عدلیہ اور عدل
عدلیہ پاکستان میں ایک بہت بڑی آزمائش سے گزر رہی ہے
زلزلے کے بعد اس کے آفٹر شاکس بھی آتے ہیں، کچھ ایسا ہی آفٹر شاکس پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد بھی آرہے ہیں بلکہ مسلسل ہی آ رہے ہیں اور یہ شاکس کسی اور کی طرف سے نہیں حکمران جماعت کے اپنے ہی رہنماؤں کی جانب سے دیے جار ہے ہیں۔ ایک بار پھر وزیر اعظم پاکستان نے دہرایا ہے کہ وہ نواز شریف کی نااہلی کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے مگر اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔
آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی پاکستانی عدلیہ کی دیا نت داری یا آزادی پر تنقید نہیں کر سکتا اور اگر وہ تنقید کرے توقابلِ مواخذہ ہے اور عدلیہ کی تضحیک پر پارلیمانی رکنیت بھی معطل ہو سکتی ہے ۔ مگر ہمارے وزیر اعظم جنہوں نے آئین ِ پاکستان کے تحت ہی حلف اُٹھایا ہوا ہے وہ اگر خود ہی اس سے اتفاق نہیں کر رہے اور اپنے پارٹی قائد کے دفاع میں وہ سب کچھ بھی کہے جارہے ہیں جو ان کے منصب کی خلاف ورزی ہے ۔ اسی طرح کا ایک اور بیان بھی نظر سے گزرا ہے جو ہمارے سابق آمر پرویز مشرف نے دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے یقین دلایا تھا کہ پاکستان اسٹیل مل کے متعلق کیس کا فیصلہ حکومت کے حق میں آئے گا لیکن بعد میں جب فیصلہ آیا تو وہ اس کے برعکس تھا ۔ انھوں نے بھی براہ راست عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ جب اپنی پوری طاقت کے ساتھ پاکستان پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے تھے تو یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری ہی تھے جنہوں نے ایک آمر کے سامنے اس کے گھر میں بیٹھ کر اس کی منشا پر فیصلہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور بعد میں جو حالات ہماری عدلیہ کے ساتھ پیش آئے وہ سب کی یاداشت میں محفوظ ہیں۔
ہمارے پارلیمنٹ جمہوری جدو جہد کے بعد وجود میں آئی ہے اور خدا نہ کرے اس پر دوبارہ کوئی آنچ آئے لیکن ہمارے سیاستدان کئی بار اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے حق حکمرانی سے محروم کر دیے گئے اور جیلوں میں ڈال دیے گئے بلکہ ایک کو تو پھانسی بھی دے دی گئی۔ سیاستدانوں نے فوجی آمروں کے شب خون کے خلاف عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے اور بحال بھی ہو گئے لیکن بعد میں وہاں سے بھی جواب یہی ملا کہ یہ وقت کی ضرورت تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار اسمبلی توڑ دی گئی تو اس فیصلے کے خلاف اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے عدالت کے دروازے پر دستک دی لیکن جواب نظریہ ضروت کا ہی ملا۔ اس کے بعد سے پاکستان میں عدلیہ سیاست کا ایک کردار بن گئی اور قومی سیاست تین حصوں میں بٹ گئی جن میں سیاستدان، فوجی حکمران اور عدلیہ شامل ہیں ۔ فوج کی طرح عدلیہ کو بھی سیاست کا ایک محور بننے کا کوئی حق نہیں لیکن طاقت نے اصولوں پر فتح حاصل کر لی۔
مجھے حضرت عمرؓ کے دور حکومت کا ایک فیصلہ یاد آرہا ہے، انھوں نے عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ الگ کر دیا تھا لیکن یہ سلسلہ مختصر عرصے کے لیے رہا اور جب خلافت دمشق پہنچی تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی اور عدلیہ کے ایسے ارکان مقرر کیے جانے لگے جو انتظامیہ کی مدد کر سکیں، اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عہدہ قضا کے لائق لوگ اس سے انکاری ہو گئے، اس وقت کے خلیفہ نے جب قاضی شرع کو مجبور کیا کہ وہ قضا کا عہدہ قبول کر لیں تو انھوں نے جواب میں فیصلوں میں آزادی مانگی تو خلیفہ نے کہا کہ آپ مجھے بھی معاف نہ کرنا لیکن ایک شاہی لونڈی کے مقدمے میں خلیفہ کی یقین دہانیاں کام نہ آ سکیں چنانچہ اس حادثہ کے بعد خلفاء کی یقین دہانیاں بھی بے کار ہو گئیں۔
اسی طرح امام ابو حنیفہ ؒکو دو دفعہ بڑے عہدے پیش کیے گئے جن سے انکار پر ان پر کوڑوں کی بارشیں بھی ہوئیں اور اپنے وقت کے اس بہت بڑے آدمی کا جب انتقال ہوا تو بغداد کے قاضی نے غسل دیا، جسم پر زخم تھے اور قاضی روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے، ابو حنیفہ تم نے عہدہ قضا کو کتنا مشکل بنا دیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کی باتیں ہیں جن کے ہم قریب بھی نہیں ہو سکتے کجا کہ ہم ان کی ہم عصری کا دعویٰ کریں لیکن اسلامی تاریخ میں ظالم حکمرانوں اور جوانمردی کے ساتھ ظلم برداشت کرنے والوں کی کمی نہیں ۔ ان دنوں ہماری عدلیہ ایک بار پھر سیاستدانوں کے نشانے پر ہے اور سیاستدان بھی وہ جو کہ حکومت کر رہے ہیں اور ایک ہی بات کی تکرار میں مصروف ہیں کہ ان کے پارٹی سربراہ کو غلط طور پر نااہل کیا ہے اور اب جب عدلیہ کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی مسترد ہو گئی تو یہ کہا گیا کہ ہمیں اس بات کا پہلے سے ہی علم تھا کہ ہماری اپیل بھی خارج ہو جائے گی۔
عدلیہ پاکستان میں ایک بہت بڑی آزمائش سے گزر رہی ہے اور پہلی دفعہ ایک بڑے آدمی کے خلاف فیصلہ آیا ہے جس سے لگتا ہے کہ عدلیہ بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ فیصلے کر رہی ہے ۔ امام ابو حنیفہ کا ایک فتویٰ ہے کہ جو جج فیصلوں میں آزاد نہیں اس کی تنخواہ حلا ل نہیں ۔ آج کے زمانے میں جب دنیا بھر میں انصاف صرف طاقتور کے پاس چلا گیا ہے اس طرح کے آزادانہ اور دلیرانہ فیصلے عوام کے لیے اس گھٹن کے ماحول میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہیں اور وہ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ انصاف سب کے لیے یکساں ہو رہا ہے ۔ مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ہاں اصولی طور پر عدلیہ کا کیا مقام و مرتبہ ہے اور اسلام کا بنیادی درس ہی برابری کا ہے اور اس سلسلے میں ہمارے نبی ﷺ کا حج کے موقع پر آخری خطبہ ہم سب کے لیے کا فی ہے۔
آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی پاکستانی عدلیہ کی دیا نت داری یا آزادی پر تنقید نہیں کر سکتا اور اگر وہ تنقید کرے توقابلِ مواخذہ ہے اور عدلیہ کی تضحیک پر پارلیمانی رکنیت بھی معطل ہو سکتی ہے ۔ مگر ہمارے وزیر اعظم جنہوں نے آئین ِ پاکستان کے تحت ہی حلف اُٹھایا ہوا ہے وہ اگر خود ہی اس سے اتفاق نہیں کر رہے اور اپنے پارٹی قائد کے دفاع میں وہ سب کچھ بھی کہے جارہے ہیں جو ان کے منصب کی خلاف ورزی ہے ۔ اسی طرح کا ایک اور بیان بھی نظر سے گزرا ہے جو ہمارے سابق آمر پرویز مشرف نے دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے یقین دلایا تھا کہ پاکستان اسٹیل مل کے متعلق کیس کا فیصلہ حکومت کے حق میں آئے گا لیکن بعد میں جب فیصلہ آیا تو وہ اس کے برعکس تھا ۔ انھوں نے بھی براہ راست عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ جب اپنی پوری طاقت کے ساتھ پاکستان پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے تھے تو یہ چیف جسٹس افتخار چوہدری ہی تھے جنہوں نے ایک آمر کے سامنے اس کے گھر میں بیٹھ کر اس کی منشا پر فیصلہ دینے سے انکار کر دیا تھا اور بعد میں جو حالات ہماری عدلیہ کے ساتھ پیش آئے وہ سب کی یاداشت میں محفوظ ہیں۔
ہمارے پارلیمنٹ جمہوری جدو جہد کے بعد وجود میں آئی ہے اور خدا نہ کرے اس پر دوبارہ کوئی آنچ آئے لیکن ہمارے سیاستدان کئی بار اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے حق حکمرانی سے محروم کر دیے گئے اور جیلوں میں ڈال دیے گئے بلکہ ایک کو تو پھانسی بھی دے دی گئی۔ سیاستدانوں نے فوجی آمروں کے شب خون کے خلاف عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے اور بحال بھی ہو گئے لیکن بعد میں وہاں سے بھی جواب یہی ملا کہ یہ وقت کی ضرورت تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار اسمبلی توڑ دی گئی تو اس فیصلے کے خلاف اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے عدالت کے دروازے پر دستک دی لیکن جواب نظریہ ضروت کا ہی ملا۔ اس کے بعد سے پاکستان میں عدلیہ سیاست کا ایک کردار بن گئی اور قومی سیاست تین حصوں میں بٹ گئی جن میں سیاستدان، فوجی حکمران اور عدلیہ شامل ہیں ۔ فوج کی طرح عدلیہ کو بھی سیاست کا ایک محور بننے کا کوئی حق نہیں لیکن طاقت نے اصولوں پر فتح حاصل کر لی۔
مجھے حضرت عمرؓ کے دور حکومت کا ایک فیصلہ یاد آرہا ہے، انھوں نے عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ الگ کر دیا تھا لیکن یہ سلسلہ مختصر عرصے کے لیے رہا اور جب خلافت دمشق پہنچی تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی اور عدلیہ کے ایسے ارکان مقرر کیے جانے لگے جو انتظامیہ کی مدد کر سکیں، اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عہدہ قضا کے لائق لوگ اس سے انکاری ہو گئے، اس وقت کے خلیفہ نے جب قاضی شرع کو مجبور کیا کہ وہ قضا کا عہدہ قبول کر لیں تو انھوں نے جواب میں فیصلوں میں آزادی مانگی تو خلیفہ نے کہا کہ آپ مجھے بھی معاف نہ کرنا لیکن ایک شاہی لونڈی کے مقدمے میں خلیفہ کی یقین دہانیاں کام نہ آ سکیں چنانچہ اس حادثہ کے بعد خلفاء کی یقین دہانیاں بھی بے کار ہو گئیں۔
اسی طرح امام ابو حنیفہ ؒکو دو دفعہ بڑے عہدے پیش کیے گئے جن سے انکار پر ان پر کوڑوں کی بارشیں بھی ہوئیں اور اپنے وقت کے اس بہت بڑے آدمی کا جب انتقال ہوا تو بغداد کے قاضی نے غسل دیا، جسم پر زخم تھے اور قاضی روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے، ابو حنیفہ تم نے عہدہ قضا کو کتنا مشکل بنا دیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کی باتیں ہیں جن کے ہم قریب بھی نہیں ہو سکتے کجا کہ ہم ان کی ہم عصری کا دعویٰ کریں لیکن اسلامی تاریخ میں ظالم حکمرانوں اور جوانمردی کے ساتھ ظلم برداشت کرنے والوں کی کمی نہیں ۔ ان دنوں ہماری عدلیہ ایک بار پھر سیاستدانوں کے نشانے پر ہے اور سیاستدان بھی وہ جو کہ حکومت کر رہے ہیں اور ایک ہی بات کی تکرار میں مصروف ہیں کہ ان کے پارٹی سربراہ کو غلط طور پر نااہل کیا ہے اور اب جب عدلیہ کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی مسترد ہو گئی تو یہ کہا گیا کہ ہمیں اس بات کا پہلے سے ہی علم تھا کہ ہماری اپیل بھی خارج ہو جائے گی۔
عدلیہ پاکستان میں ایک بہت بڑی آزمائش سے گزر رہی ہے اور پہلی دفعہ ایک بڑے آدمی کے خلاف فیصلہ آیا ہے جس سے لگتا ہے کہ عدلیہ بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ فیصلے کر رہی ہے ۔ امام ابو حنیفہ کا ایک فتویٰ ہے کہ جو جج فیصلوں میں آزاد نہیں اس کی تنخواہ حلا ل نہیں ۔ آج کے زمانے میں جب دنیا بھر میں انصاف صرف طاقتور کے پاس چلا گیا ہے اس طرح کے آزادانہ اور دلیرانہ فیصلے عوام کے لیے اس گھٹن کے ماحول میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہیں اور وہ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ انصاف سب کے لیے یکساں ہو رہا ہے ۔ مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ہاں اصولی طور پر عدلیہ کا کیا مقام و مرتبہ ہے اور اسلام کا بنیادی درس ہی برابری کا ہے اور اس سلسلے میں ہمارے نبی ﷺ کا حج کے موقع پر آخری خطبہ ہم سب کے لیے کا فی ہے۔