خاک میں کیا صورتیں ہوں گی

اگر مقصدیت اور عوام کی فلاح مقصود ہو تو اس میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں

anisbaqar@hotmail.com

MULTAN:
ایک وقت تھا کہ جب چور اتنے ڈھیٹ نہ ہوتے تھے کہ وہ پرچیاں بھیج کر اہل ثروت سے رقم منگواتے تھے بلکہ جب وہ رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے تو ہاتھ چھڑا کر بھاگتے تھے، آلہ قتل بھی پاس نہ ہوتا تھا۔ آج کل بیشتر لیڈران کا بھی یہی حال ہے، نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ کوئی مقصد زندگی، محض عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ رہبری رہزنی میں بدلتی جارہی ہے، سرزمین پاکستان ان کی حکمت عملی سے لالہ رنگ ہے اور یہ بھی یہی شور اور دشنام طرازی اور ماتم وگریہ کی آواز بلند کر رہے ہیں جو خود عوام کو تصادم پر آمادہ کرکے مسالک کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔

نظریاتی سیاست خواہ وہ دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی، اگر مقصدیت اور عوام کی فلاح مقصود ہو تو اس میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں، بشرطیکہ وہ کسی بیرونی طاقت کے ایما پر لیڈری نہ کر رہے ہوں ورنہ انھی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں کی لیڈرشپ پر ہمیشہ استعماری قوتوں کا ہاتھ رہا ہے کبھی سوشلزم کا نام تو کبھی دین اسلام کا نام لے کر سیاست کی جاتی رہی، مذہبی جماعتوں جن کی اساس تھی، اصول تھا اور مقصدیت کی سیاست کرتی تھیں وہ بھی مجروح ہوگئیں کیونکہ اب تو یہ ایک سپر اسٹور میں ایک ہی قسم کے گارمنٹ کی شکل اختیار کرگئی ہیں، ڈیزائن سب کا تقریباً ایک سا ہے، ریٹ اوپر نیچے ہیں، کلر الگ الگ ہیں، اب خریدار کو یہ نہیں معلوم کہ کس کا رنگ پکا ہے اور کون سا جامہ ایک دھلائی کے بعد قابل دید نہ رہے گا۔

عوام کا بھی یہی حال ہے کہ وہ اپنی منزل کے لیے کس کی رہبری پر تکیہ کریں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اصل اور نقل کی تمیز نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ بھی انھی کے طفیل خوش و خرم ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ سرزمین پاکستان زبردست انتشار، لاقانونیت اور عوام کے لیے مقتل بنتی جارہی ہے۔ نسلی، نظریاتی اور مسالک کی تفریق یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ سیکڑوں کی تعداد میں قتل ہورہے ہیں اور خاص کر ان لوگوں کو لقمہ اجل بنایا جارہا ہے جو اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں خصوصیت کے ساتھ جمہوریت کے آخری 4 برس تو انتہائی صبر آزما رہے ہیں اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے زندگی کی گزرگاہ اور تنگ ہوتی جارہی ہے، تاک تاک کے ان لوگوں پر وار کیا جارہا ہے جو قوم کا گراں قدر اثاثہ تھے۔ کراچی کے معروف حکیم جناب محمود احمد برکاتی جو طب کے ایک منفرد طبیب تھے ان کو بھی مطب میں گھس کر مارا گیا، مرحوم نہ کسی محدود نظریات کے مالک تھے بلکہ نہایت روشن خیال شخصیت تھے۔ والد صاحب مرحوم پروفیسر مجتبیٰ حسین ان سے اکثر مختلف مسالک اور صوفیا کرام کے موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ خواجہ غریب نواز کی شاعری اور صوفیانہ کلام پر گفتگو پر خاصی بحث میرے سامنے ہورہی تھی اسی دوران والد صاحب نے برکاتی صاحب سے فرمایا کہ ان دنوں مجھے نیند نہیں آتی، بے خوابی کی کیفیت ہے، حکیم صاحب اٹھے اور ان کے تلوے میں کچھ لگادیا، وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوگئے۔ جب والد صاحب نے پوچھا کہ یہ کیا دوا تھی تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بس حب برکاتی۔


بعدازاں چند ادویات دیں اور نیند نارمل ہوگئی، ابھی لاہور میں نہایت عالم فاضل نشتر میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر حیدر اور ان کے دس سالہ بچے کو قتل کیا گیا جو بینائی سے محروم لوگوں کے لیے گوشہ امید تھے، ان کا بچہ جس کی عمر بمشکل دس برس ہوگی اس کو بھی آغوش لحد میں پہنچادیا۔ ڈاکٹر حیدر لاہور کی ہردلعزیز شخصیت اور سوشل ورکر تھے۔ ذاتی عقائد اور نظریات جب تک کسی گروہ اور فرد کے لیے باعث پریشانی نہ بنے تو اس سے پریشانی کیا اور اگر پریشانی ہے تو پھر اس کو استدلال کی روشنی میں حل کرنا یا خلاف قانون ہو تو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے، مگر اب افراد نے قانون کو خود ہاتھ میں لے رکھا ہے اور سیاسی رہنما ان کے محافظ ہیں، ان کا صرف یہ نعرہ ہے کہ جمہوریت کی ریل کہیں ڈی ریل نہ ہوجائے، مگر افسوس کا عالم کہ جمہوریت کی ریل جب سے پٹڑی پر چڑھی عوام ریل ڈی ریل ہوچکی ہے۔

ہزارہ برادری جو کوئٹہ میں تقریباً 2 صدیوں سے زائد عرصے سے آباد ہے ان کو بھی جمہوری دور میں ڈی ریل کیا جارہا ہے، ان پر حملہ اس لیے بھی کیا جارہا ہے کہ وہ کوئٹہ کی کلیدی کاروباری جگہ پر آباد ہیں۔ دوم وہ مسلک کے اعتبار سے شیعہ مسلمان ہیں، ان کو دور سے پہچانا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی اشکال کچھ چائنیز نقوش اور کچھ فلپائنی نقوش کی حامل ہیں، تعلیم کا اوسط ان میں تقریباً 80 فیصد ہے، آپس میں فارسی میں گفتگو کرتے ہیں لہٰذا دور سے ان کے نقوش اور گوری رنگت کی بنیاد پر پہچان ہوجاتی ہے۔ زیارات پر جانے والے اکثر لوگوں کو گزشتہ برسوں بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا، یہ واقعات کوئٹہ سے تقریباً4 میل کے فاصلے پر واقع مستونگ شہر میں ہوئے یا اس کے قرب و جوار میں۔

رہ گیا کراچی شہر کا حال تو یہاں کئی قسم کا بازار لگا ہے، فرقہ وارانہ، بھتہ خوری، سیاسی وابستگی اور ڈکیتی۔ حالیہ دنوں میں ایک عجیب دلخراش واقعہ رونما ہوا جس میں دولہا کی کار کو نشانہ بنایا اور ہلاک کردیا گیا، ہلاک ہونے والے لوگ بلوچ تھے، ان کے گھر پر جب شادی کی روشنی کی گئی تو بھتہ کی پرچی آگئی یا فون آیا جس پر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے لہٰذا ظالموں نے بارات پر فائرنگ کردی۔ انسانی جان اتنی ارزاں ہے اور جمہوریت کی ریل رواں ہے۔ اب عوام کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پارٹیوں کی کشیدہ صورت حال اور عوام پر ان کی بدنظری کہاں لے جائے گی، ملک کا روڈ میپ مستقبل نظر نہیں آرہا ہے۔ بوائلر گیس کے بجائے گرم کرنے کے لیے لکڑی جلائی جارہی ہے، توانائی کا یہ بحران زرمبادلہ کے ذخائر اور معاشی ابتری نے روپے کی کمر توڑ دی ہے، ڈالر تقریباً 100 روپے کا ہوگیا ہے اور اگر یہی صورت حال رہی تو 6 ماہ میں 130 یا 140 کا ہوجائے گا، یہ تو بھلا کیجیے تارکین وطن جو دور بیٹھ کر بھی ملک میں رقوم بھیج رہے ہیں، پاکستان کی ٹوٹل ایکسپورٹ کا دگنا زرمبادلہ مہیا کر رہے ہیں ورنہ ڈالر 200 روپے کا ہوجاتا، اس پر بھی ان غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی اہمیت کا اندازہ پاکستانیوں کو نہیں۔

سیلاب میں وہ کھڑے، زلزلے میں وہ کھڑے، سیاسی ابتری پر وہ حیران اور پریشان، ہر دم وہ پاکستان کی بقا کا سوچتے ہیں کیونکہ وہ اپنے والدین اور بال بچوں کے لیے رقوم بھیجتے ہیں اور پراپرٹی خریدتے ہیں، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پورے کرنے کا اب یہ واحد مضبوط ذریعہ رہ گئے ہیں، مگر بدقسمتی سے علامہ طاہر القادری کی پٹیشن کی سماعت نے ان کے اعتماد کو شکستہ کردیا، وہ اپنے کو برابر کا شہری سمجھنے میں زیادہ پرحوصلہ نہیں۔ سرمایہ کاری تو ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ انڈسٹری بند اور سرمایہ کار خوفزدہ ہیں، ایسے میں نئی سرمایہ کاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور پاکستان میں پراپرٹی میں جو تھوڑا ابھار آیا ہوا ہے وہ بھی اب دم توڑ جائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ کراچی میں دنیا کی سب سے اونچی بلڈنگ تعمیر ہوگی، 20 منزل پر اگر آگ لگ جائے تو سیڑھی نہیں کہ آگ کیسے بجھائی جائے، مگر دنیا کی سب سے بڑی بلڈنگ بنانے کا عزم ہے، یہ فیصلہ برا نہیں، مگر عمارتوں کے بنانے سے قبل حالات پر سکون کرنے کی ضرورت ہے، گلگت سے لے کر پارہ چنار اور ہنگو تک اور ہنگو سے کوئٹہ اور کراچی تک تاک تاک کر نشانہ لگایا جارہا ہے، ایسی صورت میں حقیقی ترقی کیونکر ممکن ہے، اتنے خراب حالات کے باوجود ابھی بھی پاکستانی قوم کا اپنے ملک سے اعتماد نہیں اٹھا ہے، ابھی زمین کی محبت باقی ہے، جو امید کی ایک کرن ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ اس خلا کو کوئی تو پر کرے گا، اسے رہبر کی تلاش ہے، ممکن ہے کہ موجودہ لیڈروں میں سے کوئی زمین کی اس پکار کو سمجھے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے آگے بڑھے، اگر امید بھی جاتی رہی تو پھر کوئی الیکشن عوام کے دکھوں کا مداوا نہ کرسکے گا، عوام یونہی قتل ہوں گے، ان کے ساتھی احباب گھر والے قبریں کھودتے رہیں گے اور حالیہ کوئٹہ کے المیے کا ایک نظارہ کہ قبروں میں جب لوگ اتارے گئے تو بعض خواتین اپنے پیاروں کے ساتھ زندہ دفن ہونے کے لیے قبروں میں لیٹ گئیں کہ وہ اپنے لالہ وگل کو کس طرح دفن کردیں، ان کو دکھ اتنا پہنچا کہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود 'ستی' ہونے کو تیار ہوں گے۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں
Load Next Story