پیپلز پارٹیتاریخ کی عدالت میں
بھٹو کے عدالتی قتل پر لاہور میں کئی کارکنوں نے خود سوزی کی
لاہور کے حلقہ NA-120 کے ضمنی انتخابات میں سابق وزیراعظم کی بیگم کلثوم نوازکی جیت یقینی تھی۔ ان کا مقابلہ تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ بھی سمجھ میں آرہا تھا ۔ جو2013سے نواز لیگ کے ساتھ سخت مقابلہ کررہی ہیں، مگر پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میرکو صرف2,520 ووٹ مل سکے۔ان سے زیادہ ووٹ (4,268)نئی جماعت ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار یعقوب شیخ نے حاصل کیے۔ یہ بات تجزیہ نگاروں اور متوشش شہریوں کے لیے باعث تشویش ہے کہ پیپلز پارٹی جس کا لاہورکبھی گڑھ ہوا کرتا تھا، وہاں اس کے نامزد کردہ امیدوار کو اتنے کم ووٹ ملیں کہ اس کی ضمانت ضبط ہو جائے۔
لاہور پیپلز پارٹی کا مولد ہے۔ 30نومبر 1967 کو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر اس جماعت کے قیام کا اعلان ہوا ۔ Centre to Left نظریات کے ساتھ یہ جماعت منظرعام پر آئی۔ جماعت کی قیادت خوبرو جذباتی ذوالفقارعلی بھٹو کر رہے تھے، جو 1965کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ میں اپنی جذباتی تقریر کے باعث عوام میں مقبول ہوگئے تھے۔ جب ایوب خان کی کابینہ چھوڑ کر سیاسی میدان میں اترے تو مقبولیت دوچند ہوگئی، لیکن اس جماعت کی فکری اساس ترتیب دینے میں اربن مڈل کلاس کے دانشوروں کی سیاسی بصیرت کا کلیدی کردار تھا ۔ پارٹی کا منشور بنگالی نژاد سابق ڈپلومیٹ جے اے رحیم مرحوم کا تشکیل دیا ہوا تھا۔پارٹی کی میڈیا کمپین حنیف رامے مرحوم سمیت کئی سینئر صحافیوں نے سنبھالی ہوئی تھی ۔
پارٹی میں بائیںبازو اور Centre to Left فکری رجحان رکھنے والے قائدین کی کہکشاں تھی ۔ معراج محمد خان مرحوم ، حیات محمد خان شیرپاؤ مرحوم ، مختار رانا مرحوم، ڈاکٹر شمیم زین الدین خان، احمد رضا قصوری، پروفیسر این ڈی خان، طارق عزیزاور امان اللہ خان سمیت ان گنت شعلہ بیاں مقرر اس کی صفوں میں شامل تھے۔NSFکی شکل میں طلبہ کا ہراول دستہ موجود تھا، لیکن سب سے بڑھ کر اس کا منشور جس نے عام آدمی کی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے۔ چنانچہ پورے ملک بالخصوص وسطی پنجاب کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا ، جب کہ لاہور اس کا گڑھ قرار پایا ۔
اسی وجہ سے 1970 کے عام انتخابات میں اس جماعت نے وسطی پنجاب بالخصوص لاہور سے فقیدالمثال کامیابی حاصل کی۔ ان دنوں لاہور ضلع کی8 نشستیں ہوا کرتی تھیں، جن میں سے ہر نشست پر پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور بڑے بڑے بتوں کو زمیں بوس کردیا۔ بھٹو مرحوم کا مقابلہ علامہ اقبال کے فرزند جاوید اقبال مرحوم سے تھا۔ جنھیں انھوں نے بھاری مارجن کے ساتھ شکست دی ۔ وائس چیئرمین شیخ محمد رشید مرحوم نے جماعت اسلامی کے اس وقت کے نائب امیر میاں طفیل محمد مرحوم کو شکست سے دوچار کیا۔ اسی طرح دیگر امیدواروں نے کئی بڑے رہنماؤں کو شکست دی۔
انتخابات کے بعد متوشش شہریوں کا خیال تھا کہ بھٹو عوامی لیگ کی اکثریت کو قبول کرتے ہوئے وفاق میں حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گے اور دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں صوبائی حکومتوں پر اکتفا کریں گے، مگر پیپلز پارٹی نے جو رویے اختیارکیے،اس پر جمہوریت نواز حلقے متوشش ضرور ہوئے، مگر پارٹی سے وابستہ امیدیں قائم رہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تواس میں شک نہیں کہ اس نے کئی عمدہ کام سرانجام دیے۔ آئین کی تشکیل،اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ، مشرق وسطیٰ میں پاکستانی ہنرمندوں کے روزگار کی راہ کھولنا اہم کارنامے تھے، مگر اپنی فطری حلیف نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام(مفتی محمود) کے ساتھ محاذ آرائی کا حصہ بن کر اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھلونا بننا۔ دوسری آئینی ترمیم اورسردار داؤد کے خلاف افغان بنیاد پرست عناصر کی سرپرستی، وہ اقدامات تھے، جن کے نتیجے میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی راہ ہموار ہوئی۔
1977کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر وسطی پنجاب میں اکثریت حاصل کی اور لاہور کی تمام نشستیں جیت لیں، لیکن اس مرتبہ کامیابی کا مارجن پہلے سے کم تھا۔ چونکہ اپوزیشن کے قومی اتحاد نے تحریک شروع کردی اور جنرل ضیا کو حکومت کا تختہ الٹنے کا موقع مل گیا۔ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت بام عروج تک پہنچ گئی۔ بھٹو کے عدالتی قتل پر لاہور میں کئی کارکنوں نے خود سوزی کی۔ پورے ملک بالخصوص لاہور میںدرجنوں کارکنوں کوکوڑوں کی سزا دی گئی۔ 1970کے انتخابات سے قبل بھٹو نے معراج محمد خان اور مصطفیٰ کھر کو اپنا جاں نشیں قراردیا تھا، مگر دونوں رہنما بھٹوکی پھانسی وقت پارٹی میں نہیں تھے، بلکہ معراج بھائی مرحوم جیل میں تھے، چنانچہ معروضی حالات کے تحت بینظیر شہید کوبھٹو کا جاں نشین مقررکردیا گیا۔
بینظیر مرحومہ نے خود کو پارٹی کا اہل ثابت کیا اور پارٹی کو آگے کی جانب بڑھایا ، لیکن کچھ طالع آزما خود محترمہ شہید کے سیاسی عزائم کی راہ میں رکاوٹیں بننے لگے۔ وہ بوجہ ان افراد کے غلط فیصلوں اور کردار پر خاموشی اختیارکرنے پر مجبور رہیں۔ جس کے نتیجے میں پارٹی اپنے اصل منشور اور نظریاتی اساس سے ہٹتی چلی گئی۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ1988میں پیپلز پارٹی ہمدردی کا ووٹ لے کر اقتدار میں ضرور آئی، مگر اس کی مقبولیت گہناتی چلی گئی، لیکن کسی نے اس جانب توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان تمام کوتاہیوں کے باوجود 1993 تک پیپلز پارٹی پنجاب کی دوسری بڑی جماعت رہی۔ حالانکہ پارٹی کی کامیابی کا گراف مسلسل زوال پذیر رہا۔2008میں محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر ہمدردی کا ووٹ مل گیا، لیکن پانچ برسوں کے اقتدار میں اس نے آئین سازی کے حوالے سے بعض اچھے کام ضرورکیے، جن میں اٹھارویں ترمیم اور صنفی امتیازات کے خلاف قانون سازی تھی، لیکن عوامی سطح پر وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔ چنانچہ 2013کے انتخابات میں اس کی جگہ تحریک انصاف دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آگئی۔
ہم نے کئی بار لکھا ہے کہ جب کوئی جماعت عوامی مسائل سے صرف نظر کرنا شروع کردے، اپنے بنیادی نظر یات کو چھوڑ کر Status quoکی قوتوں کی آلہ کار بن جائے اورصرف مرحومین کے نام کو کیش کرنے پر توجہ مرکوز کردے تو ناکامیاں اس کا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ 1967 میں پیپلز پارٹی اربن مڈل اور ورکنگ کلاس کی نمایندہ جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ جس کا منشورCentre to Left نوعیت کا تھا۔ اس لیے اس نے عوام کو اپنی جانب کھینچا تھا، مگر جب وہ فیوڈل مفادات کی نگہبان بن گئی اور اپنے ترقی دوست منشور کو طاق نسیاں کردیا تو اس کی مقبولیت کم ہونا شروع ہوگئی، مگر پیپلز پارٹی نے بدلتے حالات کے ساتھ خود کو ٹرانسفارم کرنے کے بجائےElectables پر بھروسہ بڑھادیا۔ یہی اس کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یا کوتاہی ہے۔ جس کی وجہ سے آج وہ اس مقام تک پہنچی ہے کہ اس کا امیدوار اس شہر میں ڈھائی ہزار ووٹ لے رہا ہے، جو کبھی اس کا فخریہ گڑھ کہلاتا تھا۔
اس صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت آج بھی سنجیدگی کے ساتھ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینے کے بجائے سابقہ روش پر اصرار کی پالیسی اختیارکیے ہوئے ہے۔ جس کی وجہ سے اسے جو نقصان پہنچ رہا ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن اس ملک کے آزاد خیال اور جمہوریت نواز ووٹروں کاحق نمایندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ماضی میں ان حلقوں کے لیے پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی موجود ہوا کرتی تھیں ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے خود کو پختون سیاست تک محدود کرلیا ہے، جب کہ پاکستان نیشنل پارٹی میر صاحب مرحوم کے بعد تتربتر ہوگئی۔ ایسے میں ترقی پسند اور روشن خیال شہریوں کا حق نمایندگی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جو تاریخ کا ایک بھیانک المیہ ہے۔