قومی ہاکی ٹیم کا سیمی فائنل تک رسائی کا راستہ مشکل ہو گیا

تمام توجہ جنوبی افریقا اور آسٹریلیا میچوںپر مرکوزکرنے کی ضرورت ہے


Mian Asghar Saleemi August 05, 2012
اسٹیمنا کی کمی‘ ناقص دفاعی کھیل اور مؤثر حکمت عملی کا فقدان،برطانیہ کے خلاف شکست کو بھول کر تمام توجہ جنوبی افریقا اور آسٹریلیا میچوںپر مرکوزکرنے کی ضرورت ہے (فوٹو ایکسپریس)

KARACHI: بلاشبہ فٹ بال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے، ٹینس کے چاہنے اور محبت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، انٹرنیشنل ایونٹس بالخصوص گرینڈ سلام مقابلے جب بھی شروع ہوتے ہیں تو کروڑوں پرستاروں کے دل اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے لئے دھڑکتے ہیں۔ یہی حال باکسنگ، بیس بال، سوئمنگ اور دیگر گیمز کا بھی ہے۔ اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تودنیا میں ہاکی کھیلنے اور اس کے مقابلوں کو دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔

70 منٹ کے اس کھیل میں نہ جانے میچ کا پانسہ کتنی بار پلٹتا ہے لیکن فتح انہیں ٹیموں کا مقدر ٹھہرتی ہے جو ہاکی کے بنیادی اصول حریف سائیڈز کے کھلاڑیوں کے ساتھ چالاکی کے فن سے بخوبی آگاہ ہوتی ہیں۔ پاکستان کے لئے تو یہ کھیل کچھ زیادہ ہی مہربان رہا ہے۔ کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی میلے اولمپکس میں سب سے پہلا میڈل ہاکی نے ہی پاکستان کو دلایا تھا۔گرین شرٹس اب تک اولمپکس میں 3 طلائی تمغے اپنے نام کر چکی ہیں۔ قومی ہاکی ٹیم کو یہ کامیابیاں 1960 کے روم،1968کے میکسیکو اور 1984کے لاس اینجلس گیمز میں ملی تھیں۔

اس کے علاوہ گرین شرٹس میگا ایونٹس کے دوران 3 سلور اور2 برانز میڈلز بھی اپنے نام کر چکی ہے۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں کھیلی جانی والی تمام گیمز نے مل کر اتنے میڈلز پاکستان کو نہیں جتوائے جتنے اکیلے ہاکی کے کھیل نے پاکستان کی جھولی میں ڈالے ہیں ۔ پاکستان ہاکی ٹیم عالمی سطح پر میڈلز کی نصف سینچری تو پہلے ہی مکمل کر چکی ہے تاہم پاکستان نے اولمپکس میں آخری بار کانسی کا تمغہ 1992ء کے اولمپکس میں حاصل کیا تھا۔20 برس گزر جانے کے بعد قسمت کی دیوی ہم سے کچھ اس طرح روٹھی ہے کہ ہمیں خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑ رہا ہے۔

لندن اولمپکس میں پاکستان کھلاڑی اتھلیٹکس، سوئمنگ، شوٹنگ اور ہاکی کے کھیلوں میں شریک ہیں۔ سوئمنگ اور شوٹنگ میں ہمارے کھلاڑی آخری نمبروں پر رہ کر پاکستان کا نام خوب'' روشن'' کر چکے، اتھلیٹکس کے گزشتہ روز کے 100 میٹر مقابلے میں لیاقت علی بھی میگا ایونٹ سے باہر ہو چکے ہیں۔لندن اولمپکس سے قبل راقم نے میگا ایونٹ کا حصہ بننے والے دستے کے حوالے سے پشین گوئی کی تھی کہ کھلاڑی اس بار بھی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میںکامیاب نہیں ہو سکیں گے۔اس پر بعض حلقوں کی طرف سے تنقید بھی ہوئی کہ قومی دستے میں شریک کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے کبھی عالمی سطح پر میڈلز حاصل کرنے لئے سنجیدہ کوششیں ہی نہیں کیں۔ ہمارے سیاستدانوںکی طرح بعض کھلاڑی بھی شارٹ کٹ راستہ استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان میں سے اکثر اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔اس وقت ملک بھر کی فیڈریشنوں کی زیادہ تر تنظیموں کی باگ دوڑ سیاستدانوں، حاضر اور ریٹائرڈ فوجی افسروں اور بیورو کریٹس کے ہاتھوں میں ہے۔یہ عہدیدار اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے فیڈریشنوں کے سربراہ بن جاتے ہیں اور عالمی سطح پر ہونے والے ایونٹس اور انٹرنیشنل تنظیموں کے اجلاسوں کی آڑ میں دنیا بھر کے خوب سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ملک کی کھیلوں کی تنظیموں کے سربراہ وہ ہوتے ہیں جن کا متعلقہ فیڈریشن سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

لندن اولمپکس میں شریک گیمز میں رہ گیا ہاکی کا کھیل تو گزشتہ برس نیوزی لینڈ میں شیڈول چیمپئنز ٹرافی اور حال ہی میں ہونے والے سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد مبصرین کا خیال تھا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی گرین شرٹس ریت کی دیوار ثابت ہو گی اور حریف سائیڈز سے بآسانی شکست کے بعد میڈلز کی دوڑ سے باہر ہو جائے گی لیکن پاکستانی ہاکی ٹیم نے مضبوط حریف سپین کے خلاف اپنا افتتاحی میچ 1-1سے ڈرا کھیل کر ہاکی کے پنڈتوں اور پجاریوں کے تمام اندازے اور پشین گوئیاں غلط ثابت کر دیئے، میچ کے دوران کھلاڑیوں نے بعض مواقع پر گول کرنے کے مواقع تو پیدا کئے لیکن وہ گیند کو جال کی راہ دکھانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

اگر ان مواقعوں سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پاکستان اس میچ کا نتیجہ اپنے حق میں بھی کر سکتا تھا۔ میچ کے بعد سابق اولیمپئنز کی رائے تھی کہ گرین شرٹس کی ماضی قریب کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہمارا خیال تھا کہ قومی ٹیم کوئی کارنامہ نہیں دکھا سکے گی لیکن سپین کے خلاف اچھی کارکردگی کے بعد ہماری سہیل عباس الیون سے میڈل کی امیدیںنظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ میگا ایونٹ کے دوسرے میچ میں قومی ٹیم نے ایک بار پھر کمال کر دکھایا اور ارجنٹائن کو 2-0 سے شکست دے دی۔ اس مقابلے کے بعد یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ گئیںکہ پاکستان مضبوط حریف انگلینڈ کو بھی ناکوں چنے چبوا کر میگا ایونٹ کے سیمی فائنل تک کا راستہ ہموار کر لے گا۔

لیکن میچ کے دوران گرین شرٹس اپنی شاندار کارکردگی جاری نہ رکھ سکی اور یکطرفہ مقابلے میں 4-1 سے میچ گنوا بیٹھی۔ مقابلے کے دوران جہاں کھلاڑیوں نے بعض اہم مواقعوں پر گول کرنے کے سنہری مواقع ضائع کئے وہاں ٹیم مینجمنٹ کی دفاعی پالیسی بھی گرین شرٹس کی ہار کا سبب بنی۔ حقیقت کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو لندن اولمپکس میں سہیل عباس اور ریحان بٹ کے علاوہ باقی تمام سینئر کھلاڑیوں نے مایوس کیا ہے۔ تجربہ کار کھلاڑیوں کو حتمی سکواڈ میں شامل کرتے وقت پی ا یچ ایف کی سلیکشن کمیٹی کا خیال تھا کہ ان سینئرزکی موجودگی ٹیم کے لئے سود مند ثابت ہو گی اور یہ کھلاڑی جونیئرز کے ساتھ مل کر پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کریں گے۔

سینئرز کی سب سے بڑی خامی سٹیمنا کی کمی ہے جس کی وجہ سے ٹیم مینجمنٹ کو ان کھلاڑیوں کو گرائونڈ میں اتارنے کے چند منٹوں کے بعد ہی آرام کی غرض سے جلد ہی باہر بلانا پڑتا ہے۔ اب تک کے میچز کے دوران گول کیپر عمران شاہ بھی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں میگا ایونٹ کے مقابلوں سے زیادہ فوٹو شوٹس کروانے اور انہیں سماجی ویب سائٹ پر لگانے میں دلچسپی ہو۔ میزبان انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم جس سٹیج پر ہے وہاں اسے ''مارو یا مر جائو'' کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا اور سیمی فائنل تک رسائی کے لئے جنوبی افریقہ کی صورت میں قدرے کمزور اور آسٹریلیا کی شکل میں مضبوط دیواروں کو گرانا ہو گا۔

آسٹریلیا کے خلاف میچ ڈرا کئے جانے کی صورت میں بھی سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہے تاہم اس کے لئے سہیل عباس الیون کو اگر مگر کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ لندن اولمپکس تک رسائی حاصل کرنے والی کوئی بھی ٹیم کمزور نہیں ہوتی تاہم ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے پاکستان ہاکی ٹیم 5اگست کو جنوبی افریقہ کے خلاف شیڈول میچ میں حریف سائیڈ کو شکست دینے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔تاہم کھلاڑیوں کو گول کرنے کے مواقع ضائع کرنے کی بجائے گیند کو جال کی راہ دکھانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گی، رہا آسٹریلیا کے خلاف میچ قومی ٹیم کو اسے ہرانا مشکل ضرور ہوگا لیکن ناممکن ہر گز اس لئے نہیں کیونکہ جس ارجنٹائن ٹیم کو پاکستان نے 2-0 سے ہرایا، اسی ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف میچ برابر کھیلا ہے۔

لندن اولمپکس میں سوئمنگ'ایتھلیٹکس اور شوٹنگ کے کھلاڑیوں کی شرمناک شکست نے پاکستان کے 18 کروڑ سے زائد عوام کو خاصا مایوس کیا ہے، تاہم انہیں ہاکی ٹیم سے میڈل کی امید کی کرن اب بھی نظر آ رہی ہے، اب یہ کھلاڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں کی محبت کا جواب کس طرح اور کس انداز میں دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں