آخر بھٹو کا انتقال ہو ہی گیا
بھٹو کی شخصیت بہت ہی پرکشش تھی، مگر سر کے بال کافی کم ہو چکے تھے
ماضی میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس کے کارکنوں نے اپنے لیڈر سے محبت اور عقیدت کا ایک نیا کلچر روشناس کروایا اور ان کے جانے کے بعد جو بھی سیاسی لیڈر ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے بھٹو کا سایہ قدم قدم پر ان کے ساتھ نظر آیا۔اس کی مثال ہمیں مشہور نعرے ''کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے'' میں صاف دکھائی دیتی ہے جو پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا تو خون گرم رکھتا ہے، مگر مخالفین اس پر تنقید کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
بھٹو کو قریب سے دیکھنے کا ہمیں بھی بہت شوق تھا جو یوں پورا ہوا کہ ان کے چل چلاؤ کے آخری سال میں ایک بہت بڑا سیلاب آ گیا۔1976 ء میں ملک کے کچھ دوسرے علاقوں کی طرح ہمارے آبائی ضلع اٹک میں آنے والے اس سیلاب سے چھوٹی چھوٹی سڑکیں تو ٹوٹیں، مگر قریب ہی نہ کوئی بڑا دریا تھا اور نہ ہی کوئی نہر کہ ڈھور ڈنگروں کو بہا لے جاتی، ہاں یہ ضرور ہوا کہ غریب دیہاتیوں کے کچے مکانوں کو یا تو نقصان پہنچا یا وہ پورے کے پورے ہی زمین بوس ہوگئے۔ اٹک کے مضافات میں دریائے ہرو کے کنارے ایک قدیم گاؤں ''بریار'' کے نام سے آباد ہے جس میں رہنے والے کسان اس وقت یا تو شہر میں مزدوری کرتے تھے یا تھوڑی سی زمین پر گندم اگا کر گزارہ کرتے تھے۔ اس سیلاب کی وجہ سے دریا ئے ہرو بھی خوب بپھرا، مگر اتنا نہیں کہ کسی کا گھر یا مال مویشی بہا کر لے جاتا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ مسلسل بارشوں کی وجہ سے گاؤں کے تقریبا تمام گھر زمین بوس ہو گئے۔
اس وقت کی حکومت تک جب یہ خبر پہنچی تو متاثرہ افراد کے گھر تعمیر کرنے کے ساتھ ان کی مالی امداد کا بھی اعلان کیا گیا جسے پورا کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو خود بریار چلے آئے۔ انھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں تک پہنچنا تھا، مگر کوئی ہیلی پیڈ موجود نہیں تھا۔ ہاں اٹک سے فتح جنگ جانے والی سڑک کے کنارے ایک کھلیان ضرور موجود تھا جسے ہماری زبان میں ''کھلواڑہ'' کہا جاتا ہے۔ اس کھلیان کو فوری طور پر ہیلی پیڈ بنایا گیا اورہماری آنکھوں کے سامنے ہیلی کاپٹر اس پر انتہائی حفاظت سے اتر گیا۔ آج کل تو کونسلرزکی حفاظت کے لیے بھی پولیس کا ٹھیک ٹھاک عملہ موجود ہوتا ہے، مگر اس وقت تک سیاسی عیاشیاں اپنی حد میں ہی تھیں اس لیے ملک کی بڑی سے بڑی سرکاری شخصیت کو بھی''دلہن'' کی طرح سیکیورٹی کی ڈولی میں بیٹھنے کے بجائے اپنے قدموں پر چل کر ہی جلسہ گاہ تک جانا پڑتا تھا۔
اسکول کے دوسرے دوستوں کے ساتھ اس دن ہم بھی چند سو افراد کی اس بھیڑ میں کھڑے تھے جس کے بالکل قریب سے اپنے چہرے پر تمکنت اور وجاہت کے سارے انداز لیے ذوالقار علی بھٹو ہیلی کاپٹر سے اترے اور دوڑتے ہوئے قریب ہی کھڑی جیپ میں سوار ہو گئے۔ تقریبا آدھے فرلانگ کے فاصلے پر واقع ایک کھیت میں ان کے استقبال اور تقریر کے لیے اسٹیج بنایا گیا تھا، جب جیپ وہاں آ کر رکی تووہ چھلانگ لگا کر انتہائی پھرتی سے نیچے اترے اوراسٹیج پر براجمان ہوگئے۔ بھٹو کی شخصیت بہت ہی پرکشش تھی، مگر سر کے بال کافی کم ہو چکے تھے جسے دیکھ کر مجھے ان کے سیاسی مخالفین کامشہور زمانہ نعرہ''آج نہیں تو کل چلے گا، گنجے کے سر پر ہل چلے گا'' یاد آگیا۔ اس نعرے کی آڑ لے کر چالیس سال پہلے جو ہل بنایا گیا تھا وہ بھٹو کے سر پر تو نہ چل سکا، مگر جمہوریت کی دھرتی پر اتنی بے دردی سے چلا کہ روشن خیالی کی نئی فصل اگنے کے بجائے پہلے سے لگے علم وفن اور سائنس و معیشت کے چھوٹے بڑے پودے بھی جڑوں سے اکھڑ گئے۔
پیپلز پارٹی کے اس دور میں بھٹو نوجوانوں اور بوڑھوں کے لیے نہ صرف ایک کرشماتی شخصیت بن کر ابھرا بلکہ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے لیڈروںکو بھی اس نے اپنے نعروں کے جال میں پھنسا لیا۔ اسلامی سوشلزم کا نعرہ جہاں مذہبی جماعتوں کی ناراضی سے بچنے کا نعرہ تھا، وہاں بائیں بازو کے سر کردہ کارکنوں کو اپنے قافلے میں شامل کرنے کے لیے روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی دیا گیا، مگر بائیں بازو کے جو کارکن اس قافلے میں شریک ہوئے انھیں اتنا نقصان پہنچا کہ آج تک پشیمان دکھائی دیتے ہیں، ہاں مذہبی جماعتوں نے شراب پر پابندی لگوانے، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے اور اتوار کے بجائے جمعے کی چھٹی کروانے جیسے کئی مطالبات منوا لیے۔ کچھ عرصے بعد ملک میں مذہبی نظام نافذ کرنے اور کچھ مزید مطالبات کے ساتھ جب پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے اکتیس نکات کو مذاکرات کی ٹیبل پر پر سجایا گیا تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور ملک میں خانہ جنگی جیسا ماحول پیدا کرنے والی طاقتیں جمہوریت کی مرغی کو حلال کرنے کے لیے اپنی بغل میں دبی آمریت کی چھری نکال چکی تھیں۔
اس چھری سے نہ صرف پیپلز پارٹی کے کارکن حلال ہوئے، بلکہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کے ہاتھ بھی کٹ گئے۔ بھٹو تختہ دار پر جھول گئے، لیکن پیپلز پارٹی کے جیالوں نے یہ بات ماننے سے صاف انکار کر دیا اور''کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔'' کا نعرہ لگاتے ہوئے ضیا الحق کے سامنے ڈٹ گئے اور تب بھی ڈٹے رہے جب غلام اسحاق خان نے بھٹو کی بیٹی اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت پر بدعنوانی کا الزام لگا کر اسے صرف بیس ماہ بعد اپنے عہدے سے برطرف کر دیا لیکن اپنے چاہنے والوں کی نظر میں بھٹو تب بھی زندہ تھا جب اس کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر فاروق احمد لغاری نے ایک بار پھر اس کی بیٹی پر بد عنوانی اور دیگر الزام لگا کر اس کی حکومت ختم کر دی۔
پرویز مشرف کے دور میں بینظیر بھٹو کو انتہائی بیدردی سے قتل کیا گیا تو ایسا لگا جیسے بھٹو کو اب تک زند ہ رکھنے والی سوچ بھی زخمی ہو گئی ہو اور اس کے نام کے ساتھ جڑے نعرے بھی بدل دیے جائیں گے۔ بعد کے حالات نے شاید بھٹو کی تصوارتی زندگی کو قائم تو رکھا، مگرپارٹی کے کچھ کارکن آہستہ آہستہ یہ تسلیم کرنے لگے کہ ان کا محبوب رہنما ذوالفقار علی بھٹو انتقال کرچکا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ کچھ دن قبل لاہور کے حلقہ نمبر 120 کے ضمنی انتخاب کے دوران ہونے والے معرکے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو پڑنے والے صرف چودہ سو چودہ ووٹوں کی خبر سن کر بھٹو کی موت کو تسلیم کرنے والوں کی طرح باقی ماندہ کار کنوں کو بھی اس بات کا یقین ہوجائے گاکہ ذوالفقارعلی بھٹو کا واقعی انتقال ہو چکا ہے۔