بلوچستان میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد
بلوچستان میں 14 گروپ متحرک ہیں جن کو باہر سے اسلحہ اور فنڈز ملتے ہیں، وہاں بے چینی، گڑ بڑ اور دہشتگردی امپورٹڈ ہے
وزیر داخلہ رحمان ملک نے سینیٹ میں تقریر کے دوران بلوچستان میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش کیے۔ انھوں نے بتایا کہ بلوچستان میں 14 گروپ متحرک ہیں جن کو باہر سے اسلحہ اور فنڈز ملتے ہیں، وہاں بے چینی، گڑ بڑ اور دہشتگردی امپورٹڈ ہے، تخریب کاروں کے کیمپ افغانستان میں ہیں، گوادر بندرگاہ کو سازش کے تحت فعال نہیں ہونے دیا جا رہا۔ اگرچہ وزیر داخلہ نے سینیٹ میں جو باتیں کیں وہ نئی نہیں ہیں'
پہلے بھی اندیشہ یہی تھا کہ وہاں کسی عالمی سازش پر عمل ہو رہا ہے جس میں بلوچستان کی اندر کی کچھ قوتیں بھی ملوث ہیں تاہم اب اس کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں گڑبڑ پھیلانے میں بھارت کا ہاتھ ہے اور وہ افغانستان بھی اس سلسلے میں اس کی مدد کر رہا ہے جس کی سلامتی اور بقاکے لیے پاکستان نے لازوال قربانیاں دیں اور جانی و مالی نقصان اٹھایا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھارت ایک جانب پاکستان کے ساتھ روابط بڑھانے کی بات کرتا ہے اور حال ہی میں بھارتی حکومت نے کمال عنایت کرتے ہوئے پاکستانی سرمایہ کاروں کا اپنے ہاں سرمایہ لگانے کی اجازت بھی دی ہے جب کہ دوسری جانب وہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں بھی مصروف ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس دوعملی کے ہوتے ہوئے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاک بھارت تعلقات کو اطمینان بخش حد تک بہتر بنا لیا جائے گا؟ بھارتی دوعملی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے آخری برسوں تک مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چلتی رہی جو بھارتی استبداد سے تنگ وہاں کے مقامی باشندوں نے شروع کی لیکن بھارت نے اس کو دراندازی کا نام دیا اور عالمی برادری سے یہ بات منوانے میں کامیاب رہا کہ وہاں دہشت گردی ہو رہی ہے جس کو پاکستان پروموٹ کر رہا ہے۔
جولائی 2001 میں سابق صدر پاکستان و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اعتدال پر لانے کے سلسلے میں بھارت کا دورہ کیا جس میں بھارتی قیادت کے ساتھ تفصیلی مذاکرات بھی ہوئے لیکن ان مذاکرات کا اعلامیہ محض اس لیے جاری نہ ہو سکا کہ اس میں بھارت اس بات پر مصر رہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کر رہا ہے۔ اب وہی بھارت اگر بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں ملوث ہے تو کیا یہ دراندازی نہیں ہے؟
پھر یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت کے بلوچستان میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے تقریباً دو سال قبل مصر کے شہر شرم الشیخ میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات ہوئی تو اس میں بھی اپنے اس پڑوسی ملک کو باور کرایا گیا تھا کہ وہ بلوچستان کے معاملات خراب کرنے میں ملوث ہے۔ اس کے جواب میں بھارت نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں اگر پاکستان کے پاس شواہد اور ثبوت موجود ہیں تو وہ پیش کیے جائیں'
اگر یہ شواہد درست ہوئے تو اس شکایت کا ازالہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد ہماری حکومت نے خاموشی اختیار کر لی تھی' اب کچھ عرصے کے بعد پھر وہی بات کی گئی ہے جس پر غور کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارت بلوچستان میں ابتری پھیلانے میں ملوث ہے تو اس کے شواہد اور ثبوت اسے فراہم کیوں نہیں کیے گئے اور کسی عالمی فورم پر یہ آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔ ایسی ہی خاموشی ہمارے حکمرانوں نے پاکستانی دریائوں پر بھارت کے ڈیم پر ڈیم بنانے کے حوالے سے اختیار کر رکھی ہے'
واویلا اس وقت کیا جاتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ بھی نیا نہیں ہے' اگر حکومت نے خود وہاں حالات کو سنبھالنے پر توجہ نہیں دی تو اس کا ذمے دار بہرحال ان قوتوں کو قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کا تو کام ہی دشمنی ہے' یہ ہم میں اہلیت ہونا چاہیے کہ دشمن کی کسی بھی نوعیت کی سازش کو ناکام بنا سکیں۔ اب جب کہ سارے حقائق سامنے آ رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے مزید تاخیر نہ کی جائے اور اپنے اس صوبے میں حالات کو سنبھالنے کے سلسلے میں جو بھی ممکن ہو وہ کیا جائے
تاہم اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اسی وقت عمل میں لائے جا سکیں گے جب سبھی سیاسی قوتوں کا اس پر اتفاق رائے ہو۔ حکومت کو ایسا اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کرنا چاہیے۔ وزیر داخلہ کا یہ عزم قابل ستائش ہے کہ پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے تو بلوچستان سے فراری کیمپ اکھاڑ پھینکیں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ کراچی میں سازش کے تحت حالات خراب کیے جاتے ہیں، بھارت سے کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں،
ابو جندل کا اپنا بیان ہے کہ وہ بھارت کا شہری ہے اور اسے پاکستان بھیجا گیا تھا اور کراچی میں اس کا کیمپ تھا، کراچی کی صورتحال بلوچستان سے الگ نہیں، بلوچستان کی تخریب کار تنظیم کے کراچی میں رابطے ہیں۔ اس طرح یہ محض ایک صوبے نہیں بلکہ پاکستان کے معاشی حب کراچی میں امن قائم کرنے کا بھی سوال ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی نوعیت کی غفلت کی گنجائش نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ بھارت کو تحریری طور پر اس بارے میں بتا دیا ہے' امید کی جاتی ہے کہ ادھر سے مثبت ردعمل آئے گا' تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پاکستان کو یہ ایشو فوری طور پر عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے تاکہ بلوچستان اور کراچی میں پھیلی آگ بجھانے کے لیے عالمی مدد حاصل کی جا سکے۔
پہلے بھی اندیشہ یہی تھا کہ وہاں کسی عالمی سازش پر عمل ہو رہا ہے جس میں بلوچستان کی اندر کی کچھ قوتیں بھی ملوث ہیں تاہم اب اس کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں گڑبڑ پھیلانے میں بھارت کا ہاتھ ہے اور وہ افغانستان بھی اس سلسلے میں اس کی مدد کر رہا ہے جس کی سلامتی اور بقاکے لیے پاکستان نے لازوال قربانیاں دیں اور جانی و مالی نقصان اٹھایا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھارت ایک جانب پاکستان کے ساتھ روابط بڑھانے کی بات کرتا ہے اور حال ہی میں بھارتی حکومت نے کمال عنایت کرتے ہوئے پاکستانی سرمایہ کاروں کا اپنے ہاں سرمایہ لگانے کی اجازت بھی دی ہے جب کہ دوسری جانب وہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں بھی مصروف ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس دوعملی کے ہوتے ہوئے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاک بھارت تعلقات کو اطمینان بخش حد تک بہتر بنا لیا جائے گا؟ بھارتی دوعملی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے آخری برسوں تک مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چلتی رہی جو بھارتی استبداد سے تنگ وہاں کے مقامی باشندوں نے شروع کی لیکن بھارت نے اس کو دراندازی کا نام دیا اور عالمی برادری سے یہ بات منوانے میں کامیاب رہا کہ وہاں دہشت گردی ہو رہی ہے جس کو پاکستان پروموٹ کر رہا ہے۔
جولائی 2001 میں سابق صدر پاکستان و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اعتدال پر لانے کے سلسلے میں بھارت کا دورہ کیا جس میں بھارتی قیادت کے ساتھ تفصیلی مذاکرات بھی ہوئے لیکن ان مذاکرات کا اعلامیہ محض اس لیے جاری نہ ہو سکا کہ اس میں بھارت اس بات پر مصر رہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کر رہا ہے۔ اب وہی بھارت اگر بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں ملوث ہے تو کیا یہ دراندازی نہیں ہے؟
پھر یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت کے بلوچستان میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے تقریباً دو سال قبل مصر کے شہر شرم الشیخ میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات ہوئی تو اس میں بھی اپنے اس پڑوسی ملک کو باور کرایا گیا تھا کہ وہ بلوچستان کے معاملات خراب کرنے میں ملوث ہے۔ اس کے جواب میں بھارت نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں اگر پاکستان کے پاس شواہد اور ثبوت موجود ہیں تو وہ پیش کیے جائیں'
اگر یہ شواہد درست ہوئے تو اس شکایت کا ازالہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد ہماری حکومت نے خاموشی اختیار کر لی تھی' اب کچھ عرصے کے بعد پھر وہی بات کی گئی ہے جس پر غور کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارت بلوچستان میں ابتری پھیلانے میں ملوث ہے تو اس کے شواہد اور ثبوت اسے فراہم کیوں نہیں کیے گئے اور کسی عالمی فورم پر یہ آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔ ایسی ہی خاموشی ہمارے حکمرانوں نے پاکستانی دریائوں پر بھارت کے ڈیم پر ڈیم بنانے کے حوالے سے اختیار کر رکھی ہے'
واویلا اس وقت کیا جاتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ بھی نیا نہیں ہے' اگر حکومت نے خود وہاں حالات کو سنبھالنے پر توجہ نہیں دی تو اس کا ذمے دار بہرحال ان قوتوں کو قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کا تو کام ہی دشمنی ہے' یہ ہم میں اہلیت ہونا چاہیے کہ دشمن کی کسی بھی نوعیت کی سازش کو ناکام بنا سکیں۔ اب جب کہ سارے حقائق سامنے آ رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے مزید تاخیر نہ کی جائے اور اپنے اس صوبے میں حالات کو سنبھالنے کے سلسلے میں جو بھی ممکن ہو وہ کیا جائے
تاہم اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اسی وقت عمل میں لائے جا سکیں گے جب سبھی سیاسی قوتوں کا اس پر اتفاق رائے ہو۔ حکومت کو ایسا اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کرنا چاہیے۔ وزیر داخلہ کا یہ عزم قابل ستائش ہے کہ پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کر لیا جائے تو بلوچستان سے فراری کیمپ اکھاڑ پھینکیں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ کراچی میں سازش کے تحت حالات خراب کیے جاتے ہیں، بھارت سے کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں،
ابو جندل کا اپنا بیان ہے کہ وہ بھارت کا شہری ہے اور اسے پاکستان بھیجا گیا تھا اور کراچی میں اس کا کیمپ تھا، کراچی کی صورتحال بلوچستان سے الگ نہیں، بلوچستان کی تخریب کار تنظیم کے کراچی میں رابطے ہیں۔ اس طرح یہ محض ایک صوبے نہیں بلکہ پاکستان کے معاشی حب کراچی میں امن قائم کرنے کا بھی سوال ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی نوعیت کی غفلت کی گنجائش نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ بھارت کو تحریری طور پر اس بارے میں بتا دیا ہے' امید کی جاتی ہے کہ ادھر سے مثبت ردعمل آئے گا' تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پاکستان کو یہ ایشو فوری طور پر عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے تاکہ بلوچستان اور کراچی میں پھیلی آگ بجھانے کے لیے عالمی مدد حاصل کی جا سکے۔