پسماندگی کا آسیب
نارتھ کراچی و کچی آبادیوں میں پسماندہ طبقہ رہائش پذیر ہے۔ جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
معاشی حالات کا عدم توازن سماجی زندگی میں انتشار پیدا کردیتا ہے۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہوسکیں تو عوامی صفوں میں بے اطمینانی بسیرا کرلیتی ہے۔ گوکہ پیسے سے خوشیاں نہیں خریدی جاسکتیں مگر اچھی زندگی کا خواب اچھی آمدنی کے بغیر ادھورا رہ جاتا ہے۔طبقاتی درجہ بندی، آمدنی کے حساب سے کی جاتی ہے۔ دس سے بیس ہزار تک آمدنی والے لوگ غربت کے دائرے میں آتے ہیں اور زندگی کے مصائب کا سامنا کرتے ہیں۔ جب کہ پچاس ہزار سے لاکھ تک کمانیوالے افراد متوسط طبقے کے زمرے میں آتے ہیں۔
البتہ دو لاکھ یا اس سے زائد آمدنی خوشحال طبقے کی نشاندہی کرتی ہے۔ معیار زندگی کو برقرار رکھنے میں اچھا بجٹ، سادگی اور پیسے کا صحیح استعمال اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں متوسط طبقے کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ 2015ء کی گلوبل ویلتھ کی رپورٹ کیمطابق، متوسط طبقے کی فراوانی میں پاکستان دنیا کا اٹھارہواں ملک ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم میں پیشرفت ہونے کے ساتھ خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوئی ہیں۔ متوسط طبقہ اگر بہتری کی طرف بڑھا ہے تو غریب لوگوں کی بدحالی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کراچی شہر کی مثال سامنے ہے۔
جہاں لیاری، اورنگی، لانڈھی، لالو کھیت، کورنگی، گولیمار، نارتھ کراچی و کچی آبادیوں میں پسماندہ طبقہ رہائش پذیر ہے۔ جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ان کا تناسب شہر کی مجموعی آبادی میں پچیس سے تیس فیصد بنتا ہے۔ یہ لوگ کم آمدنی والے کام کرتے ہیں۔ جن کی صحت بری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔ جو علاج کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ پسماندہ طبقہ پورے ملک میں بری طرح پس رہا ہے۔ مالی سال 2017-18ء کے بجٹ میں مزدور کی اجرت پندرہ ہزار روپے طے کی گئی تھی جب کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے مزدور کی اجرت پچیس ہزار مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔ حالیہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری جانب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے مطابق یہ اجرت اکتیس ہزار روپے مقرر کی جانی چاہیے۔ مگر ہر صوبے میں مختلف اجرت دی جاتی ہے جو اکثر کم ہوتی ہے۔
اکثر کارخانوں میں ماحولیاتی آلودگی اور صفائی کے ناقص انتظام کی وجہ سے مزدوروں کی صحت کو کئی خطرات درپیش رہتے ہیں۔ بیماری کی صورت میں یہ لوگ علاج کرانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ انھیں سرکاری سطح پر مفت علاج کی سہولت کی اشد ضرورت ہے۔اس ملک کے عوام کو جمہوریت سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں جو خاک میں مل کر رہ گئیں۔ کیونکہ جمہوریت کا مقصد فلاحی ریاست کی تشکیل ہے۔ بھٹو دور حکومت میں ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کے نعرے کے تحت چند پروگرام شروع کیے گئے تھے جن میں Programme Integrated Rural Development اور Peoples Work Programme تھا۔ جس کے تحت زرعی اصلاحات لائی گئیں اور گاؤں کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن قانون ساز اسمبلی اور انتظامی اداروں میں کابینہ میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی واضح نمایندگی تھی۔
جنھوں نے ہر دور میں ذاتی مفاد اور مراعات کو ترجیح دی۔ جب کہ عوامی زندگی شکستہ حال گاڑی کی مانند سست رفتاری سے منزل کی جانب گامزن رہی۔ اس دور میں ملک سے باہر کمانے کا رحجان عام تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں دبئی کا رخ کرنے لگے۔ گھروں میں خوشحالی آنے لگی۔ عورت بھی سماجی و معاشی طور پر آگے بڑھی۔ 1973ء کے آئین کے مطابق عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ان کے تشخص کو درجہ ملنے سے خواتین کی بڑی تعداد سیاست میں حصہ لینے لگی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں بھی خواتین ہر شعبے میں آگے آئیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ معاشی بہتری و خود انحصاری میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ چل کر کام کیا۔متوسط طبقے میں ایک طبقہ خالص متوسط طبقہ تھا، جو روشن خیال اور تعلیم کے سفر میں آگے تھا۔ انسانی و اخلاقی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بنا رہا۔ جس نے گھر کے یونٹ کو مضبوط بنایا اور مشترکہ کنبے کے نظام کو اہمیت دی۔ اس طبقے کی خواتین سلیقہ مند، مصالحت پسند و ایثار کا جذبہ رکھتی تھیں۔ معاشرتی ترقی میں ایک منظم گھر کا اہم کردار ہوتا ہے۔
دوسرا طبقہ مصنوعی متوسط درجے کا حامل مادیت پرستی کا شکار تھا۔ اچھے برے ذرایع سے پیسہ کمانے کو ترجیح دیتا۔ کاروبار کا رحجان بڑھا اور لوگ پرآسائش زندگی کے عادی ہونے لگے۔ سماجیات کی ماہر محترمہ تنویر جونیجو اس ضمن میں لکھتی ہیں ''1947ء سے پہلے پاکستان یا برصغیر میں ''مضبوط متوسط کلاس'' کی کوئی روایت موجود نہ تھی، لوگوں کا تعلق یا تو لوئر کلاس سے تھا یا اپر کلاس سے۔ البتہ انگریزوں نے اپنے دور میں اپنی پالیسی و اصلاحات کے باعث ایک محدود Elite Class پیدا کی جو ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ ہجرت کے باعث وہ سندھ سے رخصت ہوئے تو نتیجتاً ایک خلا پیدا ہوگیا۔''معاشی ناہمواری کا سماج پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔ نیا نیا پیسہ آتا ہے تو سماجی قدریں بدلنے لگتی ہیں۔ مشترکہ کنبے کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ انفرادی خوشیوں کو اہمیت ملنے لگتی ہے۔ آج گھر کشادہ ہیں، مگر دل تنگ ہوچلے ہیں۔ جب کہ پہلے گھر چھوٹے تھے مگر دل وسیع ہوا کرتے تھے۔ معاشرتی تباہی ذہنی انتشار سے آتی ہے ناکہ غربت سے۔ لوگ بھوک سے نہیں مرتے بلکہ بسیار خوری سے جلدی مر جاتے ہیں۔
اس وقت حالت زار یہ ہے کہ متوسط طبقہ خوشحالی کے باوجود بناوٹ کے جال میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ آسائشیں ہیں مگر ذہنی سکون نہیں ہے۔ تعلیم ہے مگر اچھی تربیت کا فقدان ہے۔ یہ طبقہ چند اچھے اصولوں پر قائم نہ رہ سکا جو کبھی اس کی پہچان تھے۔ یہ اصول قوم کی اخلاقی بقا کا جواز بنتے ہیں۔دوسری جانب اس ملک کا نچلا طبقہ ہے جو پسماندگی میں بھی مسکرانے کا سلیقہ رکھتا ہے۔ انھیں سرکاری سطح پر مفت علاج کی سہولت، تعلیم اور مناسب ہاؤسنگ اسکیم کی ضرورت ہے۔ لہٰذا کچی آبادیوں و خیموں میں بدحال زندگی گزارنیوالے افراد بھی حکومت کی ایسی انسان دوست پالیسی کے منتظر ہیں جو ان کے دکھوں میں کمی واقع کرسکے۔دوسری طرف بااثر لوگوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے آگے آنا چاہیے۔ ہر علاقے میں کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت غریب بچوں کو مفت تعلیم کا اہتمام کیا جائے تو علم کی روشنی منفی رویوں میں تبدیلی لانے کا سبب بنے گی۔ گوکہ فلاحی کاموں کی طرف رجحان کم ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی تنخواہوں میں سے ہر مہینے کتنا پیسہ فلاحی کاموں کے لیے مختص کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب سے معاشرے کی فلاحی سوچ و اقدار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جب تک پسماندگی کا آسیب ملک سے چمٹا رہے گا، انسانی قدریں زوال پذیر رہیں گی۔