50 دن میں 20 پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ

ہلاکتوں اور حکومتی و سیاسی حلقوں کی طرف سے پشت پناہی نہ کرنے کے باعث پولیس کا مورال گر رہا ہے.

پولیس کے تحقیقاتی اداروں نے دہشت گردوں کیخلاف کارروائیاں نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، حساس اداروں کے ہاتھوں پکڑے گئے ملزمان کی گرفتاری ظاہر کی جارہی ہے، تحقیقاتی افسر. فوٹو: فائل

WASHINGTON:
پولیس افسران و اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں تسلسل کے ساتھ ہلاکتوں اور حکومتی و سیاسی حلقوں کی طرف سے پشت پناہی نہ کرنے کے باعث پولیس افسرا و اہلکاروں کا مورال گر رہا ہے جس کے باعث کراچی پولیس کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کوئی موثر اور نتیجہ خیز کارروائی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے.

رواں سال کے ابتدائی50دنوں میں ایک ڈی ایس پی اور ایک انسپکٹر سمیت20اہلکاروں کو ٹارگٹ کر کے فائرنگ اور بم دھماکے میں قتل کیا گیا، سال2012میں ایک ایس پی اور3انسپکٹر سمیت122 اہلکار دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیے گئے تھے ، پولیس صرف حساس اداروں کے ہاتھوں پکڑے جانے والے اہم ملزمان کی گرفتاری ظاہر کررہی ہے ، پولیس کے ایک تحقیقاتی ادارے کے افسر نے بتایا کہ پولیس افسران و اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں پے در پے ہلاکتوں کے بعد سی آئی ڈی ، ایس آئی یو اور پولیس کے دیگر تحقیقاتی اداروں نے دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تحقیقاتی ادارے کے افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس افسران و اہلکار عدم تحفظ کا شکار ہیں جس پر انھوں نے کراچی پولیس کے سربراہ سے بات چیت کرتے ہوئے کراچی کی صورتحال سے آگاہ کیا اور انھیں بتایا کہ رواں سال کے ابتدائی50 دنوں کے دوران ایک ڈی ایس پی ، ایک انسپکٹر،2سب انسپکٹر ،2اسسٹنٹ سب انسپکٹرز ، 3ہیڈ کانسٹیبل اور11کانسٹیبل دہشت گردی کا نشانہ بنے، ہلاک ہونے والوں میں ڈی ایس پی کمال منگن اور ایک سب انسپکٹر کو بم دھماکے میں قتل کیا تھا جبکہ ایک سب انسپکٹر،3 اسسٹنٹ سب انسپکٹر،4 ہیڈ کانسٹیبل اور11کانسٹیبل دہشت گردوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے جو تا حال موت و زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔




کراچی پولیس کے سربراہ کو بتایا گیا کہ سال2012میں ایک ایس پی ، 3 انسپکٹر ،11 سب انسپکٹرز ، 18 اے ایس آئی ، 18 ہیڈ کانسٹیبل اور71 کانسٹیبل شہید جبکہ 4 ڈی ایس پیز ، 5 انسپکٹرز ، 12 سب انسپکٹرز ، 19 اسسٹنٹ سب انسپکٹرز ، 22 ہیڈ کانسٹیبل اور 96 کانسٹیبل کو فائرنگ کر کے زخمی کیا گیا، تحقیقاتی اداروں کے سربراہان نے کہا کہ جب تک سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی نہیں ہو گی اس وقت تک شہر میں امن قائم کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے ، پولیس افسران نے کراچی پولیس کے سربراہ کو بتایا کہ ٹارگٹ کلر اور دہشت گردوں کا پکڑنا پولیس کے لیے ناممکن نہیں ہے تاہم اس کیلیے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پولیس پر بھروسہ کرنا ہوگا ، انھوں نے کہا کہ پولیس جب کسی علاقے میں دہشت گرد ، ٹارگٹ کلر یا کسی کالعدم تنظیم کے کارندے کے خلاف کارروائی کرنے جاتی ہے تو سب سے پہلے اسے کسی سیاسی جماعت کے رہنما کے تابڑ توڑ سوالوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔

اگر انھیں مطمئن کر دیا جائے تو پولیس کا سامنا مذہبی جماعت کی قیادت سے ہوتا ہے، اگر پولیس زور زبردستی کسی کے خلاف آپریشن کرتی ہے اور اس میں فائرنگ کے دوران پولیس افسر یا اہلکار کو گولی لگ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر پولیس پر فائرنگ کرنے والے کو گولی لگ جائے تو شہر میں احتجاج اور دھرنا شروع کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ پولیس افسران مشتعل افراد کے رد عمل کو دیکھتے ہوئے اپنی سیٹ بچانے کے لیے پولیس اہلکاروں کے خلاف ہی مقدمہ درج کرا دیتے ہیں، اس صورتحال میں پولیس افسران و اہلکار کس طرح جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ سی آئی ڈی ، ایس آئی یو اور دیگر تحقیقاتی اداروں میں تعینات افسران اور اہلکار اپنے اہلخانہ کے ساتھ اسی شہر کے مختلف علاقوں میں عام شہریوں کی طرح رہائشی پذیر ہیں اور وہ ڈیوٹی پر آنے جانے کیلیے پبلک ٹرانسپورٹ، کار اور موٹر سائیکلیں استعمال کرتے ہیں۔

کالعدم تنظیموں کے کارندے ان پولیس افسران اہلکاروں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرتے ہیں اور ان کے راستے میں کسی بھی مقام پر گھات لگا کر بیٹھ جاتے ہیں،موقع ملتے ہی وہ ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں، پولیس افسران نے کراچی پولیس کے سربراہ کو بتایا کہ پہلے پولیس کو اس بات کی امید تھی کہ اچھا کام کرنے پر انھیں اگلے عہدے پر ترقی ملے گی لیکن اب وہ راستہ بھی بند کر دیا گیا ہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس افسران نے کراچی پولیس کے سربراہ کو بتایا ہے کہ حساس اداروں اور رینجرز کے ہاتھوں پکڑے جانے والے اہم ملزمان کی گرفتاری ظاہر کر کے کراچی پولیس کی ساکھ کو قائم رکھا جا رہا ہے جبکہ کراچی پولیس کی جانب سے اسٹریٹ کرائم ، منشیات فروشی اور دیگر چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث جرائم پیشہ عناصر سمیت مفرور اور اشتہاری ملزمان کی گرفتاری میں تیزی لائی جا رہی ہے تاکہ کراچی پولیس کی کارکردگی اسی طرح سے ظاہر کی جاتی رہے۔
Load Next Story