گھر کی صفائی

ویسے اپنے گھر کو صاف کرنا یا صاف رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے گھر تو بہر حال صاف ہونا ہی چاہیے


عثمان دموہی September 17, 2017
[email protected]

چینی وزارت خارجہ اور چینی سفیر کی وضاحتوں کے علاوہ خود برکس کے اعلامیے سے یہ بات واضح ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے پاکستان کو لشکر طیبہ، جیش محمد یا حقانی گروپ کا نہ مرکز قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر کو صاف کرے۔

اب یہ اور بات ہے کہ ہمارے نئے وزیر خارجہ خواجہ آصف اس اعلامیے کو ٹرمپ کی دھمکی جیسا سمجھ کر بے ساختہ بول اٹھے ہیں کہ ہمیں اپنے گھر کو صاف کرنا ہوگا۔ ویسے اپنے گھر کو صاف کرنا یا صاف رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے گھر تو بہر حال صاف ہونا ہی چاہیے مگر کیا وہ بتاسکتے ہیں کہ ان کی حکومت گزشتہ سوا چار سال کیا کرتی رہی ہے؟

اس طویل عرصے میں گھر کو صاف کرنے کی کیوں زحمت نہیں کی گئی اب انھیں اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب یہ اہم بات یاد آرہی ہے اور یہ غلطی ستارہی ہے۔ وہ شاید بھول گئے کہ ان کی ہی حکومت نے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے پہلے '' ضرب عضب'' آپریشن اور اس کے بعد '' ردالفساد'' آپریشن کا اہتمام کیا تھا اور خود آپ کی حکومت ان دونوں آپریشنز کو کامیاب ترین قرار دے رہی ہے اور اس میں صداقت بھی ہے کہ ملک دہشت گردی کے بھنور سے آزاد ہوچکا ہے اور اب ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں اکا دکا ہی رہ گئی ہیں مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اندر کی بات تو اہل اقتدار ہی بہتر جانتے ہیں ہوسکتا ہے وہ دہشت گردی جو عوام کی نظر سے اوجھل ہو مگر ان کو نظر آرہی ہو۔

ملک میں امن وامان قائم رکھنا اور دہشتگردوں کی سرکوبی کرنا وزارت داخلہ کی ذمے داری ہوتی ہے مگر اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ پورے نواز دور میں اس وزارت کی کارکردگی وزارت خارجہ کی طرح واجبی سی ہی رہی ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہماری عسکری قیادت کا کہ اس نے آگے بڑھ کر دہشتگردوں کے دانت کھٹے کردیے اپنے سیکڑوں جوانوں کا لہو دے کر وطن عزیز کو دہشتگردی کے عذاب سے نکال لیا۔

اب اس وقت بعض سابق وزرا حکومت سے بالکل باہر رہ کر کھل کر شریف خاندان کی غلطیوں پر روشنی ڈال رہے ہیں اور صاف صاف بتارہے ہیں کہ نواز شریف ان سے مشاورت کرنے کے بجائے دوسرے وزیروں سے مشاورت کرکے ہی پاناما لیکس میں پھنس گئے ان کا میاں صاحب کو اب یہ مشورہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ذرا آواز نہ اٹھائیں اور خاموشی سے صبر شکر کے ساتھ سزا بھگتنے کی تیاری کریں کیونکہ ان کی نظر میں شریف فیملی کی غلطیاں اتنی شدید ہیں کہ اب انھیں کوئی نہیں بچاسکتا۔

یہی بات تو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ اب نواز شریف کو کوئی نہیں بچاسکے گا تو پھر اپنے اور پرائے میں کیا فرق ہوا۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ میاں صاحب کے بارے میں تو بہت کچھ سوچ رہے ہیں اور کہہ بھی رہے ہیں مگر خود اپنے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ ان کے سر پر بھی تو آئین کی 62 اور 63 شقوں کی برہنہ تلواریں لٹک رہی ہیں وہ بھی کئی کیسز میں پھنسے ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ میں ان پر نا اہلی کا مقدمہ بھی چل رہا ہے جس میں وہ عدالت کو مطلوب ضروری کاغذات دینے میں پس و پیش کررہے ہیں الیکشن کمیشن سے وہ کھلی کھلواڑ کررہے ہیں اسے خاطر میں ہی نہیں لارہے ہیں ادھر شہباز شریف نے ان پر اربوں روپے کے ہرجانے کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس میں وہ پیشیوں پر ہی حاضر نہیں ہورہے ایک کورٹ نے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری بھی نکالے ہوئے ہیں لیکن انھیں اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ وہ میاں صاحب کے معاملے میں ضرور عدالتوں کو اہمیت دیتے ہیں اور انھیں ان کے حکم پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر خود اپنے معاملے میں عدالتوں کو کوئی فوقیت نہیں دیتے جب ان کا ابھی سے یہ حال ہے تو وہ اقتدار سنبھال کرکیا کریںگے؟ مگر خان صاحب میں ایک خوبی ضرور موجود ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کے اعتراف کا حوصلہ بدرجہ اتم رکھتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں انھوں نے اعتراف کرلیا ہے کہ شکر ہے کہ انھیں وفاقی حکومت نہیں ملی ورنہ اس کا بھی خیبر پختونخوا جیسا حال ہوجاتا ان کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے انھیں ایک سال تک تو حکومت کے معاملات اور انھیں چلانے کے طریقوں کا ہی پتا نہیں چلا۔ اب ان کی اس سادگی اور بھولے پن کو کیا کہا جائے کہ شوق حکمرانی تو ہے مگر تجربہ یا اہلیت نہیں ہے چنانچہ لوگ درست ہی کہتے ہیں کہ نا تجربہ کار خان صاحب کو اب ہمیشہ ہی حزب اختلاف میں رہنا چاہیں کیونکہ وہ شاید حکومت تو سنبھال نہ سکیں البتہ قائد حزب اختلاف کا کردار زبردست طریقے سے ادا کرسکتے ہیں۔

حزب اختلاف میں رہتے ہوئے انھوں نے میاں صاحب کی حکومت کا جو حال بنایا ہے اس نے انھیں مثالی اپوزیشن لیڈر بنادیا ہے ان کی ہی کرشمہ سازی کی وجہ سے میاں صاحب کی حکومت پاناما کی دلدل میں پھنسی اور پھنستی ہی چلی گئی حتیٰ کہ غائب ہوگئی۔ خان صاحب بھی خوب آدمی ہیں کہ ان کے پاس ثبوت نہ بھی ہوں تو اپنے مخالف کو ثبوت فراہم کرنے پر مجبور کردیتے ہیں یہ اور بات ہے کہ اپنے معاملے میں ضرور مخالف فریق سے ثبوتوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انھوں نے میاں صاحب پر کرپشن کے ان دیکھے الزمات لگائے اور پھر وہ آہستہ آہستہ سچ جیسی شکل اختیار کرتے گئے۔

میاں صاحب پر الزامات کی ابتدا انھوں نے الیکشن میں دھاندلی سے شروع کی تھی الیکشن میں دھاندلی کے بارے میں جب عدالت نے ثبوت مانگے تو انھوں نے صاف کہا کہ ثبوت ان کے پاس نہیں ہیں۔ ووٹوںکے تھیلے کھول لو ثبوت ان میں موجود ہیں۔ تھیلوں میں تو کوئی ثبوت نہ مل سکے مگر وہ پھر بھی دھاندلی کے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوئے پاناما لیکس میں بھی ان کا ثبوتوں کے بغیر الزام لگانے کا فلسفہ کامیاب رہا کیونکہ لندن کے فلیٹس خریدنے کے ثبوت شریف خاندان اب تک واضح طور پر پیش نہیں کرسکا ہے تو دراصل خان صاحب کی نا تجربے کاری ہی دراصل ان کی کامیابی کی دلیل بن گئی ہے۔

اب اس وقت وہ ہر شہر کو اپنے جلسوں کے ذریعے فتح کرنے میں لگے ہوئے ہیںمگر افسوس کہ ایک بھی ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ کاش کہ خان صاحب اپنے جلسوں میں نوجوانوں کے جم غفیر پر فخر کرنے کے بجائے ووٹرز پر دھیان مرکوز کرتے اور تبدیلی کو حقیقت بناتے تو آج کے پی کے میں ڈینگی کے مریضوں کا علاج کرنے مسلم لیگ ن والے نہ آتے۔

اب جہاں تک خواجہ آصف کے بیان کا تعلق ہے تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جاری کامیاب مہم جوئی کو جھٹکا لگانے کے علاوہ ٹرمپ کی دھمکی کو بھی تقویت ملی ہے اور شاید اسی لیے امریکا کی جانب سے دوبارہ ڈومور کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کو برکس اعلامیے سے ہرگز گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوںکہ لگتا ہے چینی حکومت نے ڈوکلام میں بھارتی فوجوں کے غیر مشروط طور پر پیچھے ہٹنے پر بھارت کو خوش کرنے کے لیے اعلامیے میں لشکرطیبہ، جیش محمد اور حقانی گروپ کے نام شامل کیے ہیں۔ تاہم ان گروپس کا تعلق نہ تو پاکستان سے جوڑا گیا ہے اور نہ ہی پاکستان کو ان کے خلاف اقدام کرنے کی کوئی تلقین کی گئی ہے پاکستان تو پہلے ہی ان تمام گروپس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

پاکستان کی اصل تشویش اس طرح بھی رفع ہوجاتی ہے کہ چین نے اقوام متحدہ میں مسعود اظہر پر بھارتی الزام کو ویٹو کرنے کا بھی اعادہ کیا ہے۔ اعلامیے پر شک و شبہ کرنا چور کی داڑھی میں تنکا جیسا معاملہ ہوگا تاہم چینی حکومت کا بھارت کو خوش کرنے کا پاکستان کے لحاظ سے یہ صحیح وقت نہیں تھا کیونکہ ابھی چند دن قبل ہی ٹرمپ نے ان ہی گروپس کو پاکستان پر اپنے ہاں پناہ دینے کا الزام لگایا ہے چنانچہ برکس اعلامیے نے ٹرمپ اور مودی گٹھ جوڑ کو ضرور تقویت بخشی ہوگی اور یہ صورت حال پاکستان کے لیے نئے مسائل پیدا کرسکتی ہے ایک سوال یہ ہے کہ جب چین پاکستان کو اپنا اسرائیل کہتا ہے تو پھر اسے پاکستان کی ویسی ہی دل جوئی کرنا چاہیے جیسے کہ امریکا اسرائیل کی کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں