چاکلیٹ ۔۔۔۔۔ جنگلات کی قاتل

چاکلیٹ ایک درخت کے پھل سے نکلنے والے بیجوں سے بنائی جاتی ہے

فوٹوفائل

چاکلیٹ دنیا بھر میں نہایت شوق سے کھائی جاتی ہے۔ بچے تو خاص طور سے اس کے شوقین ہوتے ہیں ۔ دنیا کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ چاکلیٹ کی طلب بڑھتی جارہی ہے اور اسی رفتار سے اس صنعت کا حجم وسیع ہورہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال مارس، نیسلے، مونڈیلیز، فیریرو گروپ سمیت دنیا کی بڑی چاکلیٹ ساز کمپنیوں کی مجموعی آمدنی 70 ارب ڈالر تھی۔

چاکلیٹ ایک درخت کے پھل سے نکلنے والے بیجوں سے بنائی جاتی ہے جسے کوکو کہا جاتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ کاشت آئیوری کوسٹ میں ہوتی ہے۔ کوکو کے بیجوں کی مجموعی پیداوار کا 40 فی صد اسی ملک سے حاصل ہوتا ہے۔ آئیوری کوسٹ کے بعد گھانا، نائجیریا، سیرالیون، کیمرون اور ٹوگو کوکو کی پیداوار میں اہم مقام رکھنے والے افریقی ممالک ہیں۔ سیرالیون سے شروع ہوکر کیمرون پر ختم ہونے والی اس پٹی میں بیس لاکھ کسان کوکو کی کاشت کرتے ہیں، مگر سب سے زیادہ پیداوار آئیوری کوسٹ اور پھر گھانا میں ہوتی ہے۔ افریقی ممالک مجموعی طور پر کوکو کی عالمی پیداوار کا 70 فی صد سے زائد فراہم کرتے ہیں۔

چاکلیٹ کی بڑھتی ہوئی کھپت کی وجہ سے کوکو کی طلب میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کے لیے آئیوری کوسٹ، گھانا اور دوسری افریقی ممالک میں زیرکاشت رقبہ بڑھانے کے لیے جنگلات کا صفایا کیا جارہا ہے۔ ایک دور میں آئیوری کوسٹ کے ایک چوتھائی رقبے پر بارانی جنگلات تھے مگر اب یہ رقبہ کم ہوکر صرف چار فی صد رہ گیا ہے۔ جنگلات کاٹ کر قابل کاشت بنائے گئے تمام رقبے پر کوکو کے پیڑ لگائے گئے ہیں۔ دوسرے افریقی ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے مگر آئیوری کوسٹ میں جنگلات کا صفایا نہایت تیزی سے ہوا ہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ چاکلیٹ کے جنگلات پر اثرات کے حوالے سے ایک ماحولیاتی ادارے کی حال ہی میں شائع کردہ رپورٹ کہتی ہے کہ اگر اس سلسلے میں اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 ء تک آئیوری کوسٹ اور گھانا میں جنگلات مفقود ہوجائیں گے۔


آئیوری کوسٹ میں حکومت نے جنگلات کی کٹائی کو ممنوع قرار دے رکھا ہے مگر کاشت کاروں اور متعلقہ محکمے کے اہل کاروں کی ملی بھگت سے درختوں کا صفایا کرکے زمین کو کھیتوں میں بدل دیا جاتا ہے اور اس پر کوکو کی کاشت کردی جاتی ہے۔ کوکو بھی اگرچہ پیڑ ہی ہے مگر یہ جنگلات کا متبادل ثابت نہیں ہوسکتا جس میں قسم قسم کے درخت ہوتے ہیں اور جن کی لکڑی تعمیراتی ضروریات پورا کرنے کے کام آتی ہے۔ علاوہ ازیں جنگلات، جنگلی حیاتیات کا مسکن ہوتے ہیں اور یہاں جان داروں کی بقا کا ایک کامل نظام موجود ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں قائم چاکلیٹ ساز کمپنیاں بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ٹھیکیدار انھیں کوکو کی جو رسد فراہم کرتے ہیں اس میں ممنوعہ علاقے میں کاشت کردہ پیڑوں سے حاصل ہونے والے بیج بھی شامل ہوتے ہیں۔ کمپنیاں اگرچہ ٹھیکیداروں کو تنبیہہ کرتی ہیں کہ انھیں کوکو کی ' غیرقانونی'فصل فراہم نہ کی جائے مگر اس تنبیہہ کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے، کیوں کہ کمپنیوں کے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ انھیں فراہم کیے جانے والے خام مال میں کوکو کی قانونی پیداوار کتنی ہے اور غیرقانونی کتنی ۔

حالیہ برسوں کے دوران آئیوری کورسٹ اور گھانا میں حکومتوں کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے علاقوں میں درختوں کی کٹائی کی رفتار دگنی ہوگئی ہے۔ کوکو کی پیداوار کاشت کاروںکے لیے دوسری فصلوں سے زیادہ نفع بخش ہے۔ اس لیے وہ زیرکاشت رقبے میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک برطانوی جریدے کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس کاروبار میں عام کاشت کاروں کے علاوہ انتہائی بااثر زمین دار بھی شامل ہیں جو اپنے اثرورسوخ اور رشوت سے کام لے کر سرکاری حکام کا منھ بند کردیتے ہیں اور جنگلات کا صفایا کرتے ہوئے زیرکاشت رقبہ بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔

ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ کوکو ایک ایسی بلا ہے جو اپنے آپ کو کھاجائے گی۔ جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ نہ تھما تو یہ ناپید ہوجائیں گے۔ جنگلات نہ ہونے سے ماحولیاتی چکر متأثر ہوتا ہے، بارشیں نہیں ہوتیں، خشک سالی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کوکو کے پیڑ بھی زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ لہٰذا ماہرین کہتے ہیں کہ افریقی ممالک میں جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ روکا جائے اور اس ضمن میں چاکلیٹ ساز کمپنیاں اور حکومتیں مل کر جامع لائحہ عمل تشکیل دیں۔
Load Next Story