’’ اب میں بولوں کہ نہ بولوں ‘‘
افتخارقیصر کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی
ISLAMABAD:
''اب میں بولوں کہ نہ بولوں'' مکالمے سے شہرت پانے والے ہندکو، پشتواوراردوکے مشہوراداکارافتخارقیصرطویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی عمر61 برس تھی۔ وہ گزشتہ کئی روزسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زیرعلاج تھے جہاں ان کی طبیعت اچانک بگڑگئی اوراتوارکی صبح وہ وفات پاگئے۔
مرحوم شوگر، دل اور گردوں کے عارضوں میں مبتلاتھے۔ افتخارقیصرکی نمازجنازہ اتوارکی شام پشاورکے علاقے حاجی کیمپ میں اداکی گئی جس کے بعدآبائی قبرستان میں انہیں سپردخاک کردیاگیا۔ افتخارقیصر1956 میں پشاورمیں پیدا ہوئے اور1971میں پاکستان ٹیلیویژن ( پشاورسینٹر ) سے اپنے فنی کیریئر کا آغازکیا، انھوں نے40 برس تک اردو، ہندکو اور پشتوزبان کے متعدد ڈراموں میں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا۔ انہیں پی ٹی وی پشاور کے ایک ہندکو پروگرام سے شہرت ملی ، جس میں وہ ہندکوکی حرفیاں پیش کرتے تھے جس سے قبل وہ اپنا مشہورزمانہ مکالمہ '' اب میں بولوںکہ نہ بولوں'' بولتے۔ افتخارقیصر نے اپنے طویل فنی سفرمیں بہت سے ڈراموں میں جاندارکردارنبھائے۔ انہیں فن اداکاری پرمکمل عبور حاصل تھا۔
انہوں نے بہت سے ڈراموں میں سنجیدہ اورمنفی کرداربھی نبھائے لیکن ان کی اصل پہچان مزاح ہی بنا۔ جس سے ثابت ہوا کہ وہ خداداد فنی صلاحیتوں سے مالامال تھے اوراپنی شخصیت کوہرطرح کے کردارمیں ڈھالنے پرخوب مہارت رکھتے تھے۔ انہیں طویل فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے '' صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ''سے بھی نوازاگیا ۔صدرمملکت ممنون حسین نے ممتازاداکار افتخارقیصر کے انتقال پرگہرے دکھ کااظہارکیا ہے اور اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے مغفرت اوربلندی درجات کی دعاکی۔ صدرنے کہاکہ افتخارقیصرکی فنی خدمات کوتادیر یاد رکھاجائے گا۔
وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے اپنے تعزیتی پیغام میں نامور فنکار افتخار قیصر کے انتقال پرگہرے دکھ اورافسوس کااظہارکیا اورکہاکہ افتخار قیصرہندکو، پشتواوراردوکے عظیم اداکار تھے جن کی وفات سے آج پاکستان ایک عظیم اورمقبول عوامی فنکارسے محروم ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ پرویزخٹک نے معروف ادکار افتخار قیصر کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔وزیراعلیٰ نے اُن کے فن اور ملک کیلئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔اپنے ایک تعزیتی پیغام میں انہوںنے دُعا کی کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندہ خاندان کو یہ ناقابل تلافی نقصان صبر واستقامت سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسری جانب افتخارقیصر کے ساتھ برسوں کام کرنے والے معروف اداکار نیئراعجاز، ایوب کھوسہ، عجب گل ، ذوالقرنین حیدراورباطن فاروقی نے کہا ہے کہ ہم نے ایک بہت ہی عظیم فنکارکوکھودیا ۔ افتخارقیصرایک ایسے فنکارتھے جنہوں نے اپنی زندگی میں ان گنت یادگارکردارنبھائے۔ ان کا جملہ ''اب میںبولوں کہ نہ بولوں'' پاکستان کی سرحدیں پارکرتاہوا ہراس مقام پرپہنچا جہاں پراردوزبان بولی اورسمجھی جاتی تھی۔
انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ اپنے کرداروں کوسجایا اورسنوارا۔ ان کے ساتھ کام کرنے کی بات کریں توبہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ہمیں یقین نہیں ہورہا ہے کہ ہمارا قریبی دوست، بھائی اورساتھی فنکارآج ہم میں نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ افتخار قیصرمختلف امراض میں مبتلا تھے اورکئی دن تک زندگی اورموت کی کشمکش میں لڑتے رہے۔ مگرایک بات توطے ہے کہ جب حکم ربی آجائے توپھرسب کوواپس جانا ہوتا ہے۔ اب ہم ان کیلئے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے اوران کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں۔
سینئراداکاررشید ناز، جہانگیرجانی، عظیم سجاد، آصف خان، شاہد خان نے کہا کہ افتخارقیصر نوجوانوں کیلئے اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے چالیس برس کے فنی سفرکے دوران جہاں پشاوراوراسلام آباد ٹی وی پربہت ساکام کیا، وہیں ان کی خصوصی پروگرام میں شمولیت نے ان کے فنی قد میں مزید اضافہ کیا۔
وہ جہاں بھی جاتے ، اپنی ایک الگ پہچان چھوڑ جاتے۔ ان کے بہت سے کردارآج بھی لوگوں میں مقبول ہیں۔ ویسے توہم لوگ اپنی فنی مصروفیات کی وجہ سے ادھرادھرمصروف رہتے لیکن جب بھی کبھی ان سے ملاقات ہوتی توپھرماضی کی باتیں کرکے خوب قہقہے لگتے۔ وہ بہت ہی زندہ دل انسان تھے لیکن حالات اوربیماری نے انہیں جب گھیرا توپھروہ اپنے فن کودوسروںتک نہ پہنچاسکے اوربیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں اوران کے لواحقین کوصبرجمیل عطا کریں۔ آمین
''اب میں بولوں کہ نہ بولوں'' مکالمے سے شہرت پانے والے ہندکو، پشتواوراردوکے مشہوراداکارافتخارقیصرطویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی عمر61 برس تھی۔ وہ گزشتہ کئی روزسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زیرعلاج تھے جہاں ان کی طبیعت اچانک بگڑگئی اوراتوارکی صبح وہ وفات پاگئے۔
مرحوم شوگر، دل اور گردوں کے عارضوں میں مبتلاتھے۔ افتخارقیصرکی نمازجنازہ اتوارکی شام پشاورکے علاقے حاجی کیمپ میں اداکی گئی جس کے بعدآبائی قبرستان میں انہیں سپردخاک کردیاگیا۔ افتخارقیصر1956 میں پشاورمیں پیدا ہوئے اور1971میں پاکستان ٹیلیویژن ( پشاورسینٹر ) سے اپنے فنی کیریئر کا آغازکیا، انھوں نے40 برس تک اردو، ہندکو اور پشتوزبان کے متعدد ڈراموں میں اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا۔ انہیں پی ٹی وی پشاور کے ایک ہندکو پروگرام سے شہرت ملی ، جس میں وہ ہندکوکی حرفیاں پیش کرتے تھے جس سے قبل وہ اپنا مشہورزمانہ مکالمہ '' اب میں بولوںکہ نہ بولوں'' بولتے۔ افتخارقیصر نے اپنے طویل فنی سفرمیں بہت سے ڈراموں میں جاندارکردارنبھائے۔ انہیں فن اداکاری پرمکمل عبور حاصل تھا۔
انہوں نے بہت سے ڈراموں میں سنجیدہ اورمنفی کرداربھی نبھائے لیکن ان کی اصل پہچان مزاح ہی بنا۔ جس سے ثابت ہوا کہ وہ خداداد فنی صلاحیتوں سے مالامال تھے اوراپنی شخصیت کوہرطرح کے کردارمیں ڈھالنے پرخوب مہارت رکھتے تھے۔ انہیں طویل فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے '' صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ''سے بھی نوازاگیا ۔صدرمملکت ممنون حسین نے ممتازاداکار افتخارقیصر کے انتقال پرگہرے دکھ کااظہارکیا ہے اور اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے مغفرت اوربلندی درجات کی دعاکی۔ صدرنے کہاکہ افتخارقیصرکی فنی خدمات کوتادیر یاد رکھاجائے گا۔
وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے اپنے تعزیتی پیغام میں نامور فنکار افتخار قیصر کے انتقال پرگہرے دکھ اورافسوس کااظہارکیا اورکہاکہ افتخار قیصرہندکو، پشتواوراردوکے عظیم اداکار تھے جن کی وفات سے آج پاکستان ایک عظیم اورمقبول عوامی فنکارسے محروم ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ پرویزخٹک نے معروف ادکار افتخار قیصر کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔وزیراعلیٰ نے اُن کے فن اور ملک کیلئے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔اپنے ایک تعزیتی پیغام میں انہوںنے دُعا کی کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے اور پسماندہ خاندان کو یہ ناقابل تلافی نقصان صبر واستقامت سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسری جانب افتخارقیصر کے ساتھ برسوں کام کرنے والے معروف اداکار نیئراعجاز، ایوب کھوسہ، عجب گل ، ذوالقرنین حیدراورباطن فاروقی نے کہا ہے کہ ہم نے ایک بہت ہی عظیم فنکارکوکھودیا ۔ افتخارقیصرایک ایسے فنکارتھے جنہوں نے اپنی زندگی میں ان گنت یادگارکردارنبھائے۔ ان کا جملہ ''اب میںبولوں کہ نہ بولوں'' پاکستان کی سرحدیں پارکرتاہوا ہراس مقام پرپہنچا جہاں پراردوزبان بولی اورسمجھی جاتی تھی۔
انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ اپنے کرداروں کوسجایا اورسنوارا۔ ان کے ساتھ کام کرنے کی بات کریں توبہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ہمیں یقین نہیں ہورہا ہے کہ ہمارا قریبی دوست، بھائی اورساتھی فنکارآج ہم میں نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ افتخار قیصرمختلف امراض میں مبتلا تھے اورکئی دن تک زندگی اورموت کی کشمکش میں لڑتے رہے۔ مگرایک بات توطے ہے کہ جب حکم ربی آجائے توپھرسب کوواپس جانا ہوتا ہے۔ اب ہم ان کیلئے دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے اوران کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں۔
سینئراداکاررشید ناز، جہانگیرجانی، عظیم سجاد، آصف خان، شاہد خان نے کہا کہ افتخارقیصر نوجوانوں کیلئے اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے چالیس برس کے فنی سفرکے دوران جہاں پشاوراوراسلام آباد ٹی وی پربہت ساکام کیا، وہیں ان کی خصوصی پروگرام میں شمولیت نے ان کے فنی قد میں مزید اضافہ کیا۔
وہ جہاں بھی جاتے ، اپنی ایک الگ پہچان چھوڑ جاتے۔ ان کے بہت سے کردارآج بھی لوگوں میں مقبول ہیں۔ ویسے توہم لوگ اپنی فنی مصروفیات کی وجہ سے ادھرادھرمصروف رہتے لیکن جب بھی کبھی ان سے ملاقات ہوتی توپھرماضی کی باتیں کرکے خوب قہقہے لگتے۔ وہ بہت ہی زندہ دل انسان تھے لیکن حالات اوربیماری نے انہیں جب گھیرا توپھروہ اپنے فن کودوسروںتک نہ پہنچاسکے اوربیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں اوران کے لواحقین کوصبرجمیل عطا کریں۔ آمین