ورلڈ الیون سیریز اسپورٹس مین شپ کی فتح
مصباح الحق اور شاہد آفریدی کی قدر افزائی کی گئی
پاکستان نے آزادی کرکٹ کپ سیریز جیت لی۔ فیصلہ کن مقابلے میں ورلڈ الیون کو 33 رنز سے شکست دے دی، احمد شہزاد میچ کے ہیرو قرار پائے، کرکٹ سپر اسٹارز، اسپورٹس مبصرین، سیاسی رہنماؤں اور کرکٹ بورڈ انتظامیہ کے مطابق ورلڈ الیون کی آمد اور تین میچز کی دلچسپ سیریزکے خوشگوار اور پرامن انعقاد نے ثابت کر دیا کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے صبر آزما مشن کا کامیاب آغاز ہوا ہے۔
غیر ملکی ٹیموں کو خوف سے آزادی کا احساس دیا ہے، ایک طرف تماشائیوں نے مہمانوں کے دل موہ لیے دوسری جانب عالمی سطح پر دنیا کی تمام بڑی ٹیموں کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ پاکستان کرکٹ کی دنیا میں اب تنہا نہیں، اور کسی بھی غیر ملکی ٹیم کے پاکستان میں آنے اور کھیلنے کے لیے سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں۔
اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ورلڈ الیون کی پاکستان آمد اسپورٹس مین اسپرٹ کی فتح ہے،اور ورلڈ الیون کے تمام کھلاڑی، ٹیم منیجر،کوچ اور دیگر منتظمین سب قابل مبارک باد ہیں، ورلڈ الیون دبئی روانہ ہو گئی ہے اور یقینا کوچ اینڈی فلاور اور کھلاڑی اپنے ساتھ پاکستانی میزبانوں کی مہمان نوازی، وضع داری، مروت اور اسپورٹس مین شپ کی بہترین یادیں لے کر گئے ہیں۔
یہ صرف ایک کرکٹ سیریز نہ تھی بلکہ عالمی کرکٹ پنڈتوں، آئی سی آئی منتظمین، ورلڈ کرکٹ بورڈز اور سپر اسٹار کرکٹرز کو قائل کرنے کی ایک مہم میں ملکی کرکٹ بورڈ اور اس کے انتظام کاروں کی جیت بھی ہے، نجم سیٹھی کی کوششیں رنگ لائیں، آزادی کپ خیرسگالی کا پیغام تھا، اہل وطن کو بھرپور تفریح ملی، قوم نے جشن منایا، کرکٹ سے پاکستان کی جذباتی اور والہانہ وابستگی کی تجدید میں عالمی کھلاڑیوں کی معاونت اور جذبہ سپردگی قابل تحسین ہے۔
جہاں تک پاکستان اور ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں کی پرفارمنس کا تعلق ہے تینوں میچز دلچسپ، سنسنی خیز رہے، دلفریب مرحلے بھی درپیش آئے، اور پاکستانی بلے بازوں اور بولرز نے اپنے جوہر خوب دکھائے۔ بہر حال فاسٹ بولر محمد عامر ورلڈ الیون کے خلاف آزادی کپ میں نہیں کھیل پائے جب کہ بابر اعظم مین آف دی سیریز، احمد شہزاد ہیرو، شعیب ملک شاٹ آف دی میچ، ڈیرن سیمی اسمارٹ بولر، تھشارا پریرا کلر فل جب کہ ''بزرگ کرکٹر'' ہاشم آملا کو سیریز کے متاثر کن پلیئر کا ایوارڈ دیا گیا۔
مصباح الحق اور شاہد آفریدی کی قدر افزائی کی گئی، وہ گراؤنڈ میں شائقین کی داد و تحسین کے سزاوار ٹھہرے۔ قذافی اسٹیڈیم کے اندر اور باہر تماشائیوں کا ریکارڈ رش رہا، تماشائیوں کے فلک شگاف نعروں نے میچ کے دوران سماں باندھے رکھا، فائنل ٹی ٹوئنٹی کے موقع پر ورلڈ الیون اور قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں نجی ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم لایا گیا، اس دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے روٹ کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
آزادی کپ کے سلسلے میں لاہورکے قذافی اسٹیڈیم میں تیسرے اور آخری ٹوئنٹی 20 میچ میں پاکستان کی جانب سے 184 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ورلڈ الیون کی ٹیم8 وکٹوں پر 150 رنز پر ہمت ہار گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کھیلوں کے لیے محفوظ ملک ہے، امید ہے دنیا کی دیگر ٹیمیں بھی پاکستان آئیں گی اور ان کے لیے بھی بہترین انتظامات کیے جائیں گے۔
اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ زمبابوے سیریز، پی ایس ایل فائنل اور اب ورلڈ الیون کے مابین ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پر امن انعقاد سے پوری دنیا کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹ کے انعقاد میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پاکستانی قوم اپنے مہمانوں کو کتنی گرم جوشی سے خوش آمد ید کہتی ہے تاہم بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں کرکٹ بورڈ کو غور کرنا چاہیے اور وہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تینوں میچز کی سیریزکے انعقاد سے متعلق ہیں، بلاشبہ سیریز کامیاب رہی مگر وینیو کی تخصیص اور دیگر صوبوں کے شہروں میں میچز کے انعقادسے گریز نے سوالات اٹھائے۔
اس ضمن میں کراچی اور اس کے نیشنل اسٹیڈیم کو نظر انداز کرنے کی شکایت ٹھوس انداز میں کرکٹ لوورز نے کی، شکایت کنندگان کا استدلال یہ ہے کہ زمبابوے، پی سی ایل اور موجودہ سیریز لاہور میں منعقد ہوئیں جس کے لیے سیکیورٹی نہ صرف غیر معمولی تھی بلکہ بعض حلقوں کے مطابق اس نیشنل ایونٹ کو قلعہ بند انداز میں منعقد کیا گیا، لاہور میں شہریوں کو عام سفر اورشائقین کو اسٹیدیم تک رسائی کے مشکل پروسس سے گزرنا پڑا، کاروباری طور پر بھی لوگوں کو کافی مشکلات پیش آئیں، ٹریفک پلان ہمہ جہت اور مثالی نہ تھا۔
اگر ایسی ٹائٹ سیکیورٹی میں میچز لاہور میں ہوئے تو کراچی میں بھی اسی معیار کی سیکیورٹی مہیا کرنا دشوار نہ تھا، چنانچہ اس جانب آئندہ سیریز میں مناسب توجہ دی جانی چاہیے۔ ابھی مزید کوششوں کی ضرورت ہے، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا سمیت دیگر ٹیموں کی آمد کی راہ ہموار کرنے کے لیے کرکٹ بورڈ کو مینجمنٹ اور اسٹرٹیجی میں مزید بہتری لانے کے کئی آپشنز پر نظر ڈالنے کا وقت میسر ہے۔ آسٹریلیا کو قائل کرنے کے لیے جادو اثر کرکٹ ڈپلومیسی کے مظاہرہ کا انتظار رہے گا۔
غیر ملکی ٹیموں کو خوف سے آزادی کا احساس دیا ہے، ایک طرف تماشائیوں نے مہمانوں کے دل موہ لیے دوسری جانب عالمی سطح پر دنیا کی تمام بڑی ٹیموں کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ پاکستان کرکٹ کی دنیا میں اب تنہا نہیں، اور کسی بھی غیر ملکی ٹیم کے پاکستان میں آنے اور کھیلنے کے لیے سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں۔
اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ورلڈ الیون کی پاکستان آمد اسپورٹس مین اسپرٹ کی فتح ہے،اور ورلڈ الیون کے تمام کھلاڑی، ٹیم منیجر،کوچ اور دیگر منتظمین سب قابل مبارک باد ہیں، ورلڈ الیون دبئی روانہ ہو گئی ہے اور یقینا کوچ اینڈی فلاور اور کھلاڑی اپنے ساتھ پاکستانی میزبانوں کی مہمان نوازی، وضع داری، مروت اور اسپورٹس مین شپ کی بہترین یادیں لے کر گئے ہیں۔
یہ صرف ایک کرکٹ سیریز نہ تھی بلکہ عالمی کرکٹ پنڈتوں، آئی سی آئی منتظمین، ورلڈ کرکٹ بورڈز اور سپر اسٹار کرکٹرز کو قائل کرنے کی ایک مہم میں ملکی کرکٹ بورڈ اور اس کے انتظام کاروں کی جیت بھی ہے، نجم سیٹھی کی کوششیں رنگ لائیں، آزادی کپ خیرسگالی کا پیغام تھا، اہل وطن کو بھرپور تفریح ملی، قوم نے جشن منایا، کرکٹ سے پاکستان کی جذباتی اور والہانہ وابستگی کی تجدید میں عالمی کھلاڑیوں کی معاونت اور جذبہ سپردگی قابل تحسین ہے۔
جہاں تک پاکستان اور ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں کی پرفارمنس کا تعلق ہے تینوں میچز دلچسپ، سنسنی خیز رہے، دلفریب مرحلے بھی درپیش آئے، اور پاکستانی بلے بازوں اور بولرز نے اپنے جوہر خوب دکھائے۔ بہر حال فاسٹ بولر محمد عامر ورلڈ الیون کے خلاف آزادی کپ میں نہیں کھیل پائے جب کہ بابر اعظم مین آف دی سیریز، احمد شہزاد ہیرو، شعیب ملک شاٹ آف دی میچ، ڈیرن سیمی اسمارٹ بولر، تھشارا پریرا کلر فل جب کہ ''بزرگ کرکٹر'' ہاشم آملا کو سیریز کے متاثر کن پلیئر کا ایوارڈ دیا گیا۔
مصباح الحق اور شاہد آفریدی کی قدر افزائی کی گئی، وہ گراؤنڈ میں شائقین کی داد و تحسین کے سزاوار ٹھہرے۔ قذافی اسٹیڈیم کے اندر اور باہر تماشائیوں کا ریکارڈ رش رہا، تماشائیوں کے فلک شگاف نعروں نے میچ کے دوران سماں باندھے رکھا، فائنل ٹی ٹوئنٹی کے موقع پر ورلڈ الیون اور قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں نجی ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم لایا گیا، اس دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے روٹ کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
آزادی کپ کے سلسلے میں لاہورکے قذافی اسٹیڈیم میں تیسرے اور آخری ٹوئنٹی 20 میچ میں پاکستان کی جانب سے 184 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ورلڈ الیون کی ٹیم8 وکٹوں پر 150 رنز پر ہمت ہار گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کھیلوں کے لیے محفوظ ملک ہے، امید ہے دنیا کی دیگر ٹیمیں بھی پاکستان آئیں گی اور ان کے لیے بھی بہترین انتظامات کیے جائیں گے۔
اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ زمبابوے سیریز، پی ایس ایل فائنل اور اب ورلڈ الیون کے مابین ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پر امن انعقاد سے پوری دنیا کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹ کے انعقاد میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پاکستانی قوم اپنے مہمانوں کو کتنی گرم جوشی سے خوش آمد ید کہتی ہے تاہم بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں کرکٹ بورڈ کو غور کرنا چاہیے اور وہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تینوں میچز کی سیریزکے انعقاد سے متعلق ہیں، بلاشبہ سیریز کامیاب رہی مگر وینیو کی تخصیص اور دیگر صوبوں کے شہروں میں میچز کے انعقادسے گریز نے سوالات اٹھائے۔
اس ضمن میں کراچی اور اس کے نیشنل اسٹیڈیم کو نظر انداز کرنے کی شکایت ٹھوس انداز میں کرکٹ لوورز نے کی، شکایت کنندگان کا استدلال یہ ہے کہ زمبابوے، پی سی ایل اور موجودہ سیریز لاہور میں منعقد ہوئیں جس کے لیے سیکیورٹی نہ صرف غیر معمولی تھی بلکہ بعض حلقوں کے مطابق اس نیشنل ایونٹ کو قلعہ بند انداز میں منعقد کیا گیا، لاہور میں شہریوں کو عام سفر اورشائقین کو اسٹیدیم تک رسائی کے مشکل پروسس سے گزرنا پڑا، کاروباری طور پر بھی لوگوں کو کافی مشکلات پیش آئیں، ٹریفک پلان ہمہ جہت اور مثالی نہ تھا۔
اگر ایسی ٹائٹ سیکیورٹی میں میچز لاہور میں ہوئے تو کراچی میں بھی اسی معیار کی سیکیورٹی مہیا کرنا دشوار نہ تھا، چنانچہ اس جانب آئندہ سیریز میں مناسب توجہ دی جانی چاہیے۔ ابھی مزید کوششوں کی ضرورت ہے، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا سمیت دیگر ٹیموں کی آمد کی راہ ہموار کرنے کے لیے کرکٹ بورڈ کو مینجمنٹ اور اسٹرٹیجی میں مزید بہتری لانے کے کئی آپشنز پر نظر ڈالنے کا وقت میسر ہے۔ آسٹریلیا کو قائل کرنے کے لیے جادو اثر کرکٹ ڈپلومیسی کے مظاہرہ کا انتظار رہے گا۔