شمع فروزاں
امیر لوگوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں
یہ حقیقت ہے دنیا کے ہر شخص پر برا وقت ضرورآتا ہے، گھنٹوں، دنوں، مہینوں اور سالوں تک مبنی ہوتا ہے۔ استقامت و قناعت پسند لوگ اس کو بڑی خوش اسلوبی، احتیاط، میانہ روی سے گزار لیتے ہیں۔ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جو کام بھی کریں وہ برا ہوجاتا ہے لہٰذا ایسے وقت کو سمجھ کرچلیں اور ایسے کاموں سے دور رہیں جو مزید برائی پیدا کریں۔ شاید یہ بھی درست ہے کہ بڑے بڑے ذہین، عقلمند چوٹ کھا جاتے ہیں۔ کوئی مشوروں پر چوٹ کھاتا ہے کوئی اپنی خود سری یا تکبر میں آکر نقصان پاتا ہے۔
تکبرکوکبھی اچھا نہیں سمجھا گیا ہمیشہ اس کی تلقین کی گئی بڑے بڑے امرا، رؤسا، کاروباری افراد پر برا وقت آیا کاروباری کنگال ہوگئے امرا و رؤسا ساری دولت کھو بیٹھے، درویش وہی درویش رہا، فقیر وہی فقیر رہا وہ کیا جانے امیری کیا ہوتی ہے اس لیے وہ لوگ کبھی دولت کی طرف نہیں آئے درویش اپنی درویشی میں خوش باش ہے اور فقیر کہتا ہے ف سے فکر ق سے قناعت ی سے یاد الٰہی ر سے رضائے الٰہی۔ اس کا کہنا ہے میں تو ان باتوں پر ہوں مجھے کیا ضرورت دولت و زر کی، میرے لیے یہ باتیں عزیز ہیں جن پر میں قائم ہوں۔ لکھنے والے لکھ رہے ہیں بولنے والے بول رہے ہیں کس پر کتنا اثر ہوتا ہے کہا نہیں جاسکتا۔ کوئی طاقت حاصل کرکے کس قدر مراعات حاصل کرتا ہے یہ اس کی ذہانت پر ہے ذہین لوگ جہاں یا جس عہدے پر فائز ہوتے ہیں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ان کی ذہنی صلاحیت ہے ان کو اس کی کوئی فکر نہیں کبھی ان پر برا وقت آسکتا ہے بلکہ شاید پہلے سوچ لیتے ہیں آنے والے برے وقت کے لیے اتنا کچھ کرلیں تاکہ زندگی خوشحال رہے۔
مکافات عمل سے مشکل ہے بچنا اسی لیے کہا گیا ہے اچھا کرو اچھا پاؤ گے اور برا کرو گے تو برا پاؤ گے۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوا سب نے دیکھا اور محسوس کیا لیکن نہ جانے کیوں برائی ختم نہ ہوئی بلکہ اب مجھ کو احساس ہو رہا ہے شاید برائی بڑھتی جا رہی ہے کیا شمع فروزاں ہے جو کسی آندھی طوفان سے مقابلہ کرے۔ ہر شے فانی ہے میرے خیال میں ہرکس و باشد اس امر سے بخوبی واقف ہے یہ دہر فانی ہے ایک دن اس نے بھی ختم ہونا ہے۔ جو لوگ حقائق سے چشم پوشی نہیں کرتے ان پر قائم رہتے ہیں اگر کبھی ان پر برا وقت آتا ہے تو اتنا شدید نہیں ہوتا اس لیے وہ تو پہلے حق گو رہے بداعمالیوں سے گریز کیا۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ چند لوگ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں یہ چراغ بجھ رہے ہیں میرے ساتھ جلتے جلتے۔ یہ ان کی سوچ ہے جس کو بدلا نہیں جاسکتا۔ کہتے ہیں ٹھوکر کھا کر انسان سدھر جاتا ہے اور ان کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے جس کے باعث اس نے اپنی تذلیل کرائی برے الفاظ میں اس کو نوازا گیا سب بھول جاتا ہے۔
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے مصیبتیں و پریشانیاں وہ سب آزمائش ہیں لہٰذا آزمائش میں ثابت قدم رہنا چاہیے یہ چراغ بجھ رہے ہیں ان کے ساتھ جلتے جلتے۔ آپ اب غمزدہ ہیں معصوم بن رہے ہیں شاید بھول گئے اپنی خوشیوں کو گیلی سلگتی لکڑی سے آگ دکھائی اگر آپ کے اشک پریشانیوں، مصیبتوں کی قیامت بذریعہ اشک خود ڈھائی پھر آپ کیوں روئے۔ سمجھ لینا چاہیے جو آپ نے بویا وہی کاٹ رہے ہیں اپنی چشم فلک اور چشم زیریں کے خود ذمے دار ہیں کسی نے آپ کے ساتھ کچھ نہیں کیا اپنے پیروں میں خود کلہاڑی ماری۔
اکثر لوگ کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سمجھا یہ ہوا ہمیشہ بھیگی رہے گی اور موسم رہے گا گلابی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں بڑے نامور، جاہ وجلال والے نہ رہے سیکڑوں سال بہت گئے بات وہی ہے کہیں ہے روشنی اور کہیں ہے اندھیرا۔ اگر انسان تاریکی میں چلا جائے تو اس کو ذہن اچھا رکھنا چاہیے۔
بحیثیت انسان ہم کو یہ سوچ لینا چاہیے ظلم کبھی نہیں چلتا تاریخ اس امر کی گواہ ہے بڑے بڑے ظالم و جلادوں کو دنیا سے نیست و نابود کردیا گیا ان کا خاندان بھی نہ رہا کوئی نام لیوا نہیں اس لیے کہ وہ ظالم تھے۔ نیک، ہمدرد، ملک و عوام پرست لوگوں کو آج بھی قوم یاد کرتی ہے وہ اچھے الفاظ میں یاد کیے جاتے ہیں۔ ظلم تو بہرحال جرم ہے کوئی اچھا نہیں کہے گا۔ بااختیار کی بڑی ذمے داری ہے وہ اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ نہ لے اس کو موقع ملا ہے ملک و قوم کی خدمت کے یہ اس کا اولین فرض ہے وہ اپنے بلند اختیارات کو ملک و قوم کی خدمت پر استعمال کرے ایسے لوگ کبھی نہیں بھلائے جاسکتے۔
ہم اچھی بات سوچیں گے تو ہم سے بہتر ہوگا لہٰذا کیوں نہ ہم اپنے ذہن کے دریچوں میں اچھی باتوں کو چہل قدمی پر معمور کردیں۔ کرپشن اور ریاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جب ایسا معاشرہ جنم لینے لگے جس کو جدھر جس طرح دیکھیں برائی نظر آئے خواہ کسی شکل میں کیوں نہ ہو۔ تعلیم، صحت، کاروبار جو نجی طور پر ہیں وہ عام طور پر تجارت اختیار کر رہے ہیں۔ سرکاری اسکول، سرکاری شفا خانے ملک کی آبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ کم ہیں۔ ان کی جگہ پرائیویٹ اداروں نے حاصل کرلی۔ اچھی تعلیم یا اچھی صحت اس قدر مہنگی ہے جو صرف صاحب حیثیت کے علاوہ عام شخص کے لیے ناممکن ہے۔
جس طرف نگاہ دوڑائیں حیرت لگتی ہے دواؤں کے بارے میں سرکاری اسپتالوں میں جو فراہم کی جاتی ہیں وہ سستی دوائیں ہیں جو بازار میں مہنگی قیمت کی دوا ہے وہ سرکاری اسپتال میں صرف ٹیبلٹ سستی دوا سپلائی ہوتی ہے۔ یہ خود سمجھ سکتے ہیں وہ کہاں سے اصلی ہوگی اس میں بیماری کی دعا کے اجزا کم اور پاؤڈر زیادہ ہوگا کس طرح فائدہ پہنچے گا مریض بے چارہ جو غریب ہے وہ وہی دوا کھاتا رہے گا ایک ہفتے میں شفا یاب ہونے کے ایک مہینے میں یا اس سے بھی زائد وقت میں شفا پائے یہ اس کی قسمت ہے۔ صاحب حیثیت کو فکر نہیں وہ مہنگی سے مہنگی دوا خرید سکتے ہیں اور بھاری قیمت حاصل کرنے والے پرائیویٹ ڈاکٹرز کو چیک کرا سکتے ہیں۔
وہ جب بھی جائیں گے وہ پرائیویٹ ڈاکٹرز ان کا علاج کرے گا اور بھاری قیمت ہر بار وصول کرے گا۔ یہی حالت تعلیم کی ہے مال دار لوگ بڑے عمدہ بہت زیادہ فیس والے اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں اسی طرح پرائیویٹ کالج میں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں صرف اس پر ختم نہیں بلکہ مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ممالک بھیجتے ہیں۔ غریب کا لڑکا وہی سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے اگر اس کے والدین میں اس قدر استطاعت ہو تو ورنہ وہ غیر تعلیم یافتہ رہ جاتا ہے۔ اپنے باپ کی طرح اسی طرح مزدوری میں لگ جاتا ہے۔ امیر، مال دار لوگوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ بے چارا غریب کا لڑکا اگر تھوڑا بہت کچھ پڑھ بھی گیا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ چپڑاسی، چوکیدار لگتا ہے۔ یہ بڑی خوش نصیبی ہے کسی غریب کا بچہ کلرک لگ جائے ساری عمر کلرکی کرتا ہے بہت آگے بڑھا تو ہیڈ کلرک یا سیکشن آفیسر ریٹائرڈ ہوجاتا ہے۔
عرصہ دراز سے ملک کی آبادی کا زیادہ حصہ غربت، بدحالی کا شکار پایا جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے اسی طرح غربت اور بدحالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افسوس اس امر پر کسی حکومت نے اس پر غور نہیں فرمایا کاش کوئی اکثریت پر توجہ فرماتا شاید ایسا حال نہ ہوتا۔ دیکھا جائے تو ساری غلطی عام کی ہے وہ اس قدر معصوم ناسمجھ ہیں کہ اپنے لیے اچھا لیڈر نہ پیدا کرسکے وہی دولت مند کا لڑکا لیڈر بنتا ہے اس لیے کہ زر اس قدر ہوتا ہے اس کو ذرا فکر نہیں ہوتی وہ ووٹ کے وقت زر کی بوریاں تک کھول دیتا ہے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اور پھر کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔