بغاوت اور جاسوسی میں ملوث شہریوں کا کورٹ مارشل کیا جاسکتا ہے وفاق

درخواست گزار کو اس نکتے پر موقف پیش کرنیکی ہدایت، شہریوں کوکس اختیاراورکن اداروں نے منتقل کیا،سندھ ہائیکورٹ کا استفسار

لاپتہ مشتاق ودیگرکی بازیابی کیلیے درخواستوں کی سماعت، رپورٹر اور سی پی این ای کی جانب سے جواب کیلیے مہلت طلب فوٹو: فائل

وزارت دفاع نے موقف اختیارکیاہے کہ بغاوت اورجاسوسی کے الزامات میں شہریوں کا بھی کورٹ مارشل کیاجاسکتا ہے۔

اس لیے وہ شہری جوان الزامات میں ملوث ہیںانھیں تحویل میں لیا گیاہے اور ان کے خلاف فوجی عدالتوںمیں مقدمات کی سماعت کی جائیگی، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے وفاق کے اس موقف پردرخواست گزار کو موقف پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 13مارچ کے لیے ملتوی کردی ،تاہم فاضل بینچ نے استفسار کیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کی جغرافیائی حدودسے حراست میں لیے گئے شہریوں کودوسرے مقامات پر کس اختیاراورکن اداروں نے منتقل کیا،اور کس ادارے نے ان شہریوں کی گرفتاری میں معاونت کی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتاشہری اکبرخان اور مومن خان پاک فوج کی حراست میں ہیں،انھیں خیبرپختونخوامنتقل کردیاگیاہے، پاک فوج کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل لیفٹیننٹ کرنل آصف علی پیش ہوئے ،انھوں نے بتایا کہ مومن خان اور اکبرخان کو سول ایڈریگولیشنز 2011کے تحت گرفتارکیاگیا ہے، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل اشرف مغل،ایڈووکیٹ جنرل اورخصوصی طور پر مقرر کیے گئے عدالتی معاون بیرسٹرعبدالرحمن کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پراس نکتے پردلائل دیے جائیں کہ کس قانون کے تحت شہری کو گرفتارکرکے صوبے سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔




ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایا کہ وسایونامی شخص سویلین ہے،اس پر ریاست کے خلاف جاسوسی کا الزام ہے اوراس کے خلاف آرمی کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے ،توقع ہے کہ کارروائی جلد مکمل ہوجائے گی،محمد بخش اسکول ٹیچر اور سویلین ہے اس کابھی کورٹ مارشل کیا جارہا ہے،انھوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مولا بخش بلوچ رجمنٹ میں پاک فوج کا سپاہی تھا اسے برطرف کرکے کورٹ مارشل کیا گیا ہے اوراسے آرمی ایکٹ کے تحت قیدکی سزا سنائی گئی ہے،روشن دین بھی سپاہی تھا،اسے برطرف کرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایا جارہا ہے،حبیب اللہ بھی سویلین ہے جو کہ سی ایم چھور میں باورچی تعینات تھا،اس کے خلاف بھی جاسوسی کا الزام تھا،اس کا کورٹ مارشل نہیں کیا گیا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے نورناز آغاایڈوکیٹ نے موقف اختیارکیا کہ عام شہری کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا،اس حوالے سے 2007میں سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس زاہد قربان علوی کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر سویلین غداری کے الزام میںملوث ہو تواس کا کورٹ مارشل کیا جاسکتاہے، درخواست گزاروں مشتاق احمد،جیان ضان،جلال،عبدالجبار اور حاجی محمد کی جانب سے دائر کردہ مختلف درخواستوں میں وزارت دفاع،کمانڈنگ افسرہیڈکوارٹر حیدرآبادایم آئی 945، کورکما نڈ ر کراچی،کمانڈنگ افسر ہیڈکوارٹرکور5اور دیگر فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مشتاق احمدکا کزن مولا بخش25مئی 2010،جیان خان کا بھائی محمدبخش جنوری2011،جلال کا بھائی وسایو6جنوری2012اورحاجی محمد کا بھائی مقیر محمد 2ستمبر2011سے لاپتا ہے۔

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ انھیں بازیاب کرایا جائے، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پرملوث خالد شمیم کی گمشدگی کی درخواست کی سماعت کے موقع پرمقامی اخبارکے رپورٹرنے عدالت سے وکیل مقرر کرنے کی مہلت طلب کی، سی پی این ای کی جانب سے بھی وکیل نے جواب داخل کرنے کے لیے مہلت طلب کی،قبل ازیں فاضل عدالت نے خبرکا ذریعہ نہ بتانے پرمذکورہ رپورٹراورصحافتی تنظیموں کونوٹس جاری کیے تھے۔
Load Next Story