کرم ایجنسی میں امریکی ڈرون حملہ
پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے خاصی تشویشناک بات ہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد فاٹا کی کرم ایجنسی میں افغان سرحد کے قریب ڈرون حملہ ہوا ہے جس میں طالبان دور حکومت کے پاکستان میں افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے داماد سمیت 3 افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
اخبارات نے کرم ایجنسی کے پولیٹیکل حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اپرکرم ایجنسی کے سرحدی علاقے میں مولانا محب نامی شخص کے گھر پر ڈرون طیارے نے دو میزائل فائر کیے جس سے گھر تباہ ہو گیا اور اس میں موجود 3 افراد مارے گئے جب کہ ایک زخمی ہوگیا۔ مرنے والوں میں طالبان دور حکومت میں پاکستان میں متعین افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے داماد ملا عصمت ضعیف جو ان کے بھتیجے بھی ہیں شامل ہیں جب کہ باقی دو افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔
بتایا گیا ہے کہ حملہ اس وقت کیا گیا جب یہ لوگ کھانے کی دعوت میں مصروف تھے۔ کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ بصیر خان وزیر کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر میں تصدیق کی گئی ہے کہ ڈرون حملہ مولانا محب نامی شخص کے گھر پر ہی کیا گیا ہے جس میں تین ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ادھر طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا محب حقانی نیٹ سے وابستہ تھے تاہم وہ کوئی زیادہ اہم ممبر نہیں تھے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستانی حدود میں یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ اس سے پہلے جون کے مہینے میں اسپن ٹل کے علاقے میں بھی ڈرون حملہ ہوا تھا جس میں ایک اہم طالبان کمانڈر کے اپنے ساتھی سمیت مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ویسے تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اصل تشویش کی بات یہ ہے کہ حالیہ ڈرون حملوں میں جن افراد کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس سے یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ فاٹا کے علاقوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ناپسندیدہ کے زمرے میں آتے ہیں اور وہ پاکستانی شہری بھی نہیں ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارادوں سے ہمارے پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں۔
ایسے حالات میں پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے خاصی تشویشناک بات ہے۔ پاکستان عرصے سے فاٹا کی مختلف ایجنسیوں میں آپریشن کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود ان علاقوں میں طالبان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو فاٹا میں مسلسل آپریشن جاری رکھنا چاہیے اور یہاں موجود ایسے عناصر کا خاتمہ کرنا چاہیے جو پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اخبارات نے کرم ایجنسی کے پولیٹیکل حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اپرکرم ایجنسی کے سرحدی علاقے میں مولانا محب نامی شخص کے گھر پر ڈرون طیارے نے دو میزائل فائر کیے جس سے گھر تباہ ہو گیا اور اس میں موجود 3 افراد مارے گئے جب کہ ایک زخمی ہوگیا۔ مرنے والوں میں طالبان دور حکومت میں پاکستان میں متعین افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے داماد ملا عصمت ضعیف جو ان کے بھتیجے بھی ہیں شامل ہیں جب کہ باقی دو افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔
بتایا گیا ہے کہ حملہ اس وقت کیا گیا جب یہ لوگ کھانے کی دعوت میں مصروف تھے۔ کرم ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ بصیر خان وزیر کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر میں تصدیق کی گئی ہے کہ ڈرون حملہ مولانا محب نامی شخص کے گھر پر ہی کیا گیا ہے جس میں تین ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ادھر طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا محب حقانی نیٹ سے وابستہ تھے تاہم وہ کوئی زیادہ اہم ممبر نہیں تھے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستانی حدود میں یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ اس سے پہلے جون کے مہینے میں اسپن ٹل کے علاقے میں بھی ڈرون حملہ ہوا تھا جس میں ایک اہم طالبان کمانڈر کے اپنے ساتھی سمیت مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ویسے تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اصل تشویش کی بات یہ ہے کہ حالیہ ڈرون حملوں میں جن افراد کے مارے جانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس سے یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ فاٹا کے علاقوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ناپسندیدہ کے زمرے میں آتے ہیں اور وہ پاکستانی شہری بھی نہیں ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارادوں سے ہمارے پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں۔
ایسے حالات میں پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے خاصی تشویشناک بات ہے۔ پاکستان عرصے سے فاٹا کی مختلف ایجنسیوں میں آپریشن کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود ان علاقوں میں طالبان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو فاٹا میں مسلسل آپریشن جاری رکھنا چاہیے اور یہاں موجود ایسے عناصر کا خاتمہ کرنا چاہیے جو پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔