ایثار کی کہانی

ایک قربانی حضرت یونس نے بھی دی تھی جس کا ذکر قرآنی تعلیم میں موجود ہے

nasim.anjum27@gmail.com

ISLAMABAD:
جب سے دنیا آباد ہوئی ہے ایثار کی کہانی قدم سے قدم ملا کر ساتھ چل رہی ہے۔ ان تمام کہانیوں میں ایثار و قربانی کی ایک بڑی کہانی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی ہے اور جن کی یاد میں قربانی کی جاتی ہے اور منیٰ کے میدان میں شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں چونکہ حضرت ابراہیمؑ نے شیطان کو کنکریاں اس وقت ماری تھیں جب اس نے آپ کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کو ورغلانے کی کوشش کی تھی کہ تمہارا باپ تمہیں ذبح کرنے کے لیے لے جا رہا ہے۔

حضرت اسماعیلؑ ذبیح اللہ نے شیطان لعین سے کہا کہ کبھی باپ بھی اپنے بیٹے کو بے گناہ مارتا ہے تم نے کبھی ایسا سنا ہے، یہ جواب سن کر ابلیس نے حضرت اسماعیلؑ سے کہا کہ اس کو تو یہ حکم خدا نے دیا ہے کہ وہ آج اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کردے۔ حضرت اسماعیل نے جواب دیا کہ یہ حکم اگر اللہ نے دیا ہے تو پھر ہزار جان بھی میری اللہ کی راہ میں فدا ہوں اور میں بخوشی اللہ کی راہ میں قربان ہونا چاہتا ہوں۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے پدر بزرگوار سے کہا بابا ! جلدی چلیں اور مجھے اللہ کی راہ میں قربان کردیں، ایسا نہ ہو کہ شیطان ہم کو صحیح راستے سے بھٹکا دے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ اس لعین پر پتھر مارو، تب باپ اور بیٹے نے اس شیطان مردود پر پتھر مارے۔ اس واقعے کے بعد حاجی سنت ابراہیم ادا کرتے ہیں اور حج کے دنوں میں اس پر پتھر مارے جاتے ہیں اور اسی جگہ حجاج کرام قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

ایک قربانی حضرت یونس نے بھی دی تھی جس کا ذکر قرآنی تعلیم میں موجود ہے کہ جب حضرت یونسؑ اپنی قوم کی نافرمانی اور کفر سے تنگ آگئے تب آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے بد دعا کی تو ندا آئی اے یونس! عذاب طلب کرنے میں جلدی مت کرو، جب وقت آئے گا اس قوم پر عذاب نازل کردیا جائے گا۔ یہ سنتے ہی حضرت یونسؑ اپنے اس شہر سے اپنی قوم کو چھوڑ کر با رضا الٰہی چل دیے۔ راہ میں ایک ندی آئی ایک بیٹے کو کنارے پر چھوڑا، بیوی کا ہاتھ پکڑا، دوسرے بیٹے کو کاندھے پر بٹھایا اور دریا عبور کرنے لگے، لیکن اسی دوران ندی نے زور پکڑا تو بیوی کا ہاتھ چھوٹ گیا اور بیٹا کاندھے سے پھسل کر پانی میں گر گیا، دوسرے بچے کو دیکھنے کنارے پر آئے تو پتا چلا کہ بیٹے کو بھیڑیا کھا گیا۔ ان حالات کے بعد دل گرفتہ ہوکر شہر پہنچے تو قوم کے لوگ حسب عادت ان کا مذاق اڑانے لگے۔

حضرت یونسؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ تین دن بعد تم پر عذاب آجائے گا، قوم کو عذاب کی اطلاع دے کر شہر سے دور چلے گئے اسی پریشانی میں وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے، عذاب آنے کے باوجود شیطان نے حضرت یونسؑ کو ورغلایا کہ عذاب نہیں آیا، قوم بالکل خیریت سے ہے، یہ سن کر شرمندگی محسوس کر رہے تھے کہ لوگ انھیں جھوٹا قرار دیں گے۔ پریشان کن سوچیں غالب تھیں کہ اسی اثنا میں کشتی دریا کے بیچ میں جاکر ہچکولے کھانے لگی، یہ کیفیت دیکھ کر کشتی سواروں نے کہا کہ کسی کا غلام اس کشتی میں سوار ہے جو اپنے مالک سے خفا ہوکر بھاگا ہے، لہٰذا قرعہ اندازی کی گئی، قرعہ اندازی میں بار بار حضرت یونسؑ کا نام نکلتا رہا، لوگ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے کہ اس قدر نورانی چہرے والا شخص ایسا کس طرح کرسکتا ہے۔ ان کے منع کرنے کے باوجود حضرت یونسؑ نے ان سب کو بچانے کے لیے اپنی قربانی دینی پسند کی اور راضی بہ رضا اپنے آپ کو دریا کے حوالے کردیا۔

اسی طرح حضرت یوسفؑ اور حضرت ایوبؑ کی ایثار و قربانی بھی اہل دنیا کے سامنے ہیں، حضرت یوسفؑ کے سوتیلے بھائیوں نے طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے کنوئیں میں لٹکایا گیا، قافلے والوں کو کم دام میں بیچا گیا، بازار مصر میں فروخت کیے گئے اور جب سلطنت ملی تو اپنے سوتیلے بھائیوں کے قصور معاف کیے اور گلے لگا لیا۔


اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنے عیش و آرام، مال و دولت کی قربانی دے کر اللہ کا قرب چاہا، آپؑ ملک شام سے تعلق رکھتے تھے، بے حد قانع اور صابر تھے اتنے صابر کہ جسم میں بیماری کے سبب کیڑے پڑ گئے، آپ نے اف نہ کی، ان کا معمول تھا کہ روزانہ دس مسکینوں کو پہلے کھانا کھلاتے پھر خود کھانا تناول فرماتے، اسی طرح جب وہ اپنے لیے کپڑے بناتے تو پہننے سے قبل دس مساکین کے لیے کپڑوں کا انتظام کرتے پھر خود پہنتے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو فرزند، دولت، عیش و آرام سے نوازا تھا، شیطان نے راہ راست سے ہٹانے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کیے اور اللہ سے کہا کہ تیرا بندہ جو تیری اتنی عبادت کرتا ہے، وہ محض تیری مہربانیوں کی وجہ سے ہے۔ لیکن میں اس کو گمراہ کرنا چاہتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دے دی، لیکن شیطان لعین حضرت ایوبؑ کے معاملے میں کامیاب نہ ہوسکا۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ حضرت ایوب علیہ السلام مال و زر اور اولاد پانے کے عوض عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے ہیں، اللہ رب العزت نے فرشتوں سے کہا کہ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ تو خالصتاً میرے لیے ہی شکرانے کے طور پر عبادت کرتا ہے، یاد رکھو حالت فقیری میں بھی وہ اس سے کہیں زیادہ عبادت کرے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، حکم خدا وندی مال و اسباب، اولاد سب کچھ ختم ہوگیا، بیویوں نے ساتھ چھوڑ دیا لیکن ایک بیوی رحیمہ ان کے دکھ درد میں شریک رہیں، اپنا چین آرام اپنے نیک اور صابر شوہر پر قربان کردیا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر، ایثار اور عبادت کی وجہ سے اللہ رب العزت نے انھیں صحت و سلامتی عطا فرمائی اور انھیں مال و دولت بھی عطا فرمادی۔

ایثار کی کہانی اپنے اندر بے پناہ وسعت اور طوالت رکھتی ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک ایثار کا مکمل طور پر نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہو یا فتح مکہ کی عظیم ترین کامیابی یا پھر جنگ بدر، جنگ خندق کے واقعات ہوں، عائلی زندگی ہو، ہر مقام اور ہر موقعے پر ایثار و قربانی کے بے مثال واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں۔

امہات المومنین سے شادیوں کے مواقعوں پر بھی آپ بیوہ، پریشان حال اور مظلوم خواتین سے عقد کرتے ہیں، جو آپ سے عمر میں بھی زیادہ ہیں، حسن و خوبصورتی میں بھی لاثانی نہیں، حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بھی آپ سے عمر میں 15 سال بڑی تھیں، عائشہ صدیقہؓ کا واقعہ اس کے برعکس ہے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے حضرت عائشہؓ سے نکاح کا تحفہ خاص تھا۔ اسی طرح فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایثار کا نادر نمونہ پیش کیا اپنے اور اپنے خاندان کے جانی دشمنوں تک کو معاف کردیا۔

صحابہ کرام نے اس روایت کو برقرار رکھا، جنگ بدر و احد اور دوسرے مواقعوں پر جان و مال، غرض ہر طرح سے مددگار ثابت ہوئے۔ واقعہ کربلا نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اور حق و صداقت کی جنگ نے باطل کو پاش پاش کردیا، سچائی کی خاطر بچے بڑے سب شہید ہوگئے۔ اس سے بڑا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان صعوبتوں اور اذیتیوں کو برداشت اور صبر و شکر کا جام پیتا شہادت کی منزل کو پہنچا۔ ایثار کے اس عظیم واقعے کو زندہ کردیا۔

ہر سال عیدالاضحی آتی ہے ہم سب بڑے اہتمام اور عقیدت کے ساتھ سنت ابراہیم کی ادائیگی کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس قربانی میں دکھاوا، نام و نمود اور دولت پیسے کی نمائش شامل ہوجائے، تب ایسی قربانی کیا قبولیت کے درجے پر پہنچ سکتی ہے؟ اس بار تو اس سے بھی زیادہ برا ہوا اور سنت ابراہیم کے ساتھ نعوذ باللہ گویا مذاق کیا گیا اور جس ناچ گانے کو اسلام نے منع فرمایا وہی گانے اور رقص قربانی کے جانوروں کی نمائش کے وقت کیے گئے یوں لگتا تھا کہ تھیٹر یا اسٹیج شو شروع ہوگیا، مرنے والے اداکاراؤں اور رقاصاؤں کے رقص دیکھ کر چند ثانیوں کے لیے مر ہی گئے، کم ازکم یہ تو دیکھ لیا کریں کہ موقعہ کون سا ہے، بہرحال یہ بھی ایک عزت و آبرو کی قربانی تھی، جس کا حال دنیا نے دیکھا۔
Load Next Story