آرڈیننس کی منسوخیپی پی متحدہ الیکشن میں فوائد سمیٹیں گی

کراچی میں آپریشن کی صورتحال بنی تو پہلے سے غیر مستحکم شہر میں حالات بدتر ہو سکتے ہیں


مظہر عباس February 22, 2013
کراچی میں آپریشن کی صورتحال بنی تو پہلے سے غیر مستحکم شہر میں حالات بدتر ہو سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

سندھ میں پیپلز امن کمیٹی کے ارکان پر مقدمات کے خاتمے اور صوبائی اسمبلی میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء کی منسوخی کے اقدامات سے پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے مابین اختلافات تو مزید بڑھ سکتے ہیں مگر اپنے متضاد رجحانات کی بدولت دونوں جماعتیں سندھ کے بجائے آئندہ الیکشن میں فوائد بھی سمیٹ سکتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان دو اقدامات کا مقصد کیا ہے ، کیا پیپلز پارٹی لیاری سے الیکشن جیتنا چاہتی ہے یا اندرون سندھ میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء سے پارٹی کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ چاہتی ہے۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے آپ کو تنقید کا نشانہ بنائیں گی کہ انہوں نے سیاست کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا۔ پیپلز امن کمیٹی کے ارکان کے خلاف مقدمات کی واپسی سے اب گیند عزیر بلوچ، ظفر بلوچ، حبیب جان، ماسٹر نثار اور دیگر رہنمائوں کی کورٹ میں ہے کہ پیپلز پارٹی اگر اپنی روایتی سیٹ حاصل کر لیتی ہے تو الیکشن میں صورتحال مختلف ہوگی۔

نبیل گبول، رفیق انجینئر جیسے رہنمائوں کے بجائے قادر پٹیل پارٹی میں اپنی پوزیشن بحال کرسکتے ہیں لیکن اگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے دور کو بحال کرنے کی کوشش کی، کریک ڈائون یا آپریشن کے لئے صورتحال بنی تو پہلے سے غیر مستحکم کراچی میں حالات بد سے بدتر ہو سکتے ہیں، ہو سکتا ہے صدر زرداری یہ سب پسند نہ کریں۔ اگرچہ اب بھی اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو برتری حاصل ہے لیکن پہلی بار پارٹی کے اندر گھبراہٹ کی علامات بھی ظاہر ہو رہی ہیں خاص طور پر سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 12ء کیخلاف مہم کے دوران پیر پگاڑا اپنے والد کے برعکس بہت بھاری بھرکم شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق بلدیاتی نظام کے ایشو پر عوامی اجتماع کے حوالے سے انہوں نے پیپلز پارٹی سے زیادہ بڑے حجم کے جلسے کئے ہیں۔

8

 

بظاہر سندھ کارڈ پیر پگاڑا کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے جو اندرون سندھ جارحانہ مہم کے بعد مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ وسیع تر اتحاد تشکیل دے رہے ہیں۔ حتٰی کہ سندھ اسمبلی میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی منسوخی کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے جو فنکشنل لیگ اور سندھی قوم پرستوں کو ملیں گے جو اس آرڈیننس کی منسوخی کو اپنی فتح قرار دینگے۔ متحدہ کو مذکورہ آرڈیننس کے اجرا سے لیکر آج تک کوئی اتحادی نہیں مل سکا لیکن یہ بات بڑی دلچسپ ہو گی کہ وہ کس طرح اس ایشو سے نبٹتے ہیں، کیا وہ اس کیخلاف بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائینگے یا پی پی کے ردعمل کا انتظار کرینگے۔

سندھ کیلیے یہ بات انتہائی بدقسمتی کی رہی ہے کہ گزشتہ 5 سال کے دوران ایک دوسرے کے اتحادی رہنے کے باوجود سندھ کی دو بڑی نمائندہ جماعتیں پیپلز پارٹی اور متحدہ حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کا دل جیتنے میں ناکام رہیں۔ ماضی میں بھی ان کے اتحاد ایکدوسرے کیخلاف ناخوشگوار واقعات پر اختتام پذیر ہوئے۔ متضاد رجحانات شاید ان کی سیاست میں بقا کی واحد وجہ ہے۔ 1988 میں عام انتخابات سے قبل حیدر آباد میں 300 افراد کا قتل ہوا جس کے بعد اندرون سندھ پیپلز پارٹی جبکہ شہری حلقوں میں متحدہ نے کامیابی سمیٹی۔ 1994-95 میں آپریشن کے نتیجے میں سینکٹروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے جس کے بعد آصف زرداری کے نائن زیرو پر معافی مانگنے کے بعد تنائو ختم ہوا۔ کیا ہم پھر الیکشن سے قبل قتل عام، کریک ڈائون، امن و امان کی خراب صورتحال یا مزید اموات دیکھنے جا رہے ہیں جس کے بعد قیادت ایک دوسرے سے مفاہمت کرے تو اسے صرف سندھ کے لیے بدقسمتی کہا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں