فکسنگ تنازع کا بورڈ بھی ذمہ دار
کرکٹرز زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے لہذا آسانی سے بُرے لوگوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں
سوچا تھاکالمزکی''ڈبل سنچری'' مکمل ہونے پرقارئین سے کچھ دل کی باتیں کروں گا مگر پاکستان کرکٹ پھرمنفی خبروں میں آ گئی لہذا ارادہ بدلنا پڑا،ابھی شرجیل خان کا دکھ تازہ تھا کہ ایک اور کھلاڑی فکسنگ کے ناسور کی بھینٹ چڑھ گیا، خالد لطیف کا کیریئر ویسے ہی زوال پذیر تھا اور ان پر پانچ سالہ پابندی سے قومی ٹیم کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ ملکی کرکٹ کیلیے یہ بہت بڑا نقصان ہے اور اس کا ہماری ساکھ پر بڑا منفی اثر ہوگا، کرکٹرز جائز طریقے سے بھی اچھی خاصی رقم کما لیتے ہیں مگر پھر بھی لالچ میں پڑ کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی دے مارتے ہیں۔
خالد لطیف سابق کپتان راشد لطیف سے خاصی قربت رکھتے تھے، حیرت اسی بات پر ہوئی کہ وہ محب الوطن اور ایماندار کھلاڑی جس نے فکسنگ کیخلاف آواز اٹھائی اور اپنا کیریئر بھی داؤ پر لگا دیا اس کا شاگرد کیسے پیسے کا غلام بن گیا، کیسے اس نے بکی سے مراسم بڑھائے، کیسے اس نے پیسے لے کر خراب کھیلنے پر آمادگی ظاہر کردی۔
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں، اس سے پہلے یہ تھیوری پیش کی جاتی تھی کہ چونکہ کرکٹرز زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے لہذا آسانی سے بُرے لوگوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، مگر سلمان بٹ نے اسے غلط ثابت کردیا، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے بیک گراؤنڈ کے باوجود فکسنگ میں پڑ گئے، اب خالد کے کیس سے واضح ہوتا ہے کہ جسے کرپشن کرنا ہو اس کا استاد کوئی بھی ہو فرق نہیں پڑتا، افسوس اس بات کی ہے کہ ایک طرف ہم چیمپئنز ٹرافی میں فتح اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا جشن منا رہے ہیں۔
دوسری جانب فکسنگ پر کھلاڑیوں کو سزائیں اس خوشی کو زائل کر رہی ہیں، ہماری کرکٹ جگ ہنسائی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے، بورڈ بھی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھ رہا، زیرو ٹالیرنس کی باتیں ہوتی ہیں مگر عمل نہیں کیا جاتا ، جیسے خالد لطیف کے بارے میں کہا گیاکہ ان پر تمام6 الزامات ثابت ہو گئے پھر بھی سزا کم سے کم پانچ برس کی دی گئی اگر کرپشن کیخلاف عدم برداشت کی پالیسی سچی اور ثبوت پختہ ہیں تو زیادہ سخت سزا دیتے مگر ایسا نہ ہوا، شاید بورڈ کو خود یہ لگتا ہے کہ ثبوت ایسے نہیں جن کا عدالت میں دفاع کیا جا سکے،یا پھر اس نے طے کر لیا ہے کہ کسی کو سخت سزا نہیں دینی،ممکن ہے حکام کہیں ہمارا نہیں یہ تو ٹریبیونل کا فیصلہ ہے مگر سب جانتے ہیں کہ بورڈ سے یومیہ20 ہزار روپے فی رکن لینے والا ٹریبیونل کتنا بااختیارہے، فیصلوں سے پہلے ہی دونوں کرکٹرز کو سزاؤں کی تفصیل میڈیا میں آ چکی تھی،اس کیس میں جو بات خالد لطیف کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے پی ایس ایل کاکوئی میچ نہیں کھیلا، البتہ اسپاٹ فکسنگ کا ارادہ کیا اور دوسروں کو بھی اکساتے رہے، یہ جرم ثابت ہو گئے،بورڈ کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں مگر اب تک وہ دکھائے نہیں گئے، ''ٹویٹر آرمی'' کے ذریعے سیٹھی صاحب نے کوئی ثبوت لیک بھی نہیں کیا۔
جس وقت خالد اور شرجیل کے فکسنگ میں ملوث ہونے کی رپورٹ سامنے آئی میں دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں ہی موجود تھا، وہاں نجم سیٹھی اور اینٹی کرپشن یونٹ کے کرنل (ر) اعظم سے بھی بات ہوئی،دونوں کو یقین تھا کہ ثبوت بہت پختہ ہیں کرکٹرز سزا سے نہیں بچ سکیں گے، پاکستان کرکٹ کے معاملات سے قریب ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں نے کچھ تو گڑبڑ کی، مگر جس طرح بورڈ نے معاملے کو طول دیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے پاس زیادہ ثبوت نہیں ہیں، ویڈیوز کے ہونے کی باتیں سامنے آئیں مگر اب تک انھیں ظاہر نہیں کیا گیا، آڈیو پیغامات بھی مخصوص ہی لیک کیے گئے، پی سی بی کا اینٹی کرپشن یونٹ بالکل ناکام ہو گیا، اول تو اس کی ناک کے نیچے اتنا کچھ ہوتا رہا اور اسے پتا ہی نہیں چلا، پھر اتنا وقت ملنے کے باوجود زیادہ ثبوت اکھٹے نہ کیے جا سکے، واٹس ایپ پیغامات پر ہی زور رہا، میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ اگر آئی سی سی پی سی بی سے نہ کہتی تو یہ معاملہ دبا دیا جاتا اور حکام دونوں کرکٹرز کو خاموشی سے ٹیم سے باہر کر دیتے،آپ دیکھ لیں اس کیس میں کتنے پلیئرز کے نام سامنے آئے سب سستے میں چھوٹتے گئے، بعض کیخلاف تو کوئی ایکشن بھی نہ لیا گیا کہ ملک کی بدنامی ہوگی حالانکہ اب اور کتنی بدنامی ہونا باقی ہے۔
جیسے کے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ شرجیل کی طرح اس کیس میں بھی کئی باتیں غور طلب ہیں، اسلام آباد یونائٹیڈ کے کھلاڑی پکڑے گئے کیا فرنچائز سے پوچھ گچھ ہوئی؟ ٹیم آفیشلزسے معلومات کیوں نہ لی گئیں؟ جب ایف آئی اے تحقیقات کرنے آئی تو اسے کیوں روکا گیا؟ مجھے نہیں لگتا کہ حکام فکسنگ کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں، اگر زیادہ پلےئرز کو سزائیں دیتے تو پی ایس ایل کا نام مزید خراب ہوتا اس لیے معاملے کو دانستہ دبایا گیا، بورڈ لیکچرز دے کر سمجھتا ہے کہ ذمہ داری پوری ہو گئی، حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ایک ڈاکو کے ماں باپ بھی اسے اچھا انسان بننے کی نصیحتیں کرتے ہوں گے،مگر اس کے ساتھ آپ کو اپنی اولاد پر نظر بھی رکھنا پڑتی ہے، بورڈ ایسا نہیں کرتا اس لیے کھلاڑی ملک کا نام خراب کرتے رہتے ہیں، آپ ان کو تھوڑی سزا دے کر کیس کی فائل بند کر دیتے ہیں، پھر چند برس بعد وہ دوبارہ کرکٹ فیلڈ میں دندناتے پھرتے ہیں۔
واقعی کرپشن ختم کرنا ہے تو لگائیں تاحیات پابندی، چند کے ساتھ ایسا ہو گا تو دیگر کرکٹرز فکسنگ کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ملکی کرکٹ سے کرپشن ختم کرنا حکام کی ترجیحات میں شامل نہیں، انھوں نے مشکوک ماضی کے حامل کئی کرکٹرز کو اہم پوزیشنز پر رکھا ہوا ہے، پی ایس ایل کیس بھی اچھے انداز سے ڈیل نہیں کیا گیا، پہلے شرجیل اور اب خالد لطیف، کل کوئی اور، ایک دن ایسا آئے گا جب کسی کو سزا ہوئی تو ہم معمول کی بات سمجھ کر اسے اہمیت ہی نہیں دیں گے، ایسا وقت نہ آئے اس کیلیے ضروری ہے کہ زیرو ٹالیرنس کی پالیسی حقیقتاً نافذ کریں، ملوث کرکٹرزپر نہ صرف تاحیات پابندی لگائیں بلکہ کرمنل کیس درج کراکے آمدنی سے مطابقت نہ رکھنے والی رقوم اور جائیدادیں ضبط کرائیں مگر میں جانتا ہوں ایسا کچھ نہیں ہوگا، جو پکڑا گیا وہ چور جو نہ پکڑا جائے وہ ہیرو، یہی پالیسی چلتی رہے گی، سری لنکا نے بھی ایسا کیا آج یہ حال ہے کہ وہاں ٹاس اور پچ فکسنگ تک عروج پر ہے، ٹیم زوال کی گہرائیوں میں جا چکی، ہمیں سری لنکا بننے سے بچنا ہوگا۔
خالد لطیف سابق کپتان راشد لطیف سے خاصی قربت رکھتے تھے، حیرت اسی بات پر ہوئی کہ وہ محب الوطن اور ایماندار کھلاڑی جس نے فکسنگ کیخلاف آواز اٹھائی اور اپنا کیریئر بھی داؤ پر لگا دیا اس کا شاگرد کیسے پیسے کا غلام بن گیا، کیسے اس نے بکی سے مراسم بڑھائے، کیسے اس نے پیسے لے کر خراب کھیلنے پر آمادگی ظاہر کردی۔
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں، اس سے پہلے یہ تھیوری پیش کی جاتی تھی کہ چونکہ کرکٹرز زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے لہذا آسانی سے بُرے لوگوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، مگر سلمان بٹ نے اسے غلط ثابت کردیا، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے بیک گراؤنڈ کے باوجود فکسنگ میں پڑ گئے، اب خالد کے کیس سے واضح ہوتا ہے کہ جسے کرپشن کرنا ہو اس کا استاد کوئی بھی ہو فرق نہیں پڑتا، افسوس اس بات کی ہے کہ ایک طرف ہم چیمپئنز ٹرافی میں فتح اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا جشن منا رہے ہیں۔
دوسری جانب فکسنگ پر کھلاڑیوں کو سزائیں اس خوشی کو زائل کر رہی ہیں، ہماری کرکٹ جگ ہنسائی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے، بورڈ بھی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھ رہا، زیرو ٹالیرنس کی باتیں ہوتی ہیں مگر عمل نہیں کیا جاتا ، جیسے خالد لطیف کے بارے میں کہا گیاکہ ان پر تمام6 الزامات ثابت ہو گئے پھر بھی سزا کم سے کم پانچ برس کی دی گئی اگر کرپشن کیخلاف عدم برداشت کی پالیسی سچی اور ثبوت پختہ ہیں تو زیادہ سخت سزا دیتے مگر ایسا نہ ہوا، شاید بورڈ کو خود یہ لگتا ہے کہ ثبوت ایسے نہیں جن کا عدالت میں دفاع کیا جا سکے،یا پھر اس نے طے کر لیا ہے کہ کسی کو سخت سزا نہیں دینی،ممکن ہے حکام کہیں ہمارا نہیں یہ تو ٹریبیونل کا فیصلہ ہے مگر سب جانتے ہیں کہ بورڈ سے یومیہ20 ہزار روپے فی رکن لینے والا ٹریبیونل کتنا بااختیارہے، فیصلوں سے پہلے ہی دونوں کرکٹرز کو سزاؤں کی تفصیل میڈیا میں آ چکی تھی،اس کیس میں جو بات خالد لطیف کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے پی ایس ایل کاکوئی میچ نہیں کھیلا، البتہ اسپاٹ فکسنگ کا ارادہ کیا اور دوسروں کو بھی اکساتے رہے، یہ جرم ثابت ہو گئے،بورڈ کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں مگر اب تک وہ دکھائے نہیں گئے، ''ٹویٹر آرمی'' کے ذریعے سیٹھی صاحب نے کوئی ثبوت لیک بھی نہیں کیا۔
جس وقت خالد اور شرجیل کے فکسنگ میں ملوث ہونے کی رپورٹ سامنے آئی میں دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں ہی موجود تھا، وہاں نجم سیٹھی اور اینٹی کرپشن یونٹ کے کرنل (ر) اعظم سے بھی بات ہوئی،دونوں کو یقین تھا کہ ثبوت بہت پختہ ہیں کرکٹرز سزا سے نہیں بچ سکیں گے، پاکستان کرکٹ کے معاملات سے قریب ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں نے کچھ تو گڑبڑ کی، مگر جس طرح بورڈ نے معاملے کو طول دیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے پاس زیادہ ثبوت نہیں ہیں، ویڈیوز کے ہونے کی باتیں سامنے آئیں مگر اب تک انھیں ظاہر نہیں کیا گیا، آڈیو پیغامات بھی مخصوص ہی لیک کیے گئے، پی سی بی کا اینٹی کرپشن یونٹ بالکل ناکام ہو گیا، اول تو اس کی ناک کے نیچے اتنا کچھ ہوتا رہا اور اسے پتا ہی نہیں چلا، پھر اتنا وقت ملنے کے باوجود زیادہ ثبوت اکھٹے نہ کیے جا سکے، واٹس ایپ پیغامات پر ہی زور رہا، میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ اگر آئی سی سی پی سی بی سے نہ کہتی تو یہ معاملہ دبا دیا جاتا اور حکام دونوں کرکٹرز کو خاموشی سے ٹیم سے باہر کر دیتے،آپ دیکھ لیں اس کیس میں کتنے پلیئرز کے نام سامنے آئے سب سستے میں چھوٹتے گئے، بعض کیخلاف تو کوئی ایکشن بھی نہ لیا گیا کہ ملک کی بدنامی ہوگی حالانکہ اب اور کتنی بدنامی ہونا باقی ہے۔
جیسے کے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ شرجیل کی طرح اس کیس میں بھی کئی باتیں غور طلب ہیں، اسلام آباد یونائٹیڈ کے کھلاڑی پکڑے گئے کیا فرنچائز سے پوچھ گچھ ہوئی؟ ٹیم آفیشلزسے معلومات کیوں نہ لی گئیں؟ جب ایف آئی اے تحقیقات کرنے آئی تو اسے کیوں روکا گیا؟ مجھے نہیں لگتا کہ حکام فکسنگ کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں، اگر زیادہ پلےئرز کو سزائیں دیتے تو پی ایس ایل کا نام مزید خراب ہوتا اس لیے معاملے کو دانستہ دبایا گیا، بورڈ لیکچرز دے کر سمجھتا ہے کہ ذمہ داری پوری ہو گئی، حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ایک ڈاکو کے ماں باپ بھی اسے اچھا انسان بننے کی نصیحتیں کرتے ہوں گے،مگر اس کے ساتھ آپ کو اپنی اولاد پر نظر بھی رکھنا پڑتی ہے، بورڈ ایسا نہیں کرتا اس لیے کھلاڑی ملک کا نام خراب کرتے رہتے ہیں، آپ ان کو تھوڑی سزا دے کر کیس کی فائل بند کر دیتے ہیں، پھر چند برس بعد وہ دوبارہ کرکٹ فیلڈ میں دندناتے پھرتے ہیں۔
واقعی کرپشن ختم کرنا ہے تو لگائیں تاحیات پابندی، چند کے ساتھ ایسا ہو گا تو دیگر کرکٹرز فکسنگ کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ملکی کرکٹ سے کرپشن ختم کرنا حکام کی ترجیحات میں شامل نہیں، انھوں نے مشکوک ماضی کے حامل کئی کرکٹرز کو اہم پوزیشنز پر رکھا ہوا ہے، پی ایس ایل کیس بھی اچھے انداز سے ڈیل نہیں کیا گیا، پہلے شرجیل اور اب خالد لطیف، کل کوئی اور، ایک دن ایسا آئے گا جب کسی کو سزا ہوئی تو ہم معمول کی بات سمجھ کر اسے اہمیت ہی نہیں دیں گے، ایسا وقت نہ آئے اس کیلیے ضروری ہے کہ زیرو ٹالیرنس کی پالیسی حقیقتاً نافذ کریں، ملوث کرکٹرزپر نہ صرف تاحیات پابندی لگائیں بلکہ کرمنل کیس درج کراکے آمدنی سے مطابقت نہ رکھنے والی رقوم اور جائیدادیں ضبط کرائیں مگر میں جانتا ہوں ایسا کچھ نہیں ہوگا، جو پکڑا گیا وہ چور جو نہ پکڑا جائے وہ ہیرو، یہی پالیسی چلتی رہے گی، سری لنکا نے بھی ایسا کیا آج یہ حال ہے کہ وہاں ٹاس اور پچ فکسنگ تک عروج پر ہے، ٹیم زوال کی گہرائیوں میں جا چکی، ہمیں سری لنکا بننے سے بچنا ہوگا۔