کا تنازعہ کھڑا کرکے سندھ میں نفرت کی دیوار کھڑی کردی۔ ان کی نظم 'اردو کا جنازہ دھوم سے نکلے' ہم اردو بولنے والوں کے لیے ہمیشہ شرمندگی کا باعث رہے گی۔ عجب المیہ ہے کہ مولوی عبدالحق، رئیس امروہوی وغیرہ نے بنگالی کو قومی زبان قرار دینے کی مخالفت کر کے نہ نظر آنے والی ریاست کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا تھا۔
سلیم راز نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ اس ملک کے مسائل کا حل سیکولر جمہوری اور غیر طبقاتی نظام میں ہے۔ اصل جنگ توہم پرستی، جہالت، طبقاتی، لسانی اور مذہبی امتیاز کے خلاف جنگ ہے اور یہی اس ملک کے تمام مسائل اور جنگوں کی جنگ ہے، جسے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے مگر اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی تمام قومی زبانوں میں اس جنگ سے متعلق مواد کی تشہیر کی جائے۔ پھر اردو اور انگریزی کے ذریعے اس مواد کو پھیلایا جائے تو محنت کش عوام میں شعور بلند کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح مصنف نے اردو کا دیگر زبانوں کے ساتھ کے عنوان سے اپنے مضمون میں یہ اہم بات تحریر کی ہے کہ اردو اور قومی زبانوں کا اس میں کوئی بیر نہیں ہے لیکن حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور غیر ذمے دارانہ اقدامات کی وجہ سے قومی زبانوں کی اردو سے تصادم کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اردو ملک کی سرکاری زبان ہے جو ابھی تک قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں کرسکی، اگرچہ رابطے کی زبان ہونے کے ناتے پورے ملک کی زبان معلوم ہوتی ہے۔
اردو کے حق پر ڈاکا ڈالنے والی زبان انگریزی ہے جو غلامانہ ذہنیت کی افسر شاہی حب الوطنی کے جذبے سے عاری سیاسی رہنماؤں اور بے حس حکمران طبقوں کی منافقانہ روش و رویوں کی وجہ سے حکمراں بن کر براجمان ہے اور انھی بالادست طبقات نے انگریزی کے تسلط کو قانونی حیثیت دے کر اردو کو اس ملک کی قومی زبانوں کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ اگر ان قومی زبانوں کو اس ملک کے آئین کے تحت حق دیا جائے تو کوئی لسانی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔
سلیم راز 'گلوبل ولیج اور ہم' کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ سامراج اور سرمائے نے یہ گلوبل ولیج غریب اقوام اور محنت کش عوام کے لیے نہیں بنایا، صرف اپنی لوٹ مار اور غلامی کے نظام کو ایک نئے انداز میں قائم رکھنے کے لیے بنایا ہے۔ وہ پشتون ادب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''تحریک کی تیسری سمت قومی آزادی کی جدوجہد تھی۔ مغل امپیریلزم کے خلاف پختون قوم پرستی کا ابھار تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا''۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پشتو ادب تو پیدا ہی مزاحمت کے دوران ہوا ہے، مزاحمت سے ہی اس کے مزاج و نفسیات کی تشکیل و تکمیل ہوتی ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان نے یہ خوبصورت کتاب شایع کی ہے۔
(یہ مقالہ کتاب یقین کی آرٹس کونسل کراچی میں ہونے والی تقریب اجراء میں پڑھا گیا)۔