قلم بند
قانون کے ذریعے لوگوں کو مہذب نہیں بنایا جاسکتا، مہذب بن کر دکھانے سے لوگ مہذب ہوسکتے ہیں
عام طور پر میں کالم لکھنے کے بعد اس کا ''سرنامہ ذیلی'' یعنی عنوان تجویز کرتا ہوں مگر اس بار پہلے عنوان تجویز کرکے لکھتا ہوں! اردو زبان میں کہ اس میں بہت سی زبانوں کے لفظ ''مہاجریت'' ترک کرکے عرصہ دراز ہوا ''مستقل مکین'' ہوچکے ہیں، یہ لفظ بھی ان میں سے ایک ہے۔ ''لغت مستند'' کے اعتبار سے اس لفظ کے معنی کسی بھی چیز کے بارے میں لکھنا ہے۔ جیسے عدالت عالیہ کا فیصلہ تو وہ ''قلم بند'' ہوچکا ہے۔ اس عواقب و عوامل پر گفتگو میرا منصب نہیں ہے میں قانون داں تو چھوڑیے ''قانون گو'' بھی نہیں ہوں۔
اب تو لفظ ''گو'' Go بھی خطرناک طے پاچکا ہے کہ اس پر بھی کبھی کبھی عملدرآمد ہوچکا ہے اور قانون کے ساتھ خدا نہ کرے کہ یہ لفظ باعمل ہو اس طرح۔ آمین۔ اب قلم بند ہونے کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے زبانی فیصلے کے متاثرین کی جانب سے لگتا ہے کہ اس پر بھی کوئی فیصلہ کبھی قلم بند ہوگا۔ یہاں سے کچھ ماضی کا سفر کرتے ہیں۔ قلم بند کرنے والے تاریخ داں ہوتے تھے یا کم ازکم ادب اور تاریخ میں ان کو یہی کہا جاتا تھا۔
ایک بات کی حیرت ہے کہ خاص طور پر اسلامی بادشاہوں، معذرت کے ساتھ کہ یہ لفظ ہی ان کے ساتھ مناسب ہے، خلافت کا منصب اور ذمے داریاں کچھ اور تھیں اور وہ کماحقہ چار اصحاب نے انجام دے کر اس تاریخ کا، چاہے کچھ بھی کہیں تاریخی باب بند کردیا تھا۔ آپ اسے سنہری باب بھی کہہ سکتے ہیں۔ تو اسلامی بادشاہوں کے ذاتی تاریخ نویسوں نے ہر بادشاہ کو نیکوکار، پرہیزگار، ہلکا پھلکا گناہ گار قرار دیا اور یہ گناہ بھی شیروانی کے بٹن سے زیادہ نہیں ہیں۔
اب حقیقت کیا ہے یہ ان لوگوں کے قلم بند کیے ہوئے حالات سے پتا چلتی ہے جنھیں ہم متعصب اور غیر مسلم کہہ کر رد کردیتے ہیں، بدقسمتی سے ہم نے اسلام کو لاحقہ سمجھ لیا ہے جب کہ وہ پورا نام ہے۔ اسلام یعنی تسلیم کرنا، سر جھکانا۔
قلم بند تو بہت کچھ ہو رہا ہے، ہوا ہے، نظر نہیں آرہا اس کا وقت نہیں آیا آئے گا آخر میں جب سب کچھ ہوجائے گا یہ بھی قلم بند ہے، علامتوں کی صورت نشانیوں کی صورت، کبھی کبھی سال میں ایک بار کہیں سے کوئی ویڈیو آن ایئر ہوجاتی ہے اور بس۔
انسان بہت نڈر ہے، ورنہ جنگل کا بادشاہ بھی اس کا مطیع نہ ہوتا، انسان بہت ظالم ہے اس کی تشریح قرآن کی آیات سے کی جاچکی ہے۔ مکروہ تشریح اور سماج میں رویہ ایک دوسرے سے ہرگز میل نہیں کھاتے، اگر قرآن کی تشریحات کو سماج نے قبول کرلیا ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جو آج زیر نظر ہے دولت کا ارتکاز لعنت قرار دیا گیا اور ہم اس میں مبتلا ہیں۔ بہت سے کام ممنوع ہیں، حکم نے اس ممنوع کے خلاف بذات خود حکم امتناعی قلم بند کر رکھا ہے اپنے دل میں اور خود تجویز کردہ راہ فلاح پر گامزن ہیں۔ ہے نا کمال کی بات۔
اب سفر تھوڑا تیز کرکے آجاتے ہیں ماضی سے پاکستان میں۔ یہاں آپ جانتے ہیں کہ تین طرح کی حکومتیں ہیں۔ ایک حکومت کی حکومت، دوسری سیاسی حکومت اور ایک مخلوط حکومت۔ کیونکہ ہمارے سیاستدان ایک طرز حکومت کی دال کھا کر بھی، اس کی چوری چٹ کرکے آزادی ملتے ہی اس کے خلاف پر نکالنے لگتے تھے لہٰذا اس کا نام لینا ضروری نہیں، آپ جانتے ہیں۔
دوسری سیاسی حکومت اس کے بارے میں کچھ کہنا دست اندازی پولیس کے قابل ہے، پولیس صرف وہ نہیں ہے جو یونیفارم پہن کر تھانوں میں چار دیواری پر خاردار تار لگا کر بیٹھتی ہے یا ماڈل ٹاؤن میں کارروائی کرتی ہے۔ پولیس اور بھی ہے اسے صحافتی پولیس کہنا ٹھیک ہے۔
یہ والی پولیس حکومت کا ساتھ دیتی ہے کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے سے کام ہوتا ہے اور یہ ضروری بلکہ انتہائی ضروری کام ہوتے ہیں۔ ہر صحافتی ادارے میں ان کی پوسٹنگ ہوتی ہے اور یہ خود کی ہوئی پوسٹنگ سمجھی جانی چاہیے اور یہ ساری بات ہمارا ایک مذاق۔ تو حکومت کی حکومت کیونکہ فیلڈ گورنمنٹ ہوتی تھی اس کے ذمے داران پاکستان کے باہر سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تو، اردو شاید، لفظ شاید ہم دوبارہ احتیاطاً لکھ رہے ہیں تو اردو ان کی چند ایک کو چھوڑ کر کہ وہ اعلیٰ پائے کے ادیب، شاعر ثابت ہوئے اور یہ کام محض نوکری۔ تو انھوں نے قلم بند کا مطلب قلم بند ہی نکالا جس طرح بھٹو مرحوم کے اکثر انگریزی آرڈر کا مطلب پولیس والے غلط ترجمہ کرکے بندے پکڑ لیا کرتے تھے تو قلم بند کو عملی شکل حکومت کی حکومت نے دی اور بیشمار جرائد، اخبارات ان ادوار میں قلم بند اور صحافی تھانہ بند، جیل بند ہوئے۔
جلیل القدر لوگ تھے، نام لیتے ہوئے زبان کو عزت کی چاشنی محسوس ہوتی ہے ان کی عظمت کو سلام۔ ہم اب ایسے نہیں رہے۔صحافت کبھی ایک مستانہ روش تھی۔ لوگوں نے کوڑے بھی کھائے مگر قلم کا سر نگوں نہیں ہونے دیا۔ دراصل قلم ایک تلوار ہے اور بہت خطرناک تلوار، تلوار کا زخم ٹھیک ہوجاتا ہے مگر قلم کا نہیں، تلوار سے ملک جیتے جاسکتے ہیں دل نہیں۔ یہ کام صرف قلم کا ہے دنیا کی ہر وہ شکست خوردہ قوم جو آج جلیل القدر ملک بن گیا ہے (سوائے عربوں کے، جن کو سیال سونے نے یہ بنادیا ہے) اس کے ادیب اور شاعروں نے اس ملک کے عوام کا عزم مستحکم بحال کرنے میں مورال کو بلند کرنے میں قلم کا استعمال کیا اور اس کے رہنماؤں اور سیاستدانوں نے فکر کے ذریعے قوم کو مجتمع کیا۔ فکر نے راہ متعین کی اور جدوجہد نے راہ کو منزل تک کی روشنی دی یہ سب قلم نے کیا۔
لہٰذا جہاں بھی انقلاب کا نام نہاد نعرہ لگایا گیا اور وہ حقیقی انقلاب نہیں تھا وہاں سب سے پہلے قلم بند قوم کے دست و بازو اور زبان کاٹ دی گئی۔ سچ لکھنے والے، سچے صحافی قوم کی زبان ہوتے ہیں اور گونگی قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں۔
وقت بدل گیا، رویے نہیں بدلے، حکومت کے انداز نہیں بدلے، کچھ نہیں سیکھا اپنے ماضی سے ہم نے جیساکہ دنیا کی ہر قوم نے اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل تعمیر کیا۔ کھربوں روپیہ، سیکڑوں عمارات یعنی امارات اور عمارات آپ کو نہیں بچا سکتیں۔
وہ حکومتیں عوام کے دل میں گھر کرتی ہیں جن کے ذمے داران ان جیسے ہوں۔ ان کی طرح بات کرتے ہوں، ان کی طرح سوچتے ہوں، ان کی طرح عمل کرتے ہوں اور اگر قلم بند ہوگا تو بہت مشکل ہے آپ کے سامنے مصنوعی خیالات ، مصنوعی تعمیر، مصنوعی ترقی ہوگی۔
قانون کے ذریعے لوگوں کو مہذب نہیں بنایا جاسکتا، مہذب بن کر دکھانے سے لوگ مہذب ہوسکتے ہیں کوئی بھی حکومت ہو، قلم بند ادارہ بند کردینا چاہیے۔ اور اداروں میں جو صحافت کے انتہائی ذمے داران ہیں ان کو بھی اس ادارے یا عرف عام میں ڈکٹیشن پر عمل نہیں کرنا چاہیے کہ یہی اصل صحافت ہے۔ روشنی نہیں کروگے تو راستہ کیسے نظر آئے گا۔ سکوں کی چمک سے راستہ طے نہیں ہوتا۔ ہم آزاد ہیں تو پھر ذہنوں کو قلم بند کیوں کیا جائے؟ سوچئے گا ضرور!
اب تو لفظ ''گو'' Go بھی خطرناک طے پاچکا ہے کہ اس پر بھی کبھی کبھی عملدرآمد ہوچکا ہے اور قانون کے ساتھ خدا نہ کرے کہ یہ لفظ باعمل ہو اس طرح۔ آمین۔ اب قلم بند ہونے کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے زبانی فیصلے کے متاثرین کی جانب سے لگتا ہے کہ اس پر بھی کوئی فیصلہ کبھی قلم بند ہوگا۔ یہاں سے کچھ ماضی کا سفر کرتے ہیں۔ قلم بند کرنے والے تاریخ داں ہوتے تھے یا کم ازکم ادب اور تاریخ میں ان کو یہی کہا جاتا تھا۔
ایک بات کی حیرت ہے کہ خاص طور پر اسلامی بادشاہوں، معذرت کے ساتھ کہ یہ لفظ ہی ان کے ساتھ مناسب ہے، خلافت کا منصب اور ذمے داریاں کچھ اور تھیں اور وہ کماحقہ چار اصحاب نے انجام دے کر اس تاریخ کا، چاہے کچھ بھی کہیں تاریخی باب بند کردیا تھا۔ آپ اسے سنہری باب بھی کہہ سکتے ہیں۔ تو اسلامی بادشاہوں کے ذاتی تاریخ نویسوں نے ہر بادشاہ کو نیکوکار، پرہیزگار، ہلکا پھلکا گناہ گار قرار دیا اور یہ گناہ بھی شیروانی کے بٹن سے زیادہ نہیں ہیں۔
اب حقیقت کیا ہے یہ ان لوگوں کے قلم بند کیے ہوئے حالات سے پتا چلتی ہے جنھیں ہم متعصب اور غیر مسلم کہہ کر رد کردیتے ہیں، بدقسمتی سے ہم نے اسلام کو لاحقہ سمجھ لیا ہے جب کہ وہ پورا نام ہے۔ اسلام یعنی تسلیم کرنا، سر جھکانا۔
قلم بند تو بہت کچھ ہو رہا ہے، ہوا ہے، نظر نہیں آرہا اس کا وقت نہیں آیا آئے گا آخر میں جب سب کچھ ہوجائے گا یہ بھی قلم بند ہے، علامتوں کی صورت نشانیوں کی صورت، کبھی کبھی سال میں ایک بار کہیں سے کوئی ویڈیو آن ایئر ہوجاتی ہے اور بس۔
انسان بہت نڈر ہے، ورنہ جنگل کا بادشاہ بھی اس کا مطیع نہ ہوتا، انسان بہت ظالم ہے اس کی تشریح قرآن کی آیات سے کی جاچکی ہے۔ مکروہ تشریح اور سماج میں رویہ ایک دوسرے سے ہرگز میل نہیں کھاتے، اگر قرآن کی تشریحات کو سماج نے قبول کرلیا ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جو آج زیر نظر ہے دولت کا ارتکاز لعنت قرار دیا گیا اور ہم اس میں مبتلا ہیں۔ بہت سے کام ممنوع ہیں، حکم نے اس ممنوع کے خلاف بذات خود حکم امتناعی قلم بند کر رکھا ہے اپنے دل میں اور خود تجویز کردہ راہ فلاح پر گامزن ہیں۔ ہے نا کمال کی بات۔
اب سفر تھوڑا تیز کرکے آجاتے ہیں ماضی سے پاکستان میں۔ یہاں آپ جانتے ہیں کہ تین طرح کی حکومتیں ہیں۔ ایک حکومت کی حکومت، دوسری سیاسی حکومت اور ایک مخلوط حکومت۔ کیونکہ ہمارے سیاستدان ایک طرز حکومت کی دال کھا کر بھی، اس کی چوری چٹ کرکے آزادی ملتے ہی اس کے خلاف پر نکالنے لگتے تھے لہٰذا اس کا نام لینا ضروری نہیں، آپ جانتے ہیں۔
دوسری سیاسی حکومت اس کے بارے میں کچھ کہنا دست اندازی پولیس کے قابل ہے، پولیس صرف وہ نہیں ہے جو یونیفارم پہن کر تھانوں میں چار دیواری پر خاردار تار لگا کر بیٹھتی ہے یا ماڈل ٹاؤن میں کارروائی کرتی ہے۔ پولیس اور بھی ہے اسے صحافتی پولیس کہنا ٹھیک ہے۔
یہ والی پولیس حکومت کا ساتھ دیتی ہے کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے سے کام ہوتا ہے اور یہ ضروری بلکہ انتہائی ضروری کام ہوتے ہیں۔ ہر صحافتی ادارے میں ان کی پوسٹنگ ہوتی ہے اور یہ خود کی ہوئی پوسٹنگ سمجھی جانی چاہیے اور یہ ساری بات ہمارا ایک مذاق۔ تو حکومت کی حکومت کیونکہ فیلڈ گورنمنٹ ہوتی تھی اس کے ذمے داران پاکستان کے باہر سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تو، اردو شاید، لفظ شاید ہم دوبارہ احتیاطاً لکھ رہے ہیں تو اردو ان کی چند ایک کو چھوڑ کر کہ وہ اعلیٰ پائے کے ادیب، شاعر ثابت ہوئے اور یہ کام محض نوکری۔ تو انھوں نے قلم بند کا مطلب قلم بند ہی نکالا جس طرح بھٹو مرحوم کے اکثر انگریزی آرڈر کا مطلب پولیس والے غلط ترجمہ کرکے بندے پکڑ لیا کرتے تھے تو قلم بند کو عملی شکل حکومت کی حکومت نے دی اور بیشمار جرائد، اخبارات ان ادوار میں قلم بند اور صحافی تھانہ بند، جیل بند ہوئے۔
جلیل القدر لوگ تھے، نام لیتے ہوئے زبان کو عزت کی چاشنی محسوس ہوتی ہے ان کی عظمت کو سلام۔ ہم اب ایسے نہیں رہے۔صحافت کبھی ایک مستانہ روش تھی۔ لوگوں نے کوڑے بھی کھائے مگر قلم کا سر نگوں نہیں ہونے دیا۔ دراصل قلم ایک تلوار ہے اور بہت خطرناک تلوار، تلوار کا زخم ٹھیک ہوجاتا ہے مگر قلم کا نہیں، تلوار سے ملک جیتے جاسکتے ہیں دل نہیں۔ یہ کام صرف قلم کا ہے دنیا کی ہر وہ شکست خوردہ قوم جو آج جلیل القدر ملک بن گیا ہے (سوائے عربوں کے، جن کو سیال سونے نے یہ بنادیا ہے) اس کے ادیب اور شاعروں نے اس ملک کے عوام کا عزم مستحکم بحال کرنے میں مورال کو بلند کرنے میں قلم کا استعمال کیا اور اس کے رہنماؤں اور سیاستدانوں نے فکر کے ذریعے قوم کو مجتمع کیا۔ فکر نے راہ متعین کی اور جدوجہد نے راہ کو منزل تک کی روشنی دی یہ سب قلم نے کیا۔
لہٰذا جہاں بھی انقلاب کا نام نہاد نعرہ لگایا گیا اور وہ حقیقی انقلاب نہیں تھا وہاں سب سے پہلے قلم بند قوم کے دست و بازو اور زبان کاٹ دی گئی۔ سچ لکھنے والے، سچے صحافی قوم کی زبان ہوتے ہیں اور گونگی قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں۔
وقت بدل گیا، رویے نہیں بدلے، حکومت کے انداز نہیں بدلے، کچھ نہیں سیکھا اپنے ماضی سے ہم نے جیساکہ دنیا کی ہر قوم نے اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل تعمیر کیا۔ کھربوں روپیہ، سیکڑوں عمارات یعنی امارات اور عمارات آپ کو نہیں بچا سکتیں۔
وہ حکومتیں عوام کے دل میں گھر کرتی ہیں جن کے ذمے داران ان جیسے ہوں۔ ان کی طرح بات کرتے ہوں، ان کی طرح سوچتے ہوں، ان کی طرح عمل کرتے ہوں اور اگر قلم بند ہوگا تو بہت مشکل ہے آپ کے سامنے مصنوعی خیالات ، مصنوعی تعمیر، مصنوعی ترقی ہوگی۔
قانون کے ذریعے لوگوں کو مہذب نہیں بنایا جاسکتا، مہذب بن کر دکھانے سے لوگ مہذب ہوسکتے ہیں کوئی بھی حکومت ہو، قلم بند ادارہ بند کردینا چاہیے۔ اور اداروں میں جو صحافت کے انتہائی ذمے داران ہیں ان کو بھی اس ادارے یا عرف عام میں ڈکٹیشن پر عمل نہیں کرنا چاہیے کہ یہی اصل صحافت ہے۔ روشنی نہیں کروگے تو راستہ کیسے نظر آئے گا۔ سکوں کی چمک سے راستہ طے نہیں ہوتا۔ ہم آزاد ہیں تو پھر ذہنوں کو قلم بند کیوں کیا جائے؟ سوچئے گا ضرور!