LA تا شکاگو
اس کا ہال بہت وسیع‘ کھانا عمدہ اور اسٹاف بقول منیر نیازی مرحوم ’’مداحین‘‘ پر مشتمل تھا
LA یا ایل اے محفف ہے امریکا کی ریاست کیلے فورنیا کے سب سے بڑے شہر کا۔ اس علاقے کو امریکی محاورے میں ویسٹ کوسٹ West Coast بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر میرے سفرنامے ''شہر در شہر'' میں موجود ہے کہ 1984 کے پہلے امریکی دورے میں ہم اسی شہر میں قائم اس ادبی تنظیم کے حوالے سے آئے تھے جسے آپا نیئر جہاں چلا رہی تھیں اور جس کے مہمانوں میں پاکستان سے جمیل الدین عالی' پروین شاکر اور میں جب کہ بھارت سے علی سردار جعفری مرحوم شامل تھے، تب سے اب تک یہ غالباً اس شہر کی چھٹی یاترا ہے لیکن اس کا اختصاص یہ ہے کہ اس بار بھی ہم گزشتہ برس کی طرح Helping hand کے ہی مہمان ہیں۔ امریکا کے بیشتر بڑے شہروں کی طرح یہ شہر بھی دراصل کئی چھوٹے چھوٹے شہروں کا مجموعہ ہے۔
اس بار ہمارا قیام ڈائمنڈ بار نامی شہر میں تھا جو LA کے مرکزی ایئرپورٹ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے جب کہ واپسی اس بار بھی گزشتہ سفر کی طرح مشہور امریکی اداکار جان وین (john wayne) کے نام سے موسوم ایئرپورٹ سے تھی کہ وہ نسبتاً نزدیک پڑتا تھا۔ مقامی میزبان اعجاز بلخی کی دس سالہ بچی عائشہ بھی ان کے ساتھ تھی۔ اعجاز بلخی نے بتایا کہ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ بچی کو مہمانوں سے ملنے کا شوق تھا اور دوسرے یہ کہ اس کی وجہ سے وہ سڑک کا وہ حصہ استعمال کر سکتے تھے جس پر کم اور تیز رفتار ٹریفک چلتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ گاڑی میں ایک سے زیادہ مسافر ہوں، یہ رعایت یا تحریص اس لیے دی جاتی ہے کہ اس کے پردے میں سڑک پر آنے والی گاڑیوں کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔
ڈائمنڈ بار میں ہماری قیام گاہ یعنی بیسٹ ویسٹرن سے بالکل ملحق ''آشیانہ'' نامی ایک پاکستانی ریستوران تھا جس کا سارا عملہ اپنے مالک سمیت ''مداحین'' کی صف میں شامل تھا، سو انھوں نے خوب خوب مدارات کی جو اس لیے اور بھی اچھی لگی کہ امریکا میں پروازوں کے دوران مسافروں کو سوائے مونگ پھلی کے ایک چھوٹے سے پیکٹ اور چند گھونٹ سافٹ ڈرنک کے کچھ بھی پیش نہیں کیا جاتا یعنی ہمیں کچھ کھائے ہوئے تقریباً دس گھنٹے گزر چکے تھے۔ میری بڑی بیٹی روشین عاقب کی بچپن کی سہیلی اور میری منہ بولی بیٹی کنول جہانگیر اور اس کی فیملی حال ہی میں پاکستان سے یہاں منتقل ہوئی ہے۔ اس سے بات ہوئی معلوم ہوا کہ وہ ہم سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں۔ طے پایا کہ ان سے اگلے دن صبح ہوٹل میں اور شام کو مشاعرہ گاہ میں ملاقاتیں ہوں گی، سو ایسا ہی کیا گیا۔ بڑا بیٹا دانیال پڑھائی کے ساتھ ساتھ جاب بھی کر رہا ہے۔
اس لیے وہ پہلی نشست میں شامل نہ ہو سکا۔ البتہ مشاعرے میں وہ کنول کے بھائی وسیم اور اس کی بیگم کے ساتھ موجود تھا اور سب کے سب بہت خوش اور پرجوش تھے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ امریکا میں اس طرح کی تمام تقریبات ویک اینڈ یعنی جمعے اور ہفتے کی شام میں ہوتی ہیں کہ وہاں صبح کو جلدی اٹھ کر اپنے اپنے کام پر جانا ضروری بھی ہے اور ان کی مجبوری بھی لیکن عجیب اتفاق ہے کہ گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی مقامی میزبانوں اعجاز بلخی اور ان کی ٹیم کے حصے میں ورکنگ ڈے ہی آیا۔
یہ اور بات ہے کہ بھرپور محنت اور تیاری کی وجہ سے حسب سابق پروگرام ہر اعتبار سے بہت عمدہ اور شاندار تھا اور یوں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے لیے فنڈ ریزنگ اور مشاعرہ دونوں ہی کو خوب پذیرائی ملی، البتہ ہال کی انتظامیہ اور اسٹیج سیکریٹری برادرم عرفان مرتضی کے درمیان رابطے کے کسی خلا کی وجہ سے صدر مشاعرہ یعنی انور مسعود کے حصے میں صرف دس بارہ منٹ ہی آ سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند برس قبل سنگا پور کے ایک مشاعرے میں بھی بالکل ایسا ہی ایک منظر دہرایا گیا تھا اور اس وقت بھی عرفان مرتضی اسٹیج پر موجود تھے' اس اتفاق کی نسبت سے ایک پرانا لطیفہ پھر سے زندہ ہو گیا جو کچھ یوں تھا کہ گاؤں کی ایک شادی کی تقریب میں بھانڈوں کو کھانا نہیں مل رہا تھا بلکہ تقاضے پر الٹا ان کو جھاڑ پلا کر جانے کے لیے کہا گیا۔ اس پر ایک بھانڈ نے دولہا اور اس کے ساتھ آئے ہوئے باراتیوں کے درمیان جا کر بلند آواز سے کہا
''جب بھی اس لڑکی کی شادی ہوتی ہے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے''
یہاں سے شکاگو تک کی پرواز تقریباً پانچ گھنٹے کی تھی، وہاں کا اوہیر ایئرپورٹ (O'Hare international Airport) دنیا کے چند بڑے اور معروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے جو کئی میلوں میں پھیلا ہوا ہے اور بلامبالغہ ایک وقت میں سیکڑوں جہاز اس کی فضا اور زمین پر موجود رہتے ہیں۔ اس بار بھی مرکزی میزبان مشتاق سلیمی ہی تھے لیکن ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے عزیزی اکرام اور اسلام آباد سے حال ہی میں ہیلپنگ ہینڈ کو جائن کرنے والے ڈاکٹر غوری بھی موجود تھے۔
معلوم ہوا کہ ڈیوان کے بعد اب لمبارڈ کے علاقے میں بھی دیسی خوراک والے ریستوران کثرت سے بن گئے ہیں۔ ہمیں ''تندوری'' نام کے جس ہوٹل میں لے جایا گیا اس کا ہال بہت وسیع' کھانا عمدہ اور اسٹاف بقول منیر نیازی مرحوم ''مداحین'' پر مشتمل تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہاں ایک سالگرہ کی تقریب بھی چل رہی تھی جس کے شرکاء میں میرے ایم اے او کالج کے زمانے کے کئی شاگرد بھی شامل تھے جن کی والہانہ محبت کے اظہار سے ایک بار پھر اس بات پر یقین محکم ہوا کہ استاد اور شاگردوں کے رشتے جیسا غیرخونی مگر خوب صورت رشتہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ فون پر طے پایا کہ ناشتہ آئی ہوپ نما کسی اچھی بریک فاسٹ چین میں کیا جائے جب کہ میزبان حسب سابق برادر عزیز عرفان صوفی ہوں گے کہ گزشتہ 33برسوں کے دوران کم و بیش پندرہ مرتبہ شکاگو آنا ہوا ہے اور ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم عرفان کی پر خلوص میزبانی سے محروم رہے ہوں۔
ہیوسٹن میں مقیم اچھی دوست نوجوت عرف زویا سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ اس نے برادرم فہیم کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دی تھی سو وہ بھی عرفان سے رابطہ کرکے بلیو بیری نامی ایک ایسے ریستوران میں پہنچ گیا جو اپنی طرز کا ایک انوکھا ناشتہ گھر ہے۔ امریکن ایک بسیار خور قوم ہے چنانچہ چھ آدمیوں کا جو ناشتہ ہمارے سامنے آیا اس کی مقدار اتنی تھی کہ بیس آدمی آسانی سے شکم سیر ہو سکتے تھے اور شاید پھر بھی کچھ بچ جاتا۔
اس بار ہمارا قیام ڈائمنڈ بار نامی شہر میں تھا جو LA کے مرکزی ایئرپورٹ سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے جب کہ واپسی اس بار بھی گزشتہ سفر کی طرح مشہور امریکی اداکار جان وین (john wayne) کے نام سے موسوم ایئرپورٹ سے تھی کہ وہ نسبتاً نزدیک پڑتا تھا۔ مقامی میزبان اعجاز بلخی کی دس سالہ بچی عائشہ بھی ان کے ساتھ تھی۔ اعجاز بلخی نے بتایا کہ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ بچی کو مہمانوں سے ملنے کا شوق تھا اور دوسرے یہ کہ اس کی وجہ سے وہ سڑک کا وہ حصہ استعمال کر سکتے تھے جس پر کم اور تیز رفتار ٹریفک چلتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ گاڑی میں ایک سے زیادہ مسافر ہوں، یہ رعایت یا تحریص اس لیے دی جاتی ہے کہ اس کے پردے میں سڑک پر آنے والی گاڑیوں کی تعداد کو کم کیا جا سکے۔
ڈائمنڈ بار میں ہماری قیام گاہ یعنی بیسٹ ویسٹرن سے بالکل ملحق ''آشیانہ'' نامی ایک پاکستانی ریستوران تھا جس کا سارا عملہ اپنے مالک سمیت ''مداحین'' کی صف میں شامل تھا، سو انھوں نے خوب خوب مدارات کی جو اس لیے اور بھی اچھی لگی کہ امریکا میں پروازوں کے دوران مسافروں کو سوائے مونگ پھلی کے ایک چھوٹے سے پیکٹ اور چند گھونٹ سافٹ ڈرنک کے کچھ بھی پیش نہیں کیا جاتا یعنی ہمیں کچھ کھائے ہوئے تقریباً دس گھنٹے گزر چکے تھے۔ میری بڑی بیٹی روشین عاقب کی بچپن کی سہیلی اور میری منہ بولی بیٹی کنول جہانگیر اور اس کی فیملی حال ہی میں پاکستان سے یہاں منتقل ہوئی ہے۔ اس سے بات ہوئی معلوم ہوا کہ وہ ہم سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہیں۔ طے پایا کہ ان سے اگلے دن صبح ہوٹل میں اور شام کو مشاعرہ گاہ میں ملاقاتیں ہوں گی، سو ایسا ہی کیا گیا۔ بڑا بیٹا دانیال پڑھائی کے ساتھ ساتھ جاب بھی کر رہا ہے۔
اس لیے وہ پہلی نشست میں شامل نہ ہو سکا۔ البتہ مشاعرے میں وہ کنول کے بھائی وسیم اور اس کی بیگم کے ساتھ موجود تھا اور سب کے سب بہت خوش اور پرجوش تھے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ امریکا میں اس طرح کی تمام تقریبات ویک اینڈ یعنی جمعے اور ہفتے کی شام میں ہوتی ہیں کہ وہاں صبح کو جلدی اٹھ کر اپنے اپنے کام پر جانا ضروری بھی ہے اور ان کی مجبوری بھی لیکن عجیب اتفاق ہے کہ گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی مقامی میزبانوں اعجاز بلخی اور ان کی ٹیم کے حصے میں ورکنگ ڈے ہی آیا۔
یہ اور بات ہے کہ بھرپور محنت اور تیاری کی وجہ سے حسب سابق پروگرام ہر اعتبار سے بہت عمدہ اور شاندار تھا اور یوں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے لیے فنڈ ریزنگ اور مشاعرہ دونوں ہی کو خوب پذیرائی ملی، البتہ ہال کی انتظامیہ اور اسٹیج سیکریٹری برادرم عرفان مرتضی کے درمیان رابطے کے کسی خلا کی وجہ سے صدر مشاعرہ یعنی انور مسعود کے حصے میں صرف دس بارہ منٹ ہی آ سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند برس قبل سنگا پور کے ایک مشاعرے میں بھی بالکل ایسا ہی ایک منظر دہرایا گیا تھا اور اس وقت بھی عرفان مرتضی اسٹیج پر موجود تھے' اس اتفاق کی نسبت سے ایک پرانا لطیفہ پھر سے زندہ ہو گیا جو کچھ یوں تھا کہ گاؤں کی ایک شادی کی تقریب میں بھانڈوں کو کھانا نہیں مل رہا تھا بلکہ تقاضے پر الٹا ان کو جھاڑ پلا کر جانے کے لیے کہا گیا۔ اس پر ایک بھانڈ نے دولہا اور اس کے ساتھ آئے ہوئے باراتیوں کے درمیان جا کر بلند آواز سے کہا
''جب بھی اس لڑکی کی شادی ہوتی ہے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے''
یہاں سے شکاگو تک کی پرواز تقریباً پانچ گھنٹے کی تھی، وہاں کا اوہیر ایئرپورٹ (O'Hare international Airport) دنیا کے چند بڑے اور معروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے جو کئی میلوں میں پھیلا ہوا ہے اور بلامبالغہ ایک وقت میں سیکڑوں جہاز اس کی فضا اور زمین پر موجود رہتے ہیں۔ اس بار بھی مرکزی میزبان مشتاق سلیمی ہی تھے لیکن ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے عزیزی اکرام اور اسلام آباد سے حال ہی میں ہیلپنگ ہینڈ کو جائن کرنے والے ڈاکٹر غوری بھی موجود تھے۔
معلوم ہوا کہ ڈیوان کے بعد اب لمبارڈ کے علاقے میں بھی دیسی خوراک والے ریستوران کثرت سے بن گئے ہیں۔ ہمیں ''تندوری'' نام کے جس ہوٹل میں لے جایا گیا اس کا ہال بہت وسیع' کھانا عمدہ اور اسٹاف بقول منیر نیازی مرحوم ''مداحین'' پر مشتمل تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہاں ایک سالگرہ کی تقریب بھی چل رہی تھی جس کے شرکاء میں میرے ایم اے او کالج کے زمانے کے کئی شاگرد بھی شامل تھے جن کی والہانہ محبت کے اظہار سے ایک بار پھر اس بات پر یقین محکم ہوا کہ استاد اور شاگردوں کے رشتے جیسا غیرخونی مگر خوب صورت رشتہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ فون پر طے پایا کہ ناشتہ آئی ہوپ نما کسی اچھی بریک فاسٹ چین میں کیا جائے جب کہ میزبان حسب سابق برادر عزیز عرفان صوفی ہوں گے کہ گزشتہ 33برسوں کے دوران کم و بیش پندرہ مرتبہ شکاگو آنا ہوا ہے اور ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم عرفان کی پر خلوص میزبانی سے محروم رہے ہوں۔
ہیوسٹن میں مقیم اچھی دوست نوجوت عرف زویا سے مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ اس نے برادرم فہیم کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دی تھی سو وہ بھی عرفان سے رابطہ کرکے بلیو بیری نامی ایک ایسے ریستوران میں پہنچ گیا جو اپنی طرز کا ایک انوکھا ناشتہ گھر ہے۔ امریکن ایک بسیار خور قوم ہے چنانچہ چھ آدمیوں کا جو ناشتہ ہمارے سامنے آیا اس کی مقدار اتنی تھی کہ بیس آدمی آسانی سے شکم سیر ہو سکتے تھے اور شاید پھر بھی کچھ بچ جاتا۔