امریکا کا پاکستان پر سخت پابندیاں عائد کرنے پر غور برطانوی اخبار

سویلین امداد میں کٹوتی، پاکستان پر ڈرون حملے اور آئی ایس آئی افسران پر سفری پابندیاں شامل ہیں، فنانشل ٹائمز


ویب ڈیسک September 16, 2017
نئی پابندیوں سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرضے لینے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں، فنانشل ٹائمز۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت پاکستان کو حاصل اتحادی کی حیثیت ختم کرنے پر غور کررہی ہے۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا اتحادی کا درجہ ختم کرنے سمیت اس کے خلاف دیگر سخت اقدامات پر غور کررہی ہے۔ امریکا کا الزام ہے کہ پاکستان میں مبینہ طور پر 20 دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں جن کے خلاف موثر کارروائی کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان افراتفری پھیلانے والے افراد کو پناہ دیتا ہے

فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکا کی نئی افپاک پالیسی سے واقف ذرائع نے بتایا کہ ٹرمپ حکومت پہلے ہی پاکستان کی 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوجی امداد روک چکی ہے اور اب دیگر اقدامات پر غور کررہی ہے جن میں سویلین امداد میں کٹوتی، پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر اس پر یکطرفہ طور پر ڈرون حملے کرنا اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے بعض افسران پر سفری پابندیاں عائد کرنے جیسے سخت اقدامات شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت پاکستان کا غیرنیٹو اتحادی کا درجہ ختم اور اسے دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا ملک بھی قرار دے سکتی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو نہ صرف ہتھیار فروخت کرنے پر پابندی لگ سکتی ہے، بلکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے اربوں ڈالر کے قرضے لینے اور عالمی مالیاتی مراکز تک رسائی میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان ٹرمپ حکومت کا ڈو مور قبول نہیں کرے گا

واضح رہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات اس وقت کافی کشیدہ ہیں جس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے بعد اسلام آباد حکومت نے احتجاجاً گزشتہ ماہ امریکی دفتر خارجہ کی جنوبی ایشیا پالیسی کی سربراہ ایلس ویلز کو پاکستان آنے سے روک دیا تھا، تاہم ایلس ویلز نے رواں ہفتے امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری سے ملاقاتیں کیں اور امریکی حکام کے مطابق دونوں سفارتکار مستقل رابطے میں ہیں۔

یاد رہے کہ پچھلے ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے متعلق نئی پالیسی متعارف کراتے ہوئے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں