54 ہزار بلدیاتی ملازمین کا ووٹ بینک
قوم کو توانائی کے بحران نے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلا ہوا ہے
حکومتی اراکین کی شاہ خرچیوں کے لیے مسلسل بیرونی قرضے لینے کی روش وطن عزیز کو ایسے موڑ پہ لے آئی ہے جہاں ہر پاکستانی اب تقریبا 80 ہزار 894 روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق عوام جو پہلے ہی ہوشربا مہنگائی کے بوجھ تلے نہ صرف دبے ہوئے ہیں بلکہ روزمرہ کے اخراجات کو با آسانی پورا کرنے سے قاصر ہیں، اب حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور اللے تللے کی نذر ہونے والے اندرونی و بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا بار بھی اٹھانا پڑیگا۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک میں دہشت گردی کا عفریت انسانوں کو نگل رہا ہے، قوم کو توانائی کے بحران نے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلا ہوا ہے، بنیادی ضرورتوں کے لیے انسانیت سسک رہی ہے، حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہر طبقہ فکر سراپا احتجاج ہے، ملک داخلی و خارجی خطرات میں گھرا ہوا ہے، غریب گھرانوں کے واحد کفیل 32 ہزار بلدیاتی ملازمین اور اس بے حس حکومت کی رعایا کے 22 ہزار بزرگ پنشنرز گزشتہ 3 ماہ سے اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم دہائیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔ آج جب کے ایم سی کے 54 ہزار سے زائد ملازمین گزشتہ 90 روز سے اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں، مہنگائی کے اس دور میں اپنے اہل خانہ کے علاج و معالجہ کے اخراجات، مکان کا کرایہ، بچوں کے ماہانہ تعلیمی اخراجات اور اشیائے خورد و نوش کی خریداری کے لیے پریشان ہیں، خود وہ اور ان کے بچے بھوکے سو رہے ہیں مگر ہمارے ارباب اختیار اپنے پرتعیش محلوں کے آرام دہ بستروں پر کس طرح پرسکون نیند سو رہے ہیں ۔
کبھی ظہرانوں، کبھی عصرانوں، کبھی عشائیوں تو کبھی مزید اقتدار کی ہوس میں منعقد کیے جانے والے سیاسی جلسوں میں لذیذ و ذائقہ دار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ عدالت نے متعلقہ محکمے کو حکم دیا تھا کہ ان ملازمین کو 7 دن کے اندر اندر تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کر دی جائے لیکن بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق متعلقہ محکمے نے بھی عدالت کے حکمنامے کو سنی ان سنی کر دیا ۔ خوراک کے عدم تحفظ کا شکار اور غربت کی شرح میں آبادی کے 58 فیصد تک پہنچ جانے والے ملک پاکستان کے خوش قسمت حکمران پوری قوم کو تباہ حال معیشت کی دلدل میں دھنسانے کے باوجود اپنی آسائشات اور لگژری طرز زندگی سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
اربوں روپے کی کرپشن کے اسکینڈلز میں ملوث حکمران نہایت ہی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے نہ صرف اپنا دفاع کرتے ہیں بلکہ ٹیکس گوشواروں میں بھی دھاندلیوں کے ریکارڈ قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ ذاتی طیاروں، بلٹ پروف گاڑیوں اور اپنی شاہانہ طرز زندگی کو مزید چار چاند لگانے کے خواہشمند یہ حکمران ترقی یافتہ ممالک سے اربوں ڈالر کے قرضوں پہ قرضے لیے چلے جا رہے ہیں۔ قرضے امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی لیتا ہے مگر وہ ان قرضوں کو پیداواری مقاصد پر خرچ کرتا ہے۔ زمین میں چھپے ہوئے تیل اور معدنیات کے خزانے نکالنے، زراعت کو ترقی دینے، صنعتی اور سائنسی میدانوں میں تحقیق کے ذریعے نت نئی دریافتیں دنیا کے سامنے لانے، ناقابل علاج تصور کیے جانے والے امراض کا علاج دریافت کرنے، کائنات کے چھپے ہوئے سربستہ رازوں کا کھوج لگانے اور اپنے ملک کے شہریوں کی فلاح و بہبود اور انھیں سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے قرضے لیے جاتے تو آج پاکستان دنیا کا سپر پاور ملک ہوتا مگر افسوس کہ یہ قرضے ملک پر استعمال ہونے کے بجائے ملک پر قابض اشرافیہ کے عیش و عشرت پر خرچ ہو رہے ہیں۔
آج وطن عزیز پاکستان توازن ادائیگی کے ایک بحران کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے کے باعث روپے کی قدر ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹ رہی ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے اور بھوکے سونے والوں کی تعداد ہماری معیشت کی سنگین کیفیت کی نشاندہی کر رہی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران آئی ایم ایف سمیت کئی عالمی اداروں کو 4 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں جب کہ ملک کو اوسطا 14 سے 15 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ معیشت کی یہی صورتحال رہی تو پاکستان کا شمار انتہائی غریب ملکوں میں ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک کی مجموعی حالت زار، دہشت گردی، بیروزگاری، مہنگائی، تعلیم و صحت، لینڈ مافیا کے بے رحم پنجے، توانائی کا بحران، گیس بجلی کی عدم دستیابی، اقتصادی نظم و ضبط میں ناکامی، موثر منصوبہ بندی کا فقدان، کرپشن کا زہر، ٹیکس چوری، رشوت، ملکی سرمائے کا فرار، بیرونی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی، صنعتوں کی بیرون ملک منتقلی، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اس امر کے عکاس ہیں کہ ہمارے حکمران قطعی ناکام ہو چکے ہیں۔
3 ماہ میں شفاف انتخابات کرانے کے دعوے کرنے والے ہمارے حکمران 3 ماہ سے اپنی تنخواہوں اور پنشن کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے والے54 ہزار بلدیاتی ملازمین کو تو انصاف فراہم کر نہ سکے، 18 کروڑ عوام کو صاف و شفاف انتخابات کیا خاک دیں گے۔ پانچ سالہ تاریخی حکومتی مدت پوری کرنے والی حکومت کرپشن اور ملکی مسائل کے حل میں ناکامی کی تاریخ بھی رقم کر رہی ہے۔ قومی وسائل اس تاریخی دور میں جس بے دردی سے لوٹے گئے ہیں اس پر ملک کی اعلیٰ عدالتیں تک ماتم کناں ہیں۔ ملک میں ہر روز تقریبا ْ 8 ارب روپے کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں۔ سی این جی کے فقدان کے پیچھے با اختیار حلقوں کی 80 ارب روپے کی کرپشن بتائی جا رہی ہے مگر حکمرانوں کی زبان سب اچھا ہے کی گردان کر رہی ہے۔
کے ایم سی کے54 ہزار حاضر سروس و ریٹائرڈ ملازمین آنے والے انتخابات میں یقیناْ کسی نہ کسی انتخابی حلقے سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے جائیں گے تو سوچیں کہ کئی مہینوں تک اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم یہ بلدیاتی ملازمین کس کو ووٹ دینا پسند کریں گے جب کہ معاشی پریشانی کے دنوں میں کسی جانب سے بھی ان کی دادرسی نہیں کی گئی۔ ماہرین نفسیات کے مطابق مالی پریشانیوں میں اضافے کے باعث تقریبا 35 فیصد افراد سالانہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر حکومت کی جانب سے روزگار کی بر وقت فراہمی جاری رہے تو افراد مالی پریشانیوں میں مبتلا نہ ہوں اور نہ ہی وہ خودکشی جیسے قبیح فعل کی انجام دہی میں اپنی نجات محسوس کریں۔ ملک کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ فیصلوں کی ضرورت ہے جس سے عام انسان کو معاشی سکون حاصل ہو سکے۔ ارباب اقتدار کو ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج سے سبق سیکھنا چاہیے ورنہ اقتدار تو جس جس کو بھی ملا اسے بلا ٓخر رخصت ہونا پڑا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک میں دہشت گردی کا عفریت انسانوں کو نگل رہا ہے، قوم کو توانائی کے بحران نے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلا ہوا ہے، بنیادی ضرورتوں کے لیے انسانیت سسک رہی ہے، حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہر طبقہ فکر سراپا احتجاج ہے، ملک داخلی و خارجی خطرات میں گھرا ہوا ہے، غریب گھرانوں کے واحد کفیل 32 ہزار بلدیاتی ملازمین اور اس بے حس حکومت کی رعایا کے 22 ہزار بزرگ پنشنرز گزشتہ 3 ماہ سے اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم دہائیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔ آج جب کے ایم سی کے 54 ہزار سے زائد ملازمین گزشتہ 90 روز سے اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں، مہنگائی کے اس دور میں اپنے اہل خانہ کے علاج و معالجہ کے اخراجات، مکان کا کرایہ، بچوں کے ماہانہ تعلیمی اخراجات اور اشیائے خورد و نوش کی خریداری کے لیے پریشان ہیں، خود وہ اور ان کے بچے بھوکے سو رہے ہیں مگر ہمارے ارباب اختیار اپنے پرتعیش محلوں کے آرام دہ بستروں پر کس طرح پرسکون نیند سو رہے ہیں ۔
کبھی ظہرانوں، کبھی عصرانوں، کبھی عشائیوں تو کبھی مزید اقتدار کی ہوس میں منعقد کیے جانے والے سیاسی جلسوں میں لذیذ و ذائقہ دار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ عدالت نے متعلقہ محکمے کو حکم دیا تھا کہ ان ملازمین کو 7 دن کے اندر اندر تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کر دی جائے لیکن بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق متعلقہ محکمے نے بھی عدالت کے حکمنامے کو سنی ان سنی کر دیا ۔ خوراک کے عدم تحفظ کا شکار اور غربت کی شرح میں آبادی کے 58 فیصد تک پہنچ جانے والے ملک پاکستان کے خوش قسمت حکمران پوری قوم کو تباہ حال معیشت کی دلدل میں دھنسانے کے باوجود اپنی آسائشات اور لگژری طرز زندگی سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
اربوں روپے کی کرپشن کے اسکینڈلز میں ملوث حکمران نہایت ہی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے نہ صرف اپنا دفاع کرتے ہیں بلکہ ٹیکس گوشواروں میں بھی دھاندلیوں کے ریکارڈ قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ ذاتی طیاروں، بلٹ پروف گاڑیوں اور اپنی شاہانہ طرز زندگی کو مزید چار چاند لگانے کے خواہشمند یہ حکمران ترقی یافتہ ممالک سے اربوں ڈالر کے قرضوں پہ قرضے لیے چلے جا رہے ہیں۔ قرضے امریکا جیسا ترقی یافتہ ملک بھی لیتا ہے مگر وہ ان قرضوں کو پیداواری مقاصد پر خرچ کرتا ہے۔ زمین میں چھپے ہوئے تیل اور معدنیات کے خزانے نکالنے، زراعت کو ترقی دینے، صنعتی اور سائنسی میدانوں میں تحقیق کے ذریعے نت نئی دریافتیں دنیا کے سامنے لانے، ناقابل علاج تصور کیے جانے والے امراض کا علاج دریافت کرنے، کائنات کے چھپے ہوئے سربستہ رازوں کا کھوج لگانے اور اپنے ملک کے شہریوں کی فلاح و بہبود اور انھیں سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے قرضے لیے جاتے تو آج پاکستان دنیا کا سپر پاور ملک ہوتا مگر افسوس کہ یہ قرضے ملک پر استعمال ہونے کے بجائے ملک پر قابض اشرافیہ کے عیش و عشرت پر خرچ ہو رہے ہیں۔
آج وطن عزیز پاکستان توازن ادائیگی کے ایک بحران کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے کے باعث روپے کی قدر ہر گزرتے دن کے ساتھ گھٹ رہی ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے اور بھوکے سونے والوں کی تعداد ہماری معیشت کی سنگین کیفیت کی نشاندہی کر رہی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران آئی ایم ایف سمیت کئی عالمی اداروں کو 4 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں جب کہ ملک کو اوسطا 14 سے 15 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ معیشت کی یہی صورتحال رہی تو پاکستان کا شمار انتہائی غریب ملکوں میں ہونے کا خدشہ ہے۔ ملک کی مجموعی حالت زار، دہشت گردی، بیروزگاری، مہنگائی، تعلیم و صحت، لینڈ مافیا کے بے رحم پنجے، توانائی کا بحران، گیس بجلی کی عدم دستیابی، اقتصادی نظم و ضبط میں ناکامی، موثر منصوبہ بندی کا فقدان، کرپشن کا زہر، ٹیکس چوری، رشوت، ملکی سرمائے کا فرار، بیرونی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی، صنعتوں کی بیرون ملک منتقلی، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اس امر کے عکاس ہیں کہ ہمارے حکمران قطعی ناکام ہو چکے ہیں۔
3 ماہ میں شفاف انتخابات کرانے کے دعوے کرنے والے ہمارے حکمران 3 ماہ سے اپنی تنخواہوں اور پنشن کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے والے54 ہزار بلدیاتی ملازمین کو تو انصاف فراہم کر نہ سکے، 18 کروڑ عوام کو صاف و شفاف انتخابات کیا خاک دیں گے۔ پانچ سالہ تاریخی حکومتی مدت پوری کرنے والی حکومت کرپشن اور ملکی مسائل کے حل میں ناکامی کی تاریخ بھی رقم کر رہی ہے۔ قومی وسائل اس تاریخی دور میں جس بے دردی سے لوٹے گئے ہیں اس پر ملک کی اعلیٰ عدالتیں تک ماتم کناں ہیں۔ ملک میں ہر روز تقریبا ْ 8 ارب روپے کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں۔ سی این جی کے فقدان کے پیچھے با اختیار حلقوں کی 80 ارب روپے کی کرپشن بتائی جا رہی ہے مگر حکمرانوں کی زبان سب اچھا ہے کی گردان کر رہی ہے۔
کے ایم سی کے54 ہزار حاضر سروس و ریٹائرڈ ملازمین آنے والے انتخابات میں یقیناْ کسی نہ کسی انتخابی حلقے سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے جائیں گے تو سوچیں کہ کئی مہینوں تک اپنی تنخواہوں اور پنشن سے محروم یہ بلدیاتی ملازمین کس کو ووٹ دینا پسند کریں گے جب کہ معاشی پریشانی کے دنوں میں کسی جانب سے بھی ان کی دادرسی نہیں کی گئی۔ ماہرین نفسیات کے مطابق مالی پریشانیوں میں اضافے کے باعث تقریبا 35 فیصد افراد سالانہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر حکومت کی جانب سے روزگار کی بر وقت فراہمی جاری رہے تو افراد مالی پریشانیوں میں مبتلا نہ ہوں اور نہ ہی وہ خودکشی جیسے قبیح فعل کی انجام دہی میں اپنی نجات محسوس کریں۔ ملک کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ فیصلوں کی ضرورت ہے جس سے عام انسان کو معاشی سکون حاصل ہو سکے۔ ارباب اقتدار کو ملک بھر میں ہونے والے عوامی احتجاج سے سبق سیکھنا چاہیے ورنہ اقتدار تو جس جس کو بھی ملا اسے بلا ٓخر رخصت ہونا پڑا ہے۔