رونق جہاں آرائش زماں
یہ عقل مند اور ہوشیار ہی ہیں جو بار بار لگاتار اس دنیا کو جہنم بنانے پر تلے رہتے ہیں
کسی حیدرآبادی یا لکھنوی نواب کا قول نمکین ہے کہ دنیا میں اگر بگھارے بینگن نہ ہوتے تو زندگی بڑی کٹھن ہو جاتی، ممکن ہے یہ وہی نواب ہوں جن کے بارے میں بینگن کا وہ مشہور قصہ مشہور ہوا ہے کہ ایک دن نواب نے بینگن کی تعریف کی تو سارے مصاحبین بینگن کی قصیدہ خوانی میں رطب اللسان ہو گئے پھر دوسرے دن نواب صاحب نے بینگن کی برائی کی تو مصاحبین ایک دوسرے سے بڑھ کر بینگن کی ہجوپر اُتر آئے، اس دلیل کے ساتھ کہ ہم تو بینگن کے نوکر نہیں نواب صاحب کے نوکر ہیں۔
لیکن ہم نے یہ بات بینگنوں کا ذکر کرنے کے لیے شروع نہیں کی ہے کیونکہ ہم بھی بینگن کے نوکر نہیں ہیں بلکہ ایک دوسری چیز کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے جو ہو بہو بینگن کے مشابہ ہوتے ہیں اور نواب صاحب کے مقابل ہمارا قول زرین ہے کہ دنیا میں اگر ''احمق'' نہ ہوتے تو دنیا کٹھن ہی نہیں بالکل بیکار ہو جاتی خاص طور پر ہوشیار اور عقل مند لوگ تو بھوکوں مرجاتے بلکہ اس دنیا کا ککھ بھی نہ بچتا نہ یہ محل ہوتے نہ بڑے بڑے لوگ ہوتے نہ کارخانے ہوتے نہ شہر نہ سڑکیں، بازار اور نہ ساری گہما گہمی ہوتی خاص طور پر سیاست کے بازار میں تو اُلّو بولنے لگتا۔ ویسے اُلّو تو اب بھی بولتے ہیں بلکہ پٹھے بھی ساتھ میں بولتے ہیں، ایک دن ہمارے گاؤں کے ایک بینگن نے وڈیرے سے کہا تھا کہ شکر کرو کہ ہم احمق ہیں ورنہ تمہیں وڈیرا کون کہتا۔
اگر اس دنیا کی پوری ساخت، تاریخ جغرافیہ اور ویئر اباؤٹ پر غور کیا جائے تو آپ کو ایک طویل کش مکش دکھائی دے گی، احمقوں اور عقل مندوں کے درمیان۔ یہ عقل مند اور ہوشیار ہی ہیں جو بار بار لگاتار اس دنیا کو جہنم بنانے پر تلے رہتے ہیں اور یہ احمق ہی ہیں جو عقل مندوں کی کوشش کو ناکام بناکر جنت بنائے ہوئے ہیں۔
اس سارے فساد کی جڑ وہ عقل مند تھا جس نے سب سے پہلے پتھر کو تراش کر ہتھیار بنایا، رشتے میں وہ اس شخص کا جد امجد تھا جس نے یہ خاندانی روایت ایٹم بم تک پہنچائی۔ کیونکہ جدامجد نے پتھر کو تراشتے ہوئے آگ بھی ایجاد یا دریافت کرلی تھی اور پھر اس آگ کی مدد سے تانبے لوہے وغیرہ کے ہتھیار بنائے، بارود بنایا اور اب۔
خیر عقل مندوں کو مارئیے گولی ہم احمقوں کی بات کرنا چاہتے ہیں جو اس دنیا کی رونق ہیں، رنگ وبو ہیں بلکہ روح رواں ہیں ۔
بمبئی بلکہ اب موم بائی میں گنیش کا ایک مندر ہے جسے بمبئی کا راجہ کہتے ہیں۔ اس مندر کی دان بیٹی میں ہر گنیش کی تہوار پر نقدی کے علاوہ اتنا سونا چڑھایا جاتا ہے جو سیروں کے بجائے منوں میں ہوتا ہے اور گنیش کا یہ مندر حکومت کو بھی قرضہ دیتا ہے،یہ اتنا سونا اور اتنی نقدی کہاں سے آتی ہے اس عظیم الشان کان سے جو سونے ہی کی نہیں بلکہ ہر چیز کی کان ہے یعنی احمق العالم، بے وقوف اعظم ، جاہل الزمان، دردران، معدن جہان، سرچشمۂ ہرساز و سامان۔
کیا خیال ہے یہ لیڈر یہ بادشاہ یہ ہیرو اور عظیم و اعظم لوگ کیا ہوتے ہیں کچھ بھی نہیں اگر احمقوں کی بھیڑ ان سے دور پرے کی جائے تو
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذت درد
کام یاروں کا بقدر لب و دندان نکلا
یہی دل ''حسرت زدہ'' جو خود تو ہمیشہ حسرت زدہ ہی رہتا ہے لیکن عقل مندوں کی ''حسرتیں'' جی بھر کر نکالنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
یہی وہ احمق ہوتے ہیں جو بولیں تو بھی بڑے بڑے ہیرو بنا دیتے ہیں اور نہ بولیں تو بھی بڑے بڑے ''ظالم'' وجود میں آجاتے ہیں۔ دور جدید کے ایک دانا و بینا دانشور نے کہا ہے کہ اگر دنیا کو شیطانوں سے خالی کرنا ہو تو ان معصوم فرشتوں کو ختم کردیں، ظالم خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ دنیا میں یہ جو ''تھپڑوں'' کی آوازیں لگا تار سنائی دے رہی ہیں یہ ''ہاتھوں'' کی وجہ سے نہیں آرہی ہیں ہاتھ تو اکیلے اکیلے ہوا میں ہزار بار گھمائیے ہلائیے آواز پیدا نہیں کر سکتا جب تک کوئی منہ، کوئی گال اور کوئی چہرہ اس کی مدد نہیں کرتا۔
اس موقع پر ہم اس مشہور قول زرین پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی تمہیں ایک تھپڑ مارے تو اس کی سہولت کے لیے دوسرا گال بھی آگے کردو کیونکہ ایسے اقوال زرین بزرگوں کے ہوتے ہیں اور فارسی والوں نے پابندی لگائی ہوئی ہے کہ خطائے بزرگان گرفتن خطاست یعنی بزرگوں کی غلطی پکڑنا غلطی ہے، ٹھیک بھی ہے کہ اگر بزرگوں کی غلطیاں پکڑ نا شروع ہو جائیں تو پھر احمق کیسے پیدا ہوں گے اور احمق پیدا نہیں ہوں گے تو ہوشیار کھائیں گے کہاں سے۔
کبھی کبھی جب ہم کرکٹ کا کھیل دیکھتے ہیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ان انگریزوں نے کیا کمال کا کھیل ایجاد کیا ہوا ہے کہ پوری دنیا اور انسانی تاریخ کو ایک استعارے میں بیان کیا ہے کہ صرف ایک گیند ہوتی ہے جو عقل مندوں کو کھلاتی ہے اور بے وقوفوں سے کھلواتی ہے۔
یہ دھرنے، یہ جھرنے، یہ بنی گالے، یہ رائے ونڈ،یہ بلاول ہاؤسز، یہ اکرام آباد انعام آباد یہ وائٹ ہاؤس، یہ 10ڈاؤننگ اسٹریٹ، یہ بڑے بڑے ہاؤسز پیلس، یہ پانامے پاجامے کچھ بھی نہ رہیں اگر اس سنگ پارس، اس گیدڑ سنگی، اس عمر عیار کی زنبیل اس امرت دھارے ''احمق'' کا خاتمہ کردیا جائے۔
کسی بزرگ کا یہ قول کتنا حقیقت پسندانہ ہے کہ میں نے عقل بیوقوفوں سے سیکھی ہے گویا باقی سب کچھ کے ساتھ ساتھ عقل مندوں کی عقل بھی احمقان عالم کی دین ہے، پس ثابت ہوا کہ اس دنیا کا سارا رنگ وروغن تام جھام اور رونق اس گل''سرسبد''کی برکت سے ہے اسی لیے تو حکومتیں انتہائی احتیاط منصوبہ بندی اور ذہانت سے اس کی پالن پوس کرتی ہیںکہ یہ بانس نہ رہے توکوئی بھی بانسری بج کرنہ دے، مزے کی بات یہ ہے کہ ان پر کچھ خرچہ بھی نہیں آتاچند نعرے چند ترانے دعوے اور وعدے ہی کافی ہوتے ہیں۔
لیکن ہم نے یہ بات بینگنوں کا ذکر کرنے کے لیے شروع نہیں کی ہے کیونکہ ہم بھی بینگن کے نوکر نہیں ہیں بلکہ ایک دوسری چیز کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے جو ہو بہو بینگن کے مشابہ ہوتے ہیں اور نواب صاحب کے مقابل ہمارا قول زرین ہے کہ دنیا میں اگر ''احمق'' نہ ہوتے تو دنیا کٹھن ہی نہیں بالکل بیکار ہو جاتی خاص طور پر ہوشیار اور عقل مند لوگ تو بھوکوں مرجاتے بلکہ اس دنیا کا ککھ بھی نہ بچتا نہ یہ محل ہوتے نہ بڑے بڑے لوگ ہوتے نہ کارخانے ہوتے نہ شہر نہ سڑکیں، بازار اور نہ ساری گہما گہمی ہوتی خاص طور پر سیاست کے بازار میں تو اُلّو بولنے لگتا۔ ویسے اُلّو تو اب بھی بولتے ہیں بلکہ پٹھے بھی ساتھ میں بولتے ہیں، ایک دن ہمارے گاؤں کے ایک بینگن نے وڈیرے سے کہا تھا کہ شکر کرو کہ ہم احمق ہیں ورنہ تمہیں وڈیرا کون کہتا۔
اگر اس دنیا کی پوری ساخت، تاریخ جغرافیہ اور ویئر اباؤٹ پر غور کیا جائے تو آپ کو ایک طویل کش مکش دکھائی دے گی، احمقوں اور عقل مندوں کے درمیان۔ یہ عقل مند اور ہوشیار ہی ہیں جو بار بار لگاتار اس دنیا کو جہنم بنانے پر تلے رہتے ہیں اور یہ احمق ہی ہیں جو عقل مندوں کی کوشش کو ناکام بناکر جنت بنائے ہوئے ہیں۔
اس سارے فساد کی جڑ وہ عقل مند تھا جس نے سب سے پہلے پتھر کو تراش کر ہتھیار بنایا، رشتے میں وہ اس شخص کا جد امجد تھا جس نے یہ خاندانی روایت ایٹم بم تک پہنچائی۔ کیونکہ جدامجد نے پتھر کو تراشتے ہوئے آگ بھی ایجاد یا دریافت کرلی تھی اور پھر اس آگ کی مدد سے تانبے لوہے وغیرہ کے ہتھیار بنائے، بارود بنایا اور اب۔
خیر عقل مندوں کو مارئیے گولی ہم احمقوں کی بات کرنا چاہتے ہیں جو اس دنیا کی رونق ہیں، رنگ وبو ہیں بلکہ روح رواں ہیں ۔
بمبئی بلکہ اب موم بائی میں گنیش کا ایک مندر ہے جسے بمبئی کا راجہ کہتے ہیں۔ اس مندر کی دان بیٹی میں ہر گنیش کی تہوار پر نقدی کے علاوہ اتنا سونا چڑھایا جاتا ہے جو سیروں کے بجائے منوں میں ہوتا ہے اور گنیش کا یہ مندر حکومت کو بھی قرضہ دیتا ہے،یہ اتنا سونا اور اتنی نقدی کہاں سے آتی ہے اس عظیم الشان کان سے جو سونے ہی کی نہیں بلکہ ہر چیز کی کان ہے یعنی احمق العالم، بے وقوف اعظم ، جاہل الزمان، دردران، معدن جہان، سرچشمۂ ہرساز و سامان۔
کیا خیال ہے یہ لیڈر یہ بادشاہ یہ ہیرو اور عظیم و اعظم لوگ کیا ہوتے ہیں کچھ بھی نہیں اگر احمقوں کی بھیڑ ان سے دور پرے کی جائے تو
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذت درد
کام یاروں کا بقدر لب و دندان نکلا
یہی دل ''حسرت زدہ'' جو خود تو ہمیشہ حسرت زدہ ہی رہتا ہے لیکن عقل مندوں کی ''حسرتیں'' جی بھر کر نکالنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
یہی وہ احمق ہوتے ہیں جو بولیں تو بھی بڑے بڑے ہیرو بنا دیتے ہیں اور نہ بولیں تو بھی بڑے بڑے ''ظالم'' وجود میں آجاتے ہیں۔ دور جدید کے ایک دانا و بینا دانشور نے کہا ہے کہ اگر دنیا کو شیطانوں سے خالی کرنا ہو تو ان معصوم فرشتوں کو ختم کردیں، ظالم خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ دنیا میں یہ جو ''تھپڑوں'' کی آوازیں لگا تار سنائی دے رہی ہیں یہ ''ہاتھوں'' کی وجہ سے نہیں آرہی ہیں ہاتھ تو اکیلے اکیلے ہوا میں ہزار بار گھمائیے ہلائیے آواز پیدا نہیں کر سکتا جب تک کوئی منہ، کوئی گال اور کوئی چہرہ اس کی مدد نہیں کرتا۔
اس موقع پر ہم اس مشہور قول زرین پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی تمہیں ایک تھپڑ مارے تو اس کی سہولت کے لیے دوسرا گال بھی آگے کردو کیونکہ ایسے اقوال زرین بزرگوں کے ہوتے ہیں اور فارسی والوں نے پابندی لگائی ہوئی ہے کہ خطائے بزرگان گرفتن خطاست یعنی بزرگوں کی غلطی پکڑنا غلطی ہے، ٹھیک بھی ہے کہ اگر بزرگوں کی غلطیاں پکڑ نا شروع ہو جائیں تو پھر احمق کیسے پیدا ہوں گے اور احمق پیدا نہیں ہوں گے تو ہوشیار کھائیں گے کہاں سے۔
کبھی کبھی جب ہم کرکٹ کا کھیل دیکھتے ہیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ان انگریزوں نے کیا کمال کا کھیل ایجاد کیا ہوا ہے کہ پوری دنیا اور انسانی تاریخ کو ایک استعارے میں بیان کیا ہے کہ صرف ایک گیند ہوتی ہے جو عقل مندوں کو کھلاتی ہے اور بے وقوفوں سے کھلواتی ہے۔
یہ دھرنے، یہ جھرنے، یہ بنی گالے، یہ رائے ونڈ،یہ بلاول ہاؤسز، یہ اکرام آباد انعام آباد یہ وائٹ ہاؤس، یہ 10ڈاؤننگ اسٹریٹ، یہ بڑے بڑے ہاؤسز پیلس، یہ پانامے پاجامے کچھ بھی نہ رہیں اگر اس سنگ پارس، اس گیدڑ سنگی، اس عمر عیار کی زنبیل اس امرت دھارے ''احمق'' کا خاتمہ کردیا جائے۔
کسی بزرگ کا یہ قول کتنا حقیقت پسندانہ ہے کہ میں نے عقل بیوقوفوں سے سیکھی ہے گویا باقی سب کچھ کے ساتھ ساتھ عقل مندوں کی عقل بھی احمقان عالم کی دین ہے، پس ثابت ہوا کہ اس دنیا کا سارا رنگ وروغن تام جھام اور رونق اس گل''سرسبد''کی برکت سے ہے اسی لیے تو حکومتیں انتہائی احتیاط منصوبہ بندی اور ذہانت سے اس کی پالن پوس کرتی ہیںکہ یہ بانس نہ رہے توکوئی بھی بانسری بج کرنہ دے، مزے کی بات یہ ہے کہ ان پر کچھ خرچہ بھی نہیں آتاچند نعرے چند ترانے دعوے اور وعدے ہی کافی ہوتے ہیں۔